امام ابوعیسی ترمذی رحمہ اللہ:امام ترمذی کا نام محمدبن عیسی بن سورہ بن موسی ہے ،ابوعیسی کنیت ہے ،خراسان میں دریائے جیحون کے کنارہ ایک شہرترمذتھا ،جس میں بڑے بڑے علماءومحدثین پیداہوئے، اسی جہ سے اس کو مدینة الرجال کہاجاتاتھا ،اسی شہرکے ایک قصبہ ”بوغ“ میں امام ترمذی پیداہوئے ،اس وجہ سے آپ کو ترمذی اوربوغی کہاجاتاہے ؛لیکن ترمذی کی نسبت سے زیادہ مشہورہیں ،آپ کی ولادت راجح قول کے مطابق ۲۰۹ھ میں ہوئی ۔(تحفة الالمعی۹۷/۱)
تحصیل علم اوراساتذہ کرام
امام ترمذی نے اولًا اپنے شہرمیں علم حاصل کیا ،اس کے بعدطلبِ علم کے لئے حجاز،کوفہ ،بصرہ ،خراسان اوربغداد کے اسفارکئے اوروقت کے اکابرمحدثین سے علم حاصل کیا ،جن میں سے امام بخاری ، امام مسلم ،امام ابوداؤد،اسحاق بن موسی انصاری،قتیبہ بن سعید ،محمدبن بشار،احمدبن منیع جیسے جلیل القدرمحدثین شامل ہیں ؛لیکن علم حدیث میں جلالت شان،مہارت تامہ اورکمال امام بخاری محمدبن اسماعیل کی محنت ،توجہ تام اورخصوصی شفقتوں سے حاصل ہواہے ۔
حافظ شمس الدین ذہبی ؒ ”تذکرة الحفاظ“میں تحریرفرماتے ہیں
تفقہ فی الحدیث بالبخاری (سیراعلام النبلاء،تذکرۃ الحفاظ ۱۵۴/۲)
امام ترمذی نے علم حدیث میں امام بخاری ؒ سے کمال حاصل کیاہے ۔
امام بخاری ؒ بھی امام ترمذی کی بڑی قدرفرماتے تھے اورخوب محنت سے پڑ ھاتے تھے،نیز آپ سے خاص تعلق بھی تھا ،یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے دوحدیثیں اپنے تلمیذ رشیدسے سماعت کی ہیں ،امام ترمذی نے ”جامع ترمذی“ میں ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے
عن ابن عباس فی قول اللہ عزوجل ماقطعتم من لینة اوترکتموھاقائمة علی اصولھا قال اللینة النخلة ولیخزی الفاسقین الخ سورة الحش۱۶۶/۲)یا علی لایحل لاحدان ین یجنب فی المسجد غیری وغیرک ،قدسمع محمدبن اسماعیل منی ھذاالحدیث ۔(مناقب علی ۲۱۴/۲)
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے”تہذیب التہذیب“میں امام ترمذی سے متعلق امام بخاری کا قول نقل فرمایاہے
ماانتفعتُ بک اکثرُمما انتفعتَ بی(بحوالہ مقدمہ تحفة الاحوذی:۲۶۹ )
جس قدرآپ نے مجھ سے فائدہ حاصل کیاہے ،میں نے آپ سے اس سے کہیں زیادہ فائدہ حاصل کیاہے ۔
علامہ انورشاہ کشمیری ؒ امام بخاری ؒ کے مذکورہ قول کی تشریح فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:اگرشاگردذہین وفطین اورذی استعداد ہو،تو استاذ کو پڑھانے میں زیادہ دل چسپی ہوتی ہے ،نیز استاذ پڑھانے میں زیادہ مطالعہ اورمحنت کرتاہے جس سے استاذ کو خوب فائدہ ہوتاہے ۔(درس ترمذی ۱۳۱/۱)
امام بخاری کے اقوال اورتبصروں کو نہایت عظمت کے ساتھ ذکر فرمایاہے
امام ترمذی ؒ نے اپنی کتاب ”جامع ترمذی“ کو تصنیف فرمایا اوراس کتاب میں فقہی مستدلات ،ائمہ مجتہدین کے اقوال کو جمع فرمایا،نیز رواة حدیث پر کلام کیاہے اورفرمایا کہ رواة کے سلسلہ میں زیادہ ترمحمدبن اسماعیل بخاری سے براہ راست استفادہ کیا ہے ،بسااوقات امام ابوزرعہؒ،عبداللہ بن عبدالرحمن دارمیؒ وغیرہ کے اقوال بھی نقل کیاہے ۔(کتا ب العلل )یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ احادیث یارواة پرکلام فرماتے ہوئے قال محمد، قال محمدبن اسماعیل اور سألت محمدا عن ھذاالحدیث ،سمعت محمدا یقول کے الفاظ سے تقریبًا ڈیڑھ سوسے زائد مقامات پر اپنے استاذمحتر م امام بخاری کے اقوال اورتبصروں کو نہایت عظمت کے ساتھ ذکر فرمایاہے ۔(تتبع از راقم)
جس کے گھرمیں یہ کتاب ہو،گویا اس گھرمیں نبی ہیں
امام ترمذی فرماتے ہیں
صنفت ھذاالکتاب ،وعرضتہ علی علماءالحجاز ،والعراق ،وخراسان فرضوابہ ،ومن کان فی بیتہ ھذالکتاب، فکانما فی بیتہ نبی یتکلم ۔(تذکرة الحفاظ،سیراعلام النبلاء۳۷۲/۱۰)
میں نے اس کتاب کو مرتب کرنے کے بعدعلماءِحجاز،عراق وخراسان کی خدمت میں پیش کیا ،سب نے پسندیدگی کا اظہارفرمایا،جس کے گھرمیں یہ کتاب ہو،گویا اس گھرمیں نبی ہیں جواحادیث بیان کررہے ہیں ۔
اللہ تعالی نے اس کتاب کو بے حدقبول فرمایا، اس میں فقہی مستدلات اورائمہ مجتہدین کے اقوال جمع ہیں،جب طالب علم ان مباحث میں روایة ودرایة بحث کرتاہے،تو طالب علم میں اجتہادی صلاحیت پیداہوتی ہے ،ہمارے اکابرمیں حضرت شیخ الہند،علامہ انورشاہ کشمیری اورحضرت مولانا حسین احمدمدنی رحمہم اللہ ”ترمذی“ میں خوب بحث فرماتے اور بخاری شریف میں قدرے اختصارسے کام لیتے تھے ۔
امام حاکم فرماتے ہیں
سمعت عمربن عُلَّک یقول : مات البخاری ،فلم یخلف بخراسان مثل ابی عیسی فی العلم، والحفظ، والورع،والزھد،بکی حتی عمی ضریرا سنین۔(تذکرة الحفاظ سیراعلام النبلاء۳۷۲/۱۰)
امام بخاری نے اپنی وفات کے بعد خراسان میں اپنے تلامذہ میں علم ،حفظ روایت ،زہدوتقوی میں ترمذی جیسا کوئی جانشین نہیں چھوڑا،امام ترمذی ؒامام بخاریؒ کی وفات کے غم سے روتے رہے یہاں تک کئی سال بینائی سے محروم ہوگئے ۔
خلاصہ کلام
امام بخاری ؒ کی محنت ،وقت کی قربانی اورتوجہات کی برکت سے امام ترمذی ؒ محدثین کے امام بنے،امت نے آپ کو امام بخاریؒ کا جان نشین تسلیم کیا،نیز تلمیذ رشیدنے علم حدیث میں ایک مایہ ناز وقابل فخراورعظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی جو فقہی مستدلات ، ائمہ مجتہدین کے اقوال اورعلل حدیث پرمشتمل ہونے کی وجہ سے نہایت جامع اورمفیدہے ،اس عظیم الشان کتاب میں استاذمحترم کے تبصروںاورفیصلوں کو بھی عظمت واحترام کے ساتھ نقل فرمایا ہے ۔
وفات
امام ترمذی ؒ کی وفات دوشنبہ کی۱۳/رجب المرجب۲۷۹ھ میں مقام ترمذ میں ہوئی ۔(سیراعلام النبلاء۳۷۳/۱۰)
درس قرآن،درس حدیث، فقہ وفتاوی ،سیرت وسوانح ،اصلاحی ،فکری اورعلمی وتحقیقی مضامین ومقالات کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com کی طرف رجوع کیجئے اوردوست واحباب کو مطلع کیجئے ۔