مدارس میں دین پڑھارہے ہیں ،سکھانہیں رہےہیں

مدارس میں دین پڑھارہے ہیں ،سکھانہیں رہےہیں:حضرت مولانامفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ صدردارالعلوم کراچی

الحمدللہ و کفی وسلام علی عبادہ الذین الصطفی، اما بعد :فاعوذ با للہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الر حمن الر حیم لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولاًمن انفسھم یتلو علیھم آیا تہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمةوان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔(سوة آل عمران: ۱۶۴)

حضرات اساتذہ اکرام ،برداران عزیز ،میری ماؤوں بہنوں اوربیٹیوں! السلام علیکم وحمة اللہ وبرکاتہ

الحمد للہ ہمارے دینی مدارس میں تعلیم بنسبت سرکاری تعلیمی اداروں کے بدرجہابہتر ہے ،ان کے ہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے،تعلیم تو ہمارے دینی مدرسوں میں ہورہی ہے، الحمد للہ،اساتذہ بھی محنت کرتے ہیں،طلبہ بھی محنت کرتے ہیں،الحمدللہ ہمارے مدارس میں جو معیاری مدرسے ہیں، ان میں تعلیم اچھی خاصی ہورہی ہے،اس کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، بہت کچھ اصلاحات اوراضافوں کی ضرورت ہے،وہ سب باتیں آتیں رہتی ہیں، وفاق میں بھی زیرغور آتی ہیں اور ان محاضرات میں بھی آئی ہوں گی ؛لیکن جس چیز کا میں بڑا خلا محسوس کررہاہوں اور اس کی وجہ سے بہت تشویش ہے،وہ یہ ہے کہ ہم اپنے مدارس میں دین پڑھارہے ہیں، سکھا نہیں رہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔

دار العلوم دیوبند دن میں درسگاہ ہوتا اوررات کو خانقاہ

ہمارے دادا حضرت مولانا یاسین صاحبؒ جو دارالعلوم دیوبندکے ہم عمر تھے، حضرت گنگوہیؒ کے عاشق زارتھے اور مرید خاص تھے،حکیم الامت اشرف علی تھانوی ؒ کے ہم سبق تھے اور دونوں نے دورہ حدیث بھی ایک ساتھ پڑھا ہے،ان کا ایک ملفوظ میں نے اپنے والد سے بار بار سنا ہے
میں نے دار العلوم دیوبند کا وہ دور دیکھا ہے کہ جب یہاں کے صدر مدرس اور مہتمم سے لے کر چپراسی اور دربان تک سب صاحب نسبت ولی ہوتے تھے‘‘میں نے والد صاحب ؒ سے یہ بات بھی سنی ہے کہ دار العلوم دیوبند دن میں درسگاہ ہوتا اوررات کو خانقاہ بن جاتا تھا۔

تعلیم کے ساتھ تربیت ضروری

تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ایک لازمی حصہ تھی ،ہر استاذ اس کی ضرورت سمجھ کر اس کا اہتمام کرتا تھا اور طلبہ بھی اس کی کوشش میں لگتے تھے ،دیوبند کے علماءاور بزرگوں کو اللہ تعالی ٰ نے اتباع ِ سنت کا خاص ذوق عطاءفرمایاتھا،انہوں نے اس بات کو سمجھا تھا کہ آ ں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے چارمقاصد قرآن کریم میں چار کئے گئے ہیں :یتلو علیھم آیا تہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة

ان میں سے تین چیزیں تعلیم سے متعلق ہیں،الف: تلاوت ِآیات یعنی تعلیم ِ الفاظ ِقرآن جو قرآنی مکاتب میں تعلیم ہو رہی ہے،ب:تعلیم ِ کتاب یعنی قرآن کے معانی کی تعلیم ،دینی مدارس کے درسِ نظامی میں شامل ہے،ج و الحکمة: جمہور کے نزدیک حکمت سے سنت مراد ہے ،سنت کی تعلیم بڑے مدارس میں ہورہی ہے ،بعثت کے چارمقاصد میں الفاظ ِ قرآن کی تعلیم ،معانی قرآن کی تعلیم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تین کام تعلیم ہی سے متعلق ہیں۔

تعلیم کے ساتھ تربیت رسول اللہ ﷺ کا فرضِ منصبی

د:چوتھی چیز کا تعلق تربیت سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو برے عقائد ،برے اعمال اور برے اخلاق سے پاک کرتے ہیں ، تعلیم کے ساتھ تربیت کو رسول اللہ ﷺ کا فرضِ منصبی قرار دیا گیا ہے،علما ءکرا م ورثة الانبیاءہیں اور وارث کا حصہ مورث کے ایک ایک پرزے اورایک ایک سوئی تک میں ہوتا ہے،مورث نے جو کچھ ترکہ چھوڑاہے ،اس کے ذرہ ذرہ میں ، اگر اس نے کوئی دوا بھی چھوڑی ہے ،تو ووہ بھی مشترک ہے،وارث کا حصّہ ہے۔

تعلیم انبیاےءکرام علیہم السلام کی میراث ہے جو علماءکو ملی ہے تربیت بھی میراث ہے حضور ﷺکی، ہمارا فرض منصبی جس طرح تعلیم ہے تربیت بھی ہے اوربزرگانِ دیوبند نے اس حقیقت کو سمجھا تھا، اس لئے وہاں تعلیم و تربیت دونوں ہورہی تھی اور اس کا حال آپ نے دیکھا سب صاحب نسبت ہوتے تھے، جب اساتذہ ایسے تھے ،تو طلبہ تو ان کو دیکھ کر ہی سیکھیں گے ،خوب سمجھ لیجئے تربیت تقریروں سے نہیں ہوسکتی ،وعظ و نصیحت سے نہیں ہوسکتی ،کتابوں اور مضامین سے نہیں ہوسکتی، محاضرات سے نہیں ہوسکتی، تربیت تو عملی طور پر مشق کرا نے سے ہو تی ہے۔

عملی نمونہ دیکھ کرعمل سیکھاجاتاہے

ہم اورآپ نے نماز پڑھنا سیکھا ہے ، بتائیے کتابوں سے سیکھا ہے یا اپنے بزرگوں کو نماز پڑھتے ہو ئیے دیکھ کر یا مسجدمیں نمازیوں کو نمازپڑھتے ہوئیے دیکھ کرسیکھا ہے ؟آپ غورفر مائیے : ہم میں سے کسی نے صرف کتاب پڑھ کر نماز سیکھی ہے ؟

کتاب سے ہمیں مسائل کی تفصیل جاننے کے لئے مدد تو ضرور ملی گی؛ مگر رکوع کس طرح ہوگا ؟سجدہ کس طرح ہو گا ؟ قیام و قومہ کس طرح ہوگا ، قعدہ کس طرح ہو گا ؟ یہ سب باتیں ہم نے عملی طور پر دیکھنے سے سیکھی ہیں ،کتاب سے تعلیم تو ہوتی ہے تربیت نہیں ہوتی ،تربیت کے لئے تربیت کرنی پڑ تی ہے ،آج بھی اسکولوں اور کالجوں میں سائنس کی تھیوری پڑھائی جاتی ہے ، اس کے بعد لیب میں اس کی ٹریننگ کرائی جاتی ہے ،ہمارے مدارس۔ افسوس صد افسوس ہے ۔موجودہ احوال میں تربیت سے تقریباًخالی ہوگئے ہیں ۔

معاشرہ متأثر نہیں ہورہا ہے ؛کیوں کہ ہمارا عملی نمونہ صحیح نہیں

جن مدارس میں اچھی معیاری تعلیم ہو رہی ہے، وہاں بھی تربیت کا تقریبا ًفقدان ہے ،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے طلبہ کی تعدادزیادہ ہے ، علماءاور مدارس کی تعداد زیادہ ہے ،اس کے باوجود معاشرہ پر علماءکے اثرات ، علماءکی گرفت روز بروز کمزور اور ڈھیلی ہوتی جارہی ہے اور معاشرہ متأثر نہیں ہو رہا ،معاشرہ علماءسے رہنمائی نہیں لے رہا ۔

معتقدین کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو ہمارے ساتھ دینی کاموں میں لگی ہوئی ہے ،ہمیں اس پر مطمئن نہیں ہو نا چا ہئے کہ ہاتھ چومنے والے بہت سارے ہیں ،معاشرہ کااکثر حصہ ہم سے متأثر نہیں ہورہا ہے ؛کیوں کہ ہمارا عملی نمونہ صحیح نہیں ہے، ہمارے طلبہ کا طرزِ زندگی قابل اطمینان ، قابل اقتداءنہیں ہے اوریہی طلبہ کچھ عرصہ بعد عالم بن جاتے ہیں،ان کا طرز ِعمل ایسا نہیں ہے جو دوسروں کو متأثر کر سکے ۔

دنیوی اموربھی عملی نمونہ دیکھ کرہی سیکھے جاتے ہیں

گاڑی چلانے کی ٹریننگ آپ نے دیکھی ہے ،بتلائیے کہ اگر گاڑی چلانے کا مکمل طریقہ کسی کتاب میں لکھ دیا جائے اور تصویر یں بنابنا کر دکھا دیا جائے کہ یہ کلچ ہے ،یہ اسٹاٹرہے ،یہ اسٹیرنگ ہے، یہ بریک ہے ، یہ فلاں ہے ، یہ فلاں ہے ، پہلے یوں ہوگا،پھر یوں ہوگا ، کون سا گیر کس طریقہ سے کب بد لا جائے گا اور کس طریقہ سے ہوگا ؟آپ کو کتاب میں مکمل طریقہ پڑھا دیا جائے اور سمجھا دیا جا ئے، پھر حفظ بھی کروادیا جا ئے،امتحان بھی لیا جائے اور اس کے اندر آپ کو پہلی پوزیشن بھی مل جائے ؛لیکن آپ سے کہا جائے کہ گاڑی چلائے۔

اگر پہلے آپ نے گاڑی نہیں چلائی ہے، تو میں آپ کی گاڑی میں بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہوں گا، اگر بیمہ بھی کرا رکھا ہو ، تب بھی نہیں بیٹھوں گا ؛کیوں کہ آپ نے گاڑی چلانا پڑھا ہے، سیکھا نہیں ہے ۔

علم محفوظ لیکن عمل نہیں،عمل کا طریقہ نہیں

بالکل یہی حالت ہماری ہے، الحمد للہ علم ہمارے پاس محفوظ ہے ،احادیث اور قرآن کی تفاسیر جو بزرگوں سے چلی آرہی ہیں، پندرہ سو سال سے تقریبا ہمارے پاس محفوظ ہیں؛ لیکن عمل نہیں رہا ،علم پر عمل کا طریقہ نہیں رہا، لوگ ہمارے اوپر اسی وجہ سے اعتماد نہیں کرتے، وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس کتاب بہت اچھی ہے ،بالکل بر حق ہے؛ لیکن یہ خود عمل نہیں کرتے ۔

یہ بات میں بہت دکھے ہوئے دل سے کہہ رہا ہوں ،چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہمارے یہاں ماں باپ بچوں کوسکھادیتے ہیں ،گود میں بچہ سیکھنا شروع کر دیتا تھا ، جب ناظرہ قرآن پڑھنے مدرسہ آتاتھا ،تو وہاں اس کی مزید تربیت ہوجاتی تھی اور اساتذہ مکتب میں سکھا دیتے تھے یہاں تک کی تعلیم و تربیت ہمارے طلبہ کے پاس نہیں رہی اور اوپر بڑے درجات میں پہنچنے کے بعدتربیت کا فقدان مزیدبڑھ جاتاہے۔

اساتذہ کتاب کے پڑھانے میں بہت زور لگا تے ہیں، دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں؛ لیکن اس پر نظر نہیں رکھی جاتی کہ دین پر عمل کتنا ہورہا ہے، اماطة الاذی عن الطریق کی حدیث تو سنا ئیں گے،افشاءالسلام کی حدیث بھی سنائیں گے ؛لیکن عمل نہیں ہورہا ہے۔

ہمارے بزرگوں کا طریقہ

حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب دارالعلوم دیوبند میں ہمارے والد صاحب کے استاذ تھے ، میں نے بار بار الحمد للہ ان کی زیارت کی ہے ،ان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ان کو ابتداءبالسلام کوئی کرنہیں سکتا تھا ،طلبہ طے کر کے نکلتے تھے کہ آج ہم ابتداءبالسلام کریں گے؛ لیکن وہ موقع نہیں دیتے تھے، جہاں نظر پڑی فورا السلام علیکم ،نظر پڑی السلام علیکم ،طالب علم مل رہے ہیں، بچے مل رہے ہیں، چھوٹا مل رہا ہے، بڑا مل رہا ہے، السلام علیکم یہ ہمارے ان بزرگوں کا طریقہ تھا ۔

اب ہمارے یہاں مصافحہ بازی کا تو بڑا زور ہے ،مصافحہ کے لئے تو کہنی بھی ماریں گے ،دھکے بھی دیں گے اور جس سے مصافحہ کیا جا رہا ہے، اس کے پاس مصافحہ کا وقت بھی نہ ہو، تب بھی مصافحہ کریںگے؛ لیکن ابتداءبالسلام کا اہتمام نہیں ہے ، اگر ہم طالب علم کو سلام کر لیں، تو وہ جواب نہیں دیتے ،اچھا ایک بات اور بھی ہے، ہم طالب علم کو سلام کرتے ہیں، تو شاید وہ شرماتا ہے کہ ابتداءبالسلام تو مجھے کر نی چاہئے تھی؛ مگر استاذ نے ابتداءکر دی ،اس لئے شرم کے مارے جواب نہیں دیتے ،میں اس پر مواخذہ کرتا ہوں کہ تم نے میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ میں نے تمہارا کیا قصور کیا تھا؟

انہوں نے سلام کیا ،تم نے جواب کیوں نہیں دیا

ایک صحابی (حضرت عمرؓ)نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سلام کیا ،وہ اس وقت کسی غور و فکر میں تھے ، سلام کرنے والے نے سمجھاکہ یہ مجھے دیکھ رہے ہیں؛ حالانکہ وہ اس وقت غور و فکر میں تھے، انہوں نے سلام کو سنا نہیں ،وہ جو دیکھ رہے تھے در حقیقت دھیان ان کا کسی اور طرف تھا ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب نہیں دیا ، انہوں نے امیرالمومنین سے شکایت کی اور کہا کہ میں نے عثمان کو سلام کیا اور وہ مجھے دیکھ رہے تھے؛ لیکن انھوں نے مجھے سلام کا جواب نہیں دیا، امیر المومنین نے حضرت عثمان کو طلب کر لیا کہ انہوں نے سلام کیا تھا ،تم نے جواب کیوں نہیں دیا ؟ انہوں نے کہا :مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ انہوں نے مجھے سلام کیا۔

اگر میں کسی طالب علم کو سلام کرتا ہوں اور وہ جواب نہیں دیتا، تو میں اس سے مواخذہ کرتا ہوں کہ تم نے جواب کیوں نہیں دیا ؟ میں نے تمہارا کیاقصور کیا ؟تم پر میرا حق ہے کہ تم میرے سلام کا جواب دو۔

طلبہ کی حالت زاراورتربیت کا فقدان

اب طلبہ مصافحہ تو کریں گے ،نہ سلام کریں گے نہ سلام کا جواب دیں گے ،یہ ہمارے مدرسوں میں ہو رہا ہے، کہنیاں مار مار کر بزرگوں سے مصافحہ کریں گے ،دھکے دے دے کر مصافحہ کریں گے اورجب تک مصافحہ نہ کرلیں ان بزرگوں کے آنے جانے کا راستہ بند کر دیں گے ،یہ عوام کی باتیں نہیں کر رہا ہوں ،مدارس کے طلبہ کی بات کر رہا ہوں ۔

دار العلوم کراچی میںایک افغانی طالب علم تھے ،گزشتہ سال فارغ ہوئے ،ایک جگہ تمام مدارس کے ممتحنین جمع تھے ،ممتحن حضرات کریم ہوتے ہیں ،وفاق المدارس کے امتحانات میں پورے ملک کے طلبہ نمبر لگا تے ہیں ،ان ممتحن حضرات کا کئی دن اجتماع رہا ۔

وہ افغانی طالب علم مجھ سے کہنے لگا کہ حضرت مجھے ان حضرات کو دیکھ کربڑا افسوس ہوا ،ان میں سے بعض حضرات تو نمازی کے سامنے سے گزر جاتے ہیں اور بعض تخطی رقاب کر کے گردنوں کو پھلانگ کر آگے بڑھتے ہیں اور بعض سنتےں پڑھنے کے لئے سب سے پچھلی صف میں کھڑے ہو جا تے ہیں، آگے جگہ خالی پڑی ہوئی ہے ،پیچھے کھڑے ہو ئے ہیں ،سنتیں پڑھ رہے ہیں ، نفلیں پڑھ رہے ہیں ،آگے والوں کا راستہ روک دیا ، ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ان کی کوئی تربیت ہی نہیں ہوئی اور یہ کون کہہ رہا تھا؟ طالب علم!خوف ناک بات ہے۔

طلبہ مصافحہ کے آداب سے ناواقف

آج معاشرہ میں ہماری بات کی شنوائی نہیں ہے ،ہماری بات کا اثر نہیں، اس کی وجہ یہی کہ لوگ جانتے ہیں کہ ان کو تہذیب و شائستگی تک نہیں ،مصافحہ کے آداب نہیں آتے۔

اگر کسی سے مصافحہ کرو ،توبھائی فرصت بھی دیکھو، دوسرے آدمی کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، یا ہاتھ میں سامان ہے اور وہ مصافحہ کے لئے زور لگا ئیں کہ مصافحہ کرو ،مطلب یہ کہ سارے سامان کو تم کسی جگہ رکھو اورپھر مصافحہ کرو ۔

یہ باتیں ہمارے مدارس کے طلبہ کو نہیں سکھائی جارہی ہیں ،جن سے مصافحہ کرنا ہے ان کے برابر میں آکر بیٹھ جائیں گے ، وہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کو مصافحہ کر نا ہے ،ایک ادھر بیٹھا ہے ،ایک ادھر بیٹھا ہے ،کراماََ کاتبین !اب اس فکر میں ہیں کہ جیسے ہی یہ سلام پھیرے گا، فوراََ سلام اور مصافحہ کریں گے ،سلام کریں نہ کریں ،مصافحہ تو فوراََ ہی کریں گے، اس نے رعاےت کی کہ پہلا سلام پھےر نے پر مصافحہ نہیں کیا، جب دوسرا سلام پھےرا ،ابھی سلام پورا بھی نہیں ہوا کہ اس نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا یا ۔

لمحہء فکریہ

عام طور پر میں جب تک سلام نہ پھیر لوں، سلام ا ور مصافحہ نہیں کرتا؛ لیکن ایک دن میں نے سلام پھیر دیا اور ایک طالب علم نے سلام کیا ،تو میں نے اس کا جواب بھی دے دیا اور مصافحہ بھی کرلیا ،اب یاد آیا کہ میرے ذمہ سجدہ سہو تھا ،چار رکعت والی نماز تھی ،اس طرح طلبہ ستا تے ہیں ۔

حضرت تھانوی ؒنے آداب معاشرت میں لکھا ہے : اگر کسی سے آپ کو بات کرنی ہے اور وہ نماز پڑھ رہا ہے، تو ایسی جگہ بیٹھو کہ نماز پڑھنے والے کو پتہ ہی نہ چلے کہ آپ اس انتظار میں ہیں، ورنہ اس کے دل میں تشویش پیدا ہو گی ،پتہ نہیں ،کیا ایمیر جنسی کی خبر لے کر آیا ہے ،کیوں آیا ہے ؟کیا بات ہے ؟یہ سب باتیں سیکھنے اور سکھا نے کی ہو تی ہیں؛ لیکن ہمارے مدرسوں میں ان چیزوں کو نہیں سکھا یا جارہا ہے ،اللہ تعالی ہم سب کو اس طرف توجہ کر نے کی توفیق دے، یہ لمحہ فکریہ ہے اور اس کو کرنے کی ضرورت ہے۔

مدارس عقیم و بانجھ ہوچکے ہیں

آج سے تقریباََ پینتیس سال(۵۳) سال پہلے ہمارے والد صاحبؒکا انتقال ہوا ،اس زمانہ میں وہ فرماتے تھے ،تیس سال سے ہمارے مدارس عقیم و بانجھ ہوچکے ہیں، ان میں اب کوئی مولوی پیدا نہیں ہورہاہے ، علامہ پیدا ہوتے ہیں ،مولانا بھی پیدا ہوتے ہیں ،طرح طرح کے القاب والے لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں ، مولوی پیدا نہیں ہوتا ،مولوی اس میں ”ی “نسبت کی ہے، مولا کی طرف مولوی ہے، مولی والا ،اﷲ والا جیسے حضرت مولوی معنوی

علم مولا ہو جسے،ہے مولوی* جیے حضرت !مولوی معنوی

حضرت والد صاحبؒ فرما یا کرتے تھے کہ ہمارے مدرسوں میں مولوی پیدا نہیں ہو رہے ہیں ،علامہ پیدا ہو جا تے ہیں ؛لیکن اﷲوالے پیدا نہیں ہورہے ہیں ، جو صاحب نسبت اولیاءاﷲ ہو تے تھے ،جو دیوبند سے پیدا ہو ا کر تے تھے، ہمارے مدرسوں سے پیدا نہیں ہو رہے ہیں ۔الا ما شاءاﷲ ۔

والد صاحب ؒ فرما یا کرتے تھے: اگر میرے اس دار العلوم سے دار العلوم کی پوری زندگی میں ایک مولوی بھی پیدا ہوگیا، تو میں سمجھوں گا کہ دار العلوم کی قیمت اداءہو گئی ، بہرحال علامہ اور مولانا بننے سے پہلے مولوی بننے کی فکر کی جا ئے ۔

سچی بات یہ ہے کہ پہلے تو خود کو بنا ئیے ،جب تک خود کو بنایانہیں جائے گا ، طلبہ کو آپ نہیں بنا سکتے ، اپنی تعمیر کیجئے ،طلبہ کی تعمیر خود بخود ہو جا ئے گی ،آپ کے ذریعہ آپ کے طرز زندگی کو دیکھ کر ہو جا ئے گی۔

لفظ سنت کے مفہوم کو محدود کردیاگیاہے

الحمد ﷲ اتباع سنت کی ترغیب بہت دی جاتی ہے کہ سنت کی پیر وی کر نی چاہئے ؛لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ سنت کا لفظ اور مفہوم اتنا محدود کرلیا گیا کہ چند سنتوں پر عمل کرنے والے کومتبع سنت سمجھا جاتا ہے،جاہلوں نے تو یہاں تک کردیا کہ کسی کی ڈاڑھی ہے ،تو اس کوباشرع کہتے ہیں اور ڈاڑھی نہیں رکھی، تو بے شرع ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ ساری شریعت سمٹ کر ڈاڑھی میں آگئی، اگر کسی نے ڈارھی رکھ لی ہے، تو وہ باشرع ہو گیا ،چاہے وہ سود کھا تا ہو، جھوٹ بولتا ہو ،دھوکہ بازیاں کرتا ہو ،بد اخلاقیاں کر تا ہوں ،حرام کھا تا ہو؛ مگر چونکہ ڈاڑھی رکھ لی ہے، تو باشرع ہے ،یہ عوامی اصطلاح کی باتیں کر رہا ہوں ،الحمد للہ یہ جہالت کی باتیں ہمارے مدارس میں نہیں ہیں،عوام کے نزدیک ڈاڑھی کے اندر سارا دین سمیٹ کر آگیا ،ڈاڑھی رکھ لی، تو وہ چور بھی ہو گا، تو باشرع ہے ،ڈاکو ہو گا ،تب بھی باشرع ہے۔العیاذ باﷲ۔یہ عوام کی بات ہے۔

ہمارے دینی مدرسوں میں جب اتباع ِسنت کی بات آتی ہے ،تو چند چیزیں ذہنوں میں آجاتی ہیں ،سنت کے مطابق ڈاڑھی رکھی ہو گی ،ٹخنوں سے اونچا پاجامہ ہوگا ، مسجد میں داخل ہو تے وقت دائیں پاؤں پہلے رکھیں ،واپسی میں اس کے بر عکس ہو گا ، اسی طرح کھا نا کھا تے ہو ئے بسم اﷲ پڑھ لی ، سر پر ڈوپی اوڑھ لی ، چند سنتیں ہیں ،ان پر عمل کر لیا ،تو وہ متبع ِ سنت ہے ، سنت پر عمل ہو رہا ہے ،سلا م کر لیا سلام کا جواب دے دیا ۔

سنت: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہءزندگی کا نام

سنت: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہءزندگی کا نام ہے ، رسول اﷲ کا طریقہءزندگی کیا تھا؟آپ گھر میں کس طرح اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پیش آتے تھے ؟ پڑوسیوں کے ساتھ آپ کا برتا ؤ کیا تھا ؟آپ کے کھانے پینے کا انداز کیا تھا ؟کس طرح کھاتے تھے ،کس طرح پیتے تھے ،کس طرح چلتے تھے ،کس طرح بولتے تھے ،کس طرح پہنتے تھے ؟دوستوں سے کس طرح پیش آتے تھے ، دشمنوں سے کس طرح پیش آتے تھے ،بچوں سے کس طرح شفقت فر ما تے تھے ،عورتوں کی دلداری کس طرح فرماتے تھے ؟جہاد کس طرح فرماتے تھے،عبادت کس طرح فرماتے تھے ؟ انتظام ِحکومت کس طرح چلا تے تھے ،تجارت کس طرح کی تھی ، جب بکریاں چراتے تھے، اس وقت آپ کا طریقہ زندگی کیا تھا ؟اس پورے طرزِ زندگی کا نام سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔

ہمارے یہاں سنت کوبعض چیزوں پرعمل کرنے میں منحصرکر دیاگیاہے مثلاًا ماطة الاذی عن الطریق کی سنت پر ہمارے مدرسوں میں عمل ہی نہیں ہو رہاہے، آپ نے پڑھا ہے:الایمان بضع و سبعون شعبة ،ایمان کے ستّرسے زیادہ شعبے ہیں :افضلھا لاالہ الا اللّہ و ان محمد اً رسو ل اللہ، وادنھا اماطة الاذی، الحیاءشعبة من الایمان آج اس پر ہماراعمل نہیں ہورہا ہے اور اس پر کوئی آواز نہیں اٹھا تا ،اتنے بڑے پیمانے پر یہ منکر پھیل رہا ہے۔

سنت کوبعض چیزوں پرعمل کرنے میں منحصرکر دیاگیاہے

میں نے خود دار العلوم (کراچی)میں تجربہ کیاہے ، قدیم دار الحدیث کے پاس ایک بلاک پڑا ہوا تھا اور نظر آتا تھا کہ آدمی اس سے بچ کر چلے، تو ٹھوکر نہیں کھا ئے گا ،اگر اندھرے میں آئے، توٹھوکر کھاسکتاہے ، میں نے سوچا کہ اس کو ہٹاﺅں ،پھرمیں نے سوچا کہ آج نہیں ہٹاؤں گا،دیکھوں ، اس کو کوئی ہٹاتا ہے یا نہیں؟میں اپنے ہی لوگوں کی چغلی کر رہا ہوں۔ اللہ تعا لی مجھے معاف کرے۔ میں دکھے دل سے کہہ رہا ہوں، ایک مہینہ گزر گیا ،اس بلاک کو کسی نے نہیں ہٹایا جو بے جگہ پڑا ہوا تھا، پھر میں نے ان لوگوں سے درخواست کی ،یہ ہمارےمدارس کا مزاج بن رہا ہے ۔

خواتین کی تربیت

خواتین کی تعلیم بھی الحمدللہ ہورہی ہے ؛لیکن تربیت کا فقدان وہاں بھی نظر آتا ہے ، عام طورسے معلمات کوایک بات کی طرف توجہ دلا نا چاہتا ہوں کہ ہماری طالبات میں ایک مزاج بن رہا ہے جس کی لوگ شکایت کر تے ہیں ، میں نے بھی بعض جگہوں پر ایسا محسوس کیا ہے کہ ہماری طالبات کے مزاج میں علم دین حاصل کر کے کچھ بڑائی پیدا ہو جا تی ہے ،ان کا ذہن یہ بن جا تا ہے کہ ہم عالمات ہیں ،اس کے بعد اپنے خاندان کی دوسری عورتوں کو وہ ادنی سمجھنے لگتی ہیں۔

بہن بھائیوں کے ساتھ ان کا وہ انداز نہیں رہتا جو پہلے زمانہ میں ہواکرتاتھا ،سسرال میں جاکر شوہر کے ساتھ اور سسرال کے ساتھ انکساری ، تواضع اور خدمت گزاری جو ہماری مشرقی خواتین اور مسلم خواتین کا ایک لازمی حصہ ہے کہ اپنے شوہر کی خدمت گزار ہوتی ہیں ،اپنے شوہر کے رشتہ داروں کی عزت بھی کر تی ہےں حتی الامکان ان کی راحت رسانی کی کو شش بھی کرتی ہیں، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ، اپنے ماں باپ کے ساتھ ان کی خدمت گزا ری معروف ہے، ہماری بچیاں اپنے ماں باپ کی کتنی خد مت کرتی ہیں؟

طالبات میں تواضع انکساری اور خدمت گزاری کو زندہ کیاجائے

لیکن ہمیں اطلاعات کچھ ایسی مل رہی ہیں کہ عالمہ بننے کے بعد یا عالمہ بننے کے زمانے ہی میں ان کے مزاج میں بڑائی پیدا ہوجا تی ہے اور پہلے جیسی خدمت گزار ی ان کی ماں باپ کے ساتھ نہیں رہتی ،پہلے جیسا طرز عمل اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ نہیں رہتا ،شادی ہونے کے بعد جب سسرال جاتی ہیں ،تو وہاں شوہر اگرعالم نہیں ہے تواس پرحکومت چلاتی ہیں اور اس کو حقیر سمجھتی ہیں ،ان چیزوں کی طرف توجہ کی ضرورت ہے ۔

ان معلمات سے میری درخواست ہے کہ اپنی طالبات میں تواضع انکساری اور خدمت گزاری کے جذبات ہماری مشرقی خواتین کے امتیا ز ہیں اور مسلم خواتین کے امتیاز ہیں، اس کو زندہ رکھیں ،اس کو کمزور نہ ہونے دیں ۔

عورتیں امت کا قیمتی اثاثہ

ہماری عورتیں امت کا قیمتی اثاثہ ہیں ،ہماری مشرقی خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ کتنے ایثار سے کام لیتی ہیں ،اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ،سسرال میں بھی اس ایثار کی حفاظت کرنی ہے، اس کو باقی رکھنا ہے ۔

اگر چہ سسرال والوں کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنی بہو سے خدمت لیں ،ساس سسر کو کوئی حق نہیں ہے کہ زبردستی بہو سے خدمت لیں؛لیکن بہو کی قابل تعریف بات یہ کہ وہ دیکھے کہ میرے شوہر کے ماں باپ ہیں ،جب یہ میرے شوہر کے ماں باپ ہیں،تو میرے لئے بھی ماں باپ کی طرح ہیں ،ان کی عزت و احترام میں کمی نہ کرے اور جتنی خدمت وہ کرسکتی ہیں ،وہ کرے ۔

ساس وسسریہ حق نہیں کہ زبر دستی بہو سے کام لیں

لیکن ساس وسسر ، دیو راور نندوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ زبر دستی اس سے کام لیں ،یہ سب باتیں عورتوں کو سکھانے کی ہیں، معلمات میں سے کچھ ساس بھی ہوں گی ،کچھ نندیں بھی ہوںگی ، کچھ بہوئیں بھی ہوں گی ،کچھ بیٹیاں بھی ہوں گی اور پھر ان کی طالبات بھی اسی طریقہ سے ہیں ،ان کو سکھا نے کی ضرورت ہے ۔

بعض اوقات ہمارے خاندانوں میں؛ بلکہ ہمارے معاشرہ میں ایک مصیبت ہے کہ ساس بہو پر حکومت چلاتی ہے اور خود بادشاہ بن کر یا شہزادی بن کر یا رانی بن کر مسلط ہو جاتی ہے کہ ساری خدمت کی ذمہ داری اس بہو کے اوپر ہے ،دیورکا حکم بھی اسی پر چلتا ہے ، کسی چیز میں ذراسی بھول چوک ہوجائے ،توبس سارے اعتراضات اس پر ہو جا تے ہیں،گویا ایک باندی ،خادمہ گھر میں آگئی ہے، اس سے جتنی چاہو ،خدمت لے لو ، جتنی چاہو ،اس کے ساتھ بد تہذیبی کے معاملات کرتے رہو ،ان باتوں کوبھی ہمارے مدرسوں میں سکھانے کی ضرورت ہے کہ اس کا کوئی حق نہیں ہے ،معاشرہ میں اللہ تعالی نے جس کے جتنے درجہ رکھے ہیں، وہ اپنی جگہ ہیں بیوی کا اپنی جگہ پر حق ہے شوہر کا اپنی جگہ پر حق ہے۔

عورتوں کے حقوق کو بیان کرنا چاہئے

جب بھی بات ہوگی ،تو اس بات کا ذکرضرور آئے گا کہ بیوی پر شوہر کے حقوق کیا ہیں ؟ہماری تقریروں اورمواعظ میں خدا کے لئے کبھی اس کا ذکر کر دیا کریں کہ مردوں کے اوپر اپنی بیویوں کے حقوق کیا ہیں ؟عورتوں کے حقوق کیا ہیں ؟تقریروں اور وعظوں میں یہ ذکر نہیں آتا ، پھر خواتین ہماری باتوں کو کیوں توجہ سے سنیں گی؟ ،آج اتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے ،دیہاتی علاقوں میں خاص طور پر زیادہ ہو رہا ہے کہ عورتوں کو میراث ہی نہیں ملتی ،سندھ میں نہیں ملتی،پنجاب میں نہی ملتی ،سرحد میں کہیں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی،یہ سراسرظلم ہے۔

اللہ رب العلمین نے اپنی کتاب قرآن کریم میں صراحة حصے مقرر کردے ،ماں ،بیٹی اوربیوی کے حصے مقررکردئے ہیں ، ان حصوں کو غضب کیا جارہا ہے ؛لیکن کبھی آپ نے ہمارے علماءاوربزرگوں کی کوئی تقریر سنی؟ کبھی اس منکر کے خلاف آواز اٹھائی ہے؟

گزارش

ہم نے درس و تدریس کو ایک پیشہ سمجھ لےا، سبق پڑھا دو اور پھر طالب علم اور استاذ کا اور طالبہ اور معلمہ کاآپس میں کوئی رابطہ نہیں رہتا ۔

میری گزارشات کا خلاصہ یہ ہےکہ مدارس میں دین پڑھا نے کے ساتھ ساتھ سکھانا بھی شروع کریں ،ہم نے ابھی تک سکھانا شروع نہیں کیا ،دیوبند میں سکھا یا جاتاتھا اور ہمارے مدارس میں سکھایا نہیں جارہا ۔ اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے ۔و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہ صدردارالعلوم کراچی نے بروز جمعرات۱۳/مئی ۲۰۱۰ءکو تدریب المعلمین کے اجلاس میں فرمائی ہے ، احقرنے اس کی تلخیص اورتحریر چندذیلی عناوین کے ساتھ پیش کی ہے(رموزتدریس وتدریب : ۹۱) ۔ابوفیضان قاسمی

اصلاحی ،فکری ،علمی فقہی دینی مضامین ومقالات کے لئے فیضان قاسمیhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com/ کا ضرور مطالعہ کیجئے اوردوست واحباب کو شئیرکیجئے ۔