اتباع جنائز کے آداب

اتباع جنائز کے آداب: الف میت کے محاسن وخوبیوں کو بیان کرے ،برائیوں کاہرگز تذکرہ نہ کرے۔ب:جنازہ کے پیچھے چلے۔ج:جب جنازے کے ساتھ چلے ،تو جنازے کو اٹھانے کے لیے کندھا دے۔د:جنازے کے ساتھ پیدل چلے ، بلاعذر سوارہوکرنہ جائے ۔ھ:جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے ،یا قبرستان میں ہنسی مذاق نہ کرے،نہ ہی دنیوی گفتگو کرے۔

و:جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے امورِآخرت میں غوروفکر کرتارہے ۔ز:میت کو قبرمیں اتارنے سے پہلے نہ بیٹھے۔ح: بغلی قبربنائی جائے ۔ط:قبلہ والی دیوار کی طرف سے میت کو قبرمیں اتاراجائے۔ی: تین چلومٹی قبرمیں ڈالے۔

ک: تدفین کے بعد قبر ایک بالشت کے بقد رکوہان کی شکل میں اونچی کی جائے؛ تاکہ قبرکو پہچاناجاسکے اوراس کی توہین اوربے ادبی سے بچاجاسکے۔ل:سرہانے کوئی پتھربھی بطورعلامت نصب کیاجائے ۔م: تدفین کے بعد قبر پر پانی چھڑکاؤ کیا جائے ۔ن: تمام امورسے فارغ ہوکر میت کے سرکی طرف کھڑے ہوکرسورئہ فاتحہ اور پیروں کے جانب سورئہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کی جائے ۔س: میت کے لیے دعاواستغفارکرے۔

میت کے محاسن وخوبیوں کو بیان کرنا

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

اذكروا محاسن موتاكم، وكفوا عن مساوئهم-(ترمذی، کتاب الجنائز: ۱۰۱۹)

جس شخص کا انتقال ہوجائے ،اس کی خوبیاں بیان کرو ، اس کی برائیوں سے بازرہو ۔اس لیے کہ اگروہ شخص بدکارتھا، تواُس نے اپنی برائی کا بدلہ پالیا،اب اس کی برائی بیان کرنے سے کیافائدہ؟ خواہ مخواہ مردے کی غیبت ہوگی؛البتہ گمراہ قسم کے افراد کی گمراہیاں اوران کے غلط افکارونظریات کو بیان کیاجاسکتاہے ،اس لیے کہ اگربیان نہ کیاجائے ،تولوگ ان کی گمراہیوں سے محفوظ نہیں ہوسکتے ؛البتہ ان کی ذاتی زندگی میں کوئی خرابی ہو،تو اس کو چھیڑانہیں جائے گا۔

جنازے کو کندھا دینا

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا 

من تبع جنازة، وحملها ثلاث مرات: فقد قضى ما عليه من حقها۔(ترمذی ،کتاب الجنائز: ۱۰۴۱)

جوشخص جنازے کے ساتھ چلے اور تین مرتبہ جنازے کواٹھائے ، تو اس نے جنازے کے حق کواداکردیا۔یعنی اتباع جنازے سے متعلق جوحق تھا، اس کو اداکردیا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: جوشخص جنازے کے ساتھ چلے ،اس کو چاہیے کہ جنازے کےچاروں طرف کندھادے،اس لیے کہ یہ عمل سنت ہے ۔(ابن ماجہ ،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی شہود الجنازۃ : ۱۴۷۸)حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں : جنازے کامکمل اجروثواب یہ ہے کہ آدمی میت کے گھر سے جنازے کے ساتھ چلے، چاروں طرف سے جنازہ اٹھائے اور قبرمیں مٹی ڈالے۔(مصنف ابی شیبہ،کتاب الجنائز،فی مایجزی من حمل الجنازۃ :۱۱۲۸۳)

میت کو قبرمیں اتارنے سے پہلے نہ بیٹھے

حضرت ابوسعید خدری ؓفرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إذا رأيتم الجنازة، فقوموا، فمن تبعها فلا يقعد حتى توضع

جب تم جنازے کو دیکھو ،توکھڑے ہوجاؤ،جوجنازے کے ساتھ جائے،وہ جنازے کو زمین پررکھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔

جب جنازہ نماز پڑھنے کی جگہ، یا قبرستان پہنج جائے ،جب تک جنازہ نیچے نہ رکھ دیاجائے ،تب تک لوگوں کو نہیں بیٹھنا چاہئے ؛کیوں کہ بعض مرتبہ جنازہ اتارنے میں اچانک مددکی ضرورت پیش آتی ہے، اگر لوگ جنازے میں زیادہ ہوں، تو جولوگ جنازے کے قریب ہیں، ان کونہیں بیٹھنا چاہئے ،دیگرلوگ بیٹھ سکتے ہیں۔(مستفادتحفۃ الالمعی۳؍۴۵۳)اتباع جنائز کے آداب

قبرکو بغلی بنانامستحب

بغلی قبر : قبرکے اندونی حصے میں قبلے والی دیوار کھرید کراس میں ایک طاق بناتے ہیں ،پھر اس طاق میں میت کو لٹاکر پیچھے سے کچی اینٹیں، یالکڑی وغیر رکھ کر اس کو برابرکردیاجاتاہے ۔

شقی یاصندوق نماقبر: قبرکے گڑھے کا تھوڑاحصہ کھودنے کے بعد قبرہی میں مزیدایک چھوٹاگڑھاکھود کر میت کو اس میں لٹادیتے ہیں ،پھراوپر تختے وغیر رکھ دیتے ہیں

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللحد لنا، والشق لغيرنا-(ترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی قو ل النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۰۴۵)

لحد (بغلی قبر)ہمارے لیے ہے اورشقی قبر(صندوق نما) دوسرں کے لیے ہے ۔

علمائے کرام نے اس روایت کے کئی مطلب بیان کئے ہیں : بغلی قبرہمارے لیے ہے ،شقی قبرہمارے غیریعنی یہود ونصاریٰ وغیرہ کے لیے ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ بغلی قبر اِس امت کے لیے ہے ،شقی قبر امم سابقہ کے لیے ہے۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ اہل مدینہ کے لیے وہاں کی زمین کے اعتبارسے بغلی قبرمناسب ہے ،غیراہل مدینہ کے لیے شقی قبر،تینوں مطلب کے لحاظ سے شقی قبر کا جائز ہونا اوربغلی قبرکا افضل ہوناثابت ہوتاہے۔اتباع جنائز کے آداب

 بغلی قبر میرے لیے یہ پیشین گوئی

علامہ طیبی ؒشارح مشکوۃ المصابیح فرماتے ہیں : بغلی قبر میرے لیے ہے ، میرے لیے شقی قبرنہیں بنائی جائے گی ،رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے بطور پیشین گوئی یہ بات ارشادفرمائی ہے ،امت کو آپ کی وفات کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی ۔( لمعات التنقیح ،کتاب الجنائز،باب دفن المیت :۱۷۰۱)

حضرت اقدس مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں:

اس حدیث میں مسئلے کا بیان نہیں؛بلکہ یہ ایک پیشین گوئی ہے ،آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوسروں کی قبرچاہے بغلی بناؤ ،چاہے صندوقچی ؛مگرمیری قبر بغلی بنانا،پس اس حدیث سے لحد کی فضیلت ثابت ہوئی ،چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد جب اختلاف ہواکہ آپ کی قبر اطہر بغلی بنائی جائے ،یاصندوقچی؟فیصلہ اس طرح کیاگیاکہ مدینے میں دوصحابی تھے جوقبرکھودتےتھے ،ایک(ابوطلحہ ) لحد بناتے تھے ،دوسرے ( ابوعبیدہؓ)شق ،دونوں کے پاس آدمی بھیجے گئے اورطے کیاگیاکہ جوپہلے آئے ،وہ اپنا کام کرے ،

جو صحابی شق بناتے تھے ،وہ گھر پر نہیں تھے،جولحد بناتے تھے وہ آئے اورانہوں نے اپنا کام کیا ،اس طرح تکوینی طور پرآں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پوری ہوئی ۔(موطاامام مالکؒ،کتاب الجنائز،باب دفن المیت : ۷۹۱،تحفۃ الالمعی ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم۳؍۴۵۶)اتباع جنائز کے آداب

لحد کی فضیلت

دوسری وجہ بغلی قبر میں میت مردار خورجانور وں سے محفوظ رہتی ہے ،جانور نرم مٹی کھود تاہے اورمیت ایک طرف رہ جاتی ہے ،اس کے ہاتھ نہیں آتی ۔(،تحفۃ الالمعی ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم۳؍۴۵۶)

نمازجنازہ اورتدفین میں شرکت کاحکم پہلی قسط

جنازے کے آداب واحکام قسط دوم
ان قسطوں کامطالعہ کرنے کے لیے ان ہی مضامین پر کلک کیجئے ،وہ مضامین آپ کے سامنے نمودارہوجائیں گے۔

نصیحت آموزشعر