بغوی:محی السنۃ اور مصابیح السنة

بغوی: حسین بن مسعودفراءنام ،محی السنہ لقب اورابومحمدکنیت ہے۔

علامہ بغوی امام مفسرمحدث عقلی ونقلی علوم کے ماہر،علم وعمل کے جامع ،عابدوزاہدبزرگ تھے۔

آپ کی تاریخ ولادت کتب تاریخ میں نہیں ملتی،”معجم البلدان“میں آپ کی تاریخ ولادت ۴۳۶ھ درج ہے ،خراسان میں”مرو“اور”ہرات“کے درمیان ”بغ“یا”بغشور“نامی قصبے میں پیداہوئے ،بغوی اسی قصبے کی طرف نسبت ہے ،جس سے آپ علامہ بغویؒ کے لقب سے مشہورہیں۔

علامہ بغوی علم کا سمندر،عمل کا پیکرتھے،آپ نے عابدانہ زاہدانہ زندگی گزاری ،آپ کی زندگی میں آپ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوگیا،آپ نے ان کی میراث میں سے کچھ بھی نہیں لیا ،آپ باوضودرس دیاکرتے تھے۔

جب آپ نے اپنی شاندارکتاب ”فقہ السنة“ کی تصنیف فرمائی ،توخواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جیسے تم نے میری سنت کو زندہ کیا ،اللہ تمہارے نام کو بھی زندہ رکھے ،اسی وقت سے آپ کا لقب محی السنہ پڑگیا۔(مرقاة المفاتیخ خطبة الکتاب۵۴/۱)

آپ کے اساتذہ وتلامذہ

علامہ بغوی نے’ خراسان“ کے فقیہ قاضی حسین بن محمدمروزی سے بطورخاص علم حاصل کیا اورآپ کے اساتذہ میںسے ”ابوعمرعبدالواحدالملیحی“ابولحسن بن علی بن یوسف الجونی “وغیرہ ہیں ۔

آپ سے ایک بڑی جماعت نے علم حاصل کیا ،جن میں سے ”ابوموسی المدینی“،”ابوالحبیب سہروردی“”ابوالفتوح الطائی“اور” ابومنصورالمعرف بحفدہ “ ہیں اورآپ سے ایک بڑی خلق خدانے حدیث کا علم حاصل کیا۔

علامہ بغوی کی تصانیف

آپ کی مشہورکتابیں علم تفسیرمیں”معالم التنزیل “علم فقہ میں”التھذیب“فقہ وحدیث میں”شرح السنہ “ حدیث میں ”الجمع بین الصحیحین “ اور”مصابیح السنہ“ہے ۔

وفات

آپ نے پچھتر(۷۵)سال سے زائدسال کی عمر پائی اور ۵۱۶ ھ میں خراسان کے شہرمیں وفات پائی اوراپنے استاذ محترم حسین بن محمدکے پہلومیں”مقبرئے طالقاقانی“ میں دفن کے گئے۔(مرقاة المفاتیخ خطبة الکتاب۸۴/۱)

مصابیح السنة کا تعارف

علامہ بغوی ؒ کی مشہورکتاب ”مصابیح السنة“ ہے ،اپنی کتاب کا تعارف خودعلامہ بغویؒ نے کتاب کے مقدمہ میں ان الفاظ میں کرایاہے۔

ھذہ الفاظ صدرت عن صدرالنبوة ،وسنن سارت عن معدن الرسالة ،واحادیث جاءت عن سیدالمرسلین ،وخاتم النبیین ،ھن مصابیح الدجی خرجت عن مشکوة التقوی ممااوردہ الائمة فی کتبھم جمعتھا للمنقطعین الی العبادة لتکون لھم بعدکتاب اللہ حظا من السنن ،وعوناعلی ماھم من الطاعة ،وترکت اسانیدھا حذرامن الاطالة علیھم ،واعتمادا علی نقل الائمة ،وربماسمیت فی بعضھا الصحابی الذی یرویہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لمعنی دعاالیہ۔(مقدمہ مشکوة)

یہ وہ الفاظ ہیں جوسینہءنبوت سے صادرہوئے ہیں،یہ ہدایت کے راستے ہیں جومنبع رسالت سے چلے ہیں،یہ وہ احادیث ہیں جوسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں،تاریکی کے چراغ ہیں اورمشکوة تقوی سے نکلے ہیں ۔

میں نے ان احادیث کو ان لوگوں کے لئے جمع کیا ہے جو عباد ت کے لئے فارغ ہوچکے ہیں تاکہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول اللہ کا ایک وافرحصہ انھیں حاصل ہوجائے اوراطاعت وفرمانبرداری میں ان کے لئے معین ومدگا ثابت ہو۔

کتاب کا تعارف اور اسلوب

مذکورہ عبارت میں علامہ بغوی ؒ نے اپنی کتاب کا تعارف اور اسلوب کومقدمہ میں مختصراًذکرکیاہے

الف:بلاسندصرف متن حدیث کو ذکرکیاہے، ان ائمہ پر اعتمادکرتے ہوئے جنہوں نے اس حدیث کی تخریج کی ہے ۔

ب:ہرباب کو دوحصوں میں تقسیم کیاہے (۱)صحاح (۲)حسان

صحاح سے مراد وہ احادیث ہیں جن کو امام بخاری ؒاورامام مسلم ؒ دونوں نے تخریج کی ہے یا صرف ان دونوں میں سے کسی ایک نے تخریج کی ہو۔

حسان سے مراد وہ احادیث ہیں جن کو امام ابوداؤد،امام ترمذیؒ،امام نسائی ،ابن ماجہ ؒامام داراقطنی،امام دارمی،امام بیہقی ،امام رزین وغیرہ حضرات نے روایت کی ہوں۔

جوروایت ضعیف یا غریب ہو، اس کی طرف میں نے اشارہ کردیاہے اورمنکریاموضوع روایات کو ذکرکرنے سے احتراز کیاہے ۔

یہ کتاب کافی مشہورہوئی ،علماءکرام نے اس کو پسندکیا ،اس پر تعلیقات اورشرحیں لکھیں۔

ملاعلی قاری ؒ نے فرمایا:علامہ بغوی ؒ نے اس کتاب میں ایسی احادیث کو جمع کیا ہے جن سے کوئی طالبِ آخرت مستغنی نہیں ہوسکتا۔

مصابیح السنہ اور موضوع احادیث

بعض علماءنے علامہ بغویؒ کی کتاب ”مصابیح السنہ “ کی بعض احادیث پر کلام کرتے ہوئے انہیں موضوع قراردیاہے جن میں سے ابوحفص عمربن علی عمر ہیں جنہوں نے اٹھارہ(۱۸)احادیث کو موضوع کہا ہے ۔

حافظ ابن حجرؒ کے معتقدین نے حافظ ابن حجرؒ سے ان احادیث سے متعلق استفتاءکیا، تو حافظ ابن حجرؒ نے ان احادیث میں سے ہرحدیث پر تسلی بخش بحث کرتے ہوئے کسی بھی حدیث کو موضوع نہیں کہا ہے،یہ رسالہ مقدمہ طیبی اورمرقات میں اجوبۃ الحافظ بن حجرالعسقلانی علی رسالۃ القزوینی کے نام سے ملحق ہے ۔علامہ بغوی اور مصابیح السنة