بیمارپرسی کی اہمیت:عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور
دین متین جس طرح ہم کوخوشیوں میں دوسروں کا ساتھ دے کر ان کی خوشیاں بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے ،اسی طرح دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنے ،اس میں شریک ہونے اوراس کے ازالے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتاہے،ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان بھائی کو بیماری وپریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کےاندر رحم کے جذبات ابھریں اور اس کی مصیبت کا اسے بھی احساس ہو، یقیناً ایک مسلمان کا دوسروں کی تکلیف کا احساس کرکے دل جوئی اور دل داری کی خاطر اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر بیمارپرسی کرنے میں اُس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عملی اظہار ہوتا ہےکہ جس میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔
بیمارپرسی سے آپسی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے تئیں ہم دردی اورغم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، مریض ،اس کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے دل میں بیمارپرسی کرنے والے کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اتحاد و یگانگت کی ایک اچھی فضا قائم ہوتی ہے ،گویا سماجی اور دینی دونوں ضرورتیں اس سے پوری ہوتی ہیں، اگر بیماری کے علم کے باوجود مریض کی عیادت نہ کی جائے اور اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے،تو آپس میں عداوت،کدورت اورنفرت اور کم از کم بد گمانی پیدا ہو تی ہے۔
بیمارپرسی مسلمان کا حق
عیادت مسلمان کا حق ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کاجواب دینا، مریض کی بیمارپرسی کرنا ،جنازے کے ساتھ چلنا،دعوت قبول کرنا اور چھینک کےجواب پر‘‘ یرحمک اللہ’’ کہنا۔(رواہ البخاری عن ابی ھریرہ ؓ ،کتاب الجنائز،اتباع الجنائز: ۱۲۴۰)
اسلام نے بیمار پُرسی اور تیمارداری کو گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بتایا ہے،کسی بھی بیمار کی بیمارپرسی کو اللہ تعالیٰ کی عیادت کے مترادف بتلایاگیا،اللہ تعالیٰ کی ذات اگرچہ ہر بیماری سے پاک ہے ،اُسے کوئی بیماری و تکلیف ہر گز ہرگز لاحق نہیں ہوسکتی؛لیکن عیادت کی فضیلت اجاگرکرنے کے لیے اس طرح کی مثال بیان کی گئی ،چناں چہ حدیثِ قدسی میں ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا:اے ابن آدم!میں بیمار تھا،تو نے میری عیادت نہیں کی،وہ کہے گا :اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا ؛حالاں کہ تو رب العالمین ہے ،اللہ تعالیٰ فرمائے گا :کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کرتا ،تو تو مجھے اس کے پاس پالیتالخ(مسلم،کتاب البروالصلۃ،باب فضل عیادۃ المرض: ۲۵۶۹)
بیمارپرسی کے فضائل
مریض دوست ہو ،یا دشمن ،امیر ہو ،یا غریب عیادت کو سنت ،اخلاقی فریضہ اورمسلمان کاحق سمجھ کرنا چاہیے،آج عیادت کا دائرہ سمٹ کررہ گیا ہے ، معاشرےمیں عیادت ایک رسم بن گئی ہے ،لوگ اس وجہ سے عیادت کرتے ہیں کہ اگرمیں نے عیادت نہیں کی ،تو اس کے گھر والے کیا سمجھیں گے ،کوئی مال دار ،یا عہدہ دار ،یا خاص رشتہ دار ہو، تو اس کی عیادت کی جاتی ہے، اگر کوئی غریب ہے ،تو پڑوس میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی مزاج پرسی اور اظہارِ ہم دردی نہیں کی جاتی،اس لیے کہ اس سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں اور نہ آئندہ اس کی کوئی توقع ہے ۔ ہائے افسوس
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسلم ،لم يزل فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ. (رَوَاهُ مُسْلِمٌ،کتاب البرواالصلۃ ،باب فضل العیادۃ : ۲۵۶۸)
حضرت ثوبان ؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کو جاتاہے ،تو واپس ہونے تک وہ جنت کے باغات میں ہوتاہے ۔یعنی عیادت کرنے والاجب سے عیادت کے لیے نکلتاہے ،توواپس ہونے تک اس طرح ثواب کو حاصل کرنے میں لگا رہتاہے ،جس طرح جنتی جنت کے باغات میں پھل توڑنے میں لگارہتاہے ۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الجنائز: ۱۵۲۷)
بیمارپرسی اور سترہزارفرشتے
عَنْ ثُوَيْرٍ هُوَ ابْنُ أَبِي فَاخِتَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخَذَ عَلِيٌّ بِيَدِي، قَالَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الحَسَنِ نَعُودُهُ، فَوَجَدْنَا عِنْدَهُ أَبَا مُوسَى، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَعَائِدًا جِئْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَمْ زَائِرًا؟ فَقَالَ: لَا بَلْ عَائِدًا،فَقَالَ عَلِيٌّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الجَنَّةِ ۔(رواہ ابوداؤدوالترمذی،ابواب الجنائز،باب ماجاء فی عیادۃ المریض : ۹۶۹)
حضرت ابوفاختہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حضرت علی ؓ نے میراہاتھ پکڑا اورفرمایا : میرے ساتھ حسن ؓ کی عیادت کی کے لیے چلو،(ہم حضرت حسن ؓ کے گھرگئے )وہاں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ موجودتھے ،حضرت علی ؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے پوچھا،ابوموسیٰ! آپ ملاقات کے لیے آئے ہو؟یاعیادت کی غرض سے آئے ہو؟حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے عرض کیا : حضرت حسن ؓ کی عیادت کی غرض سے حاضرہواہوں ،حضرت علی ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا کہ جومسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرتاہے ،شام تک سترہزارفرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں ،اگرشام کے وقت عیادت کرے ،تو صبح تک سترہزارفرشتے عیادت کرنے والے کے لیےرحمت کی دعائیں کرتے ہیں اوراس کے لیے جنت میں ایک باغ تیارکیاجاتاہے ۔
بیمارپرسی کے لیے چلنا مبارک ہو
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَادَ مَرِيضًا أَوْ زَارَ أَخًا لَهُ فِي اللَّهِ نَادَاهُ مُنَادٍ أَنْ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الجَنَّةِ مَنْزِلًا۔(رَوَاهُ الترمذی ،کتاب البروالصلۃ ،باب ماجاء فی زیارۃ الاخوان: ۲۰۰۸)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص کسی مریض کی عیادت کرے ،یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کرے ،توآسمان سے ایک فرشتہ اعلان کرتاہے کہ تم نے اچھاکیا ،تمہارا(عیادت وملاقات کے لیے) چلنا مبارک ہےاورتم نے(عیادت کرکے ) جنت میں اپنے لیے ٹھکانہ بنالیا۔
علامہ طیبی شارح مشکوۃ تحریرفرماتے ہیں:اس روایت میں عیادت کرنے والے کے لیے تین دعائیں دی گئیں ہیں ،یہ جملے خبریہ نہیں ؛بلکہ دعائیہ ہیں ،پھرحدیث کا ترجمہ یوں گا : تیرابھلاہو(دنیا وآخرت میں) ،تو آخرت کےراستے پر ( برائیوں سے بچتے ہوئے )بھلائی کے ساتھ چلےاورتیراٹھکانہ جنت بنے ،گویا اس روایت میں عیادت کرنے والے کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی ،نیکیوں کی توفیق کی اورحصول جنت کی دعائیں دی گئیں ہیں ۔(مرقات: ۱۵۷۵)
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: عَادَنِي النَّبِيُّ مِنْ وَجَعٍ كَانَ بِعَيْنِي۔( أَبُو دَاوُدَ،کتاب الجنائز،باب العیادۃ من الرمد:۳۱۰۲)
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ مرض بظاہر چھوٹا اورمعمولی ہو ،تب بھی مسلمان کی ہم دردی اوردل داری کے لیے عیادت مستحب ہے ،اس پربھی عیادت کرنے والے کو اجروثواب ملے گا ۔(مرقاۃلمفاتیح:۱۵۵۱)
بیمارپرسی کا شرعی حکم
اسلا م میں بیمارپرسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ،اس بناپر بعض فقہاء نےبیمارپرسی کو واجب قراردیاہے ،امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی ہے ، علّامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں :عیادت کا حکم اصلاً استحباب ہے ، بعض اوقات بعض لوگوں پرواجب ہوتاہے ۔(فتح الباری،کتاب المرضی،باب وجوب عیادۃ المریض:۵۶۴۹)عیادت کا واجب یامستحب ہونا حالات پرموقوف ہے ،اگرمریض کے متعدد تیماردار موجودہوں،تومستحب ہے ،کوئی دیکھ ریکھ کرنے والانہ ہو،توواجب ہے ،علامہ بغوی ؒ نے یہی بات کہی ہے ۔(قامو س الفقہ ۴؍۴۱۸)
ایک مسلمان کا فرض ہے کہ مریض کے ساتھ ہم دردی اورغم خواری کرے، اس کے احوال پوچھے اور جہاں تک ہوسکے ،اس کا تعاون کرے ، اسی کو عربی زبان میں عیادت کہا جاتا ہے،عیادت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بیمار کی مزاج پرسی کی جائے ،یا تیمار داروں سے اس کے احوال معلوم کر لیے جائیں ،عیادت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مریض کے ساتھ مکمل غم خواری کی جائے ،یعنی بیمار کے پاس پیسے کی کمی ہے اور اللہ نےوسعت دی ہے ،تو پیسوں کے ذریعے اس کا تعاون کریں ؛تا کہ صحیح علاج کیا جا سکے، اگر خدمت کی ضرورت ہو،تو خدمت کی جائے،صحیح ڈاکٹر کی رہنمائی کی جائے، اپنے علم کے اعتبار سےصحیح اورمفید مشورے دئیے جائیں۔
تیمارداروں (اورمریض کے رشتہ داروں)پرلازم ہے کہ وہ اپنی وسعت ومالی استطاعت کے موافق مریض کی خدمت ،اس کا علاج اوراس کی ضروریات کی تکمیل کریں ،شریعت ہمیں بتاتی ہے کہ مریض بوجھ نہیں ؛بلکہ سببِ رحمت ہے ،اس کی خدمت اورتیمارداری اجروثواب کے حصول کا ذریعہ ہے ۔(اسلامک فقہ اکیڈمی کے فیصلے : ۲۹)
بیمارپرسی کا طریقہ اور آداب
الف:(۱)جب بیمارپرسی کے لیے جائے ،تو باوضو جائے۔ب(۲)اللہ کی رضا اورثواب کی نیت سے عیادت کی جائے،جاہ ومنصب ،مال ومنال کی رعایت ،یا ترک ِعیادت پر ملامت سے بچنے کی غرض سے عیادت نہ کی جائے ۔
حضر ت انس ؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جوشخص وضوکرے ،اچھا وضوکرے اوراپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے (کسی دنیوی غرض سے نہ جائے؛بلکہ محض رضائے الہی اور)،ثواب کی نیت سے جائے ،تواللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے ساٹھ سال کی مسافت کے بقدردورکردیتے ہیں۔(ابوداؤد،کتاب الجنائز،باب فی فضل العیادۃ علی الوضوء: ۳۰۹۷)
ج(۳)مریض کے سامنے اس کو خوش کرنے والی باتیں کی جائیں، ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں، یا اس کے فکر و اندیشے میں اضافہ کرنے والی ہوں، مریض کو تسلی دے اورکہے ان شاء اللہ ٹھیک ہوجاؤگے ،کوئی بڑی بات نہیں ہے، رسول اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے ،تومندرجہ ذیل کلمات سے تسلی دیتےتھے۔
لاَ بَأْسَ، طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ۔(رواہ البخاری عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ،کتاب المرضی ،باب عیادۃ الاعراب:۵۶۵۶)
کوئی تکلیف یا گھبراہٹ کی بات نہیں ہے، اس لیے کہ بیماری گناہوں کی صفائی وستھرائی کا ذریعہ ہے ،ان شاء اللہ (بہترہی ہوگا)
د:(۴)مریض کو صحت وتن درستی اورزندگی کی امیددلائے ،مریض کو ناامیدبنانے والی گفتگوسے احتراز کرے ۔
حضرت ابوسعیدخدری ؓ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم بیمارکے پاس جاؤ،تو اس سےعمرکی درازی اور لمبی حیاتی کی بات کرو، عمری درازی کی بات سے اس کی عمر لمبی اور بیماری دورنہیں ہوجائے گی ؛لیکن بیمار خوش اورمطئمن ہوجائے گا ۔ ( رواہ الترمذی،ابواب الطب : ۲۰۸۷)
بیمارپرسی کی چنددعائیں
ہ:(۵)مریض کےسریا بدن کے جس حصے پر تکلیف ہو ،اس جگہ داہناہاتھ پھیرے ،احایث میں بے شمار دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، انھیں پڑھ کر دم کرے ،ذیل میں چنددعائیں ذکرکی جاتی ہیں ،موقع ومحل کی رعایت سے ان کو پڑھ کرمریض پر دم کرے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جومسلمان کسی ایسے مریض(کسی بھی قسم کا مرض ہو ) کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت قریب نہ آیا ہو،تین مرتبہ بسم اللہ پڑھے، پھر سات مرتبہ مندرجہ ذیل دعاپڑھ کراللہ تعالیٰ سے شفا دعاکرے ،تواللہ تعالیٰ اس مریض کو ضرور شفاعطافرماتے ہیں:
أَسْأَلُ اللَّهَ العَظِيمَ رَبَّ العَرْشِ العَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ ۔(رواہ الترمذی،ابواب الطب : ۲۰۸۳)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمارہوتا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہناہاتھ ( بدن کے اس حصے پر)پھیرتے ،(جس جگہ تکلیف اورمرض ہے )پھرمندرجہ ذیل دعاپڑھتے(جوکسی بھی قسم کے مریض کے لیے پڑھی جاسکتی ہے )
اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْهِبِ البَاسَ، اشْفِهِ وأَنْتَ الشَّافِي، لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا۔(رواہ البخاری ،کتاب الطب،باب رقیۃ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:۵۷۴۳)
اے اللہ !اے لوگوں کے پروردگار! تکلیف اورمرض کو دورفرما،اس مریض کو شفانصیب فرما،آپ ہی شفاعطافرمانے والے ہیں، ایسی شفانصیب فرماجوکسی بیماری کو باقی نہ چھوڑے ،سب کو دور کرے۔
نظربد اوربرے اثرات کے لیےمفیدومجرب دعا
حضرت ابوسعیدخدری ؓ فرماتے ہیں: جبریل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا : اے محمد ! تم بیمارہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں میری طبیعت خراب ہے ، پھرجبرئیل امین علیہ السلام نے مندرجہ ذیل دعا (جونظربد اوربرے اثرات کے لیے نہایت مفیدومجرب ہے)پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دم کیا۔(رواہ مسلم ،کتاب الآداب،باب الطب والمرض: ۲۱۸۶)
بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ، اللهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ۔
اللہ کے نام سے تم پر دم کرتاہوں، ہرچیز کے شرسے جوتمہیں تکلیف پہنچائے ،ہرنفس کے شراورحاسد کی نظربد سے ،اللہ تمہیں شفاعطافرمائے ،اللہ کے نام سے تم پر دم کرتاہوں۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات حسنین ؓ کو (نظر بند اورانسانی وغیرانسانی اذیتوں سے حفاظت کے لیے)مندرجہ ذیل کلمات سے دم کیاکرتے تھے اورفرماتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے بچے حضرت اسحاق اوراسماعیل علیہما لسلام کو ان کلمات سے دم کیاکرتے تھے۔
أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ ، وَيَقُولُ: هَكَذَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يُعَوِّذُ إِسْحَاقَ وَإِسْمَاعِيلَ۔(رواہ الترمذی،ابواب الطب،باب مَا جَاءفي الرقْيةمن العيْن: ۲۰۶۰)
میں اللہ تعالی کے کلمات تامہ(اس کے اسمائے حسنی اوراس کی نازل کردہ کتب) کے توسط سے شیطان مردود ،ہرقسم کے زہریلے جانور اورہرملامت کرنے والی آنکھ (جو نظربد کا سبب ہوتی ہے )سے تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتاہوں۔
و:(۶)مریض کے پاس زیادہ دیرنہیں ٹہرنا چاہئے ۔
بیمارپرسی دودھ دوہنے کے وقت کے بقدر
بعض مرتبہ مریض کو آرام یا بعض خاص ضروریات کی تکمیل کا تقاضاہوتاہے ،بیماراورتیماردارمہمان کے واپس ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں ،زبان سے کہہ نہیں سکتے ،جس کی وجہ سے ان لوگوں کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے،اس لیےمریض اورتیمارداروں سے چند تسلی کے کلمات کہہ کر فورًا چلے آنا چاہئے ؛ البتہ اگر مریض خود خواہش مند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
ز:(۷)مریض کے پاش شوروشغب نہیں کرنا چاہئے ، اس لیے کہ شوروشغب سے مریض کو بھی اذیت ہوتی ہے اورتیمارداروں کو بھی برالگتاہے ۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: العیادۃ فواق ناقۃ ۔(مشکوۃ ،کتاب الجنائز ،باب عیاۃ المریض ۱۵۹۰)
عیادت دودھ دوہنے کے وقت کے بقدر ہونی چاہئے ، حضرت سعید المسیب ؓ سے مرسلاًمروی ہے : سب سے جلد واپسی والی عیادت سب سے افضل ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:عیادت میں سنت یہ ہے کہ مریض کے پاس کم وقت ٹہراجائے اور شورشرابہ نہ کیاجائے ۔
مریض کو سکون اور خاموشی کا ماحول اچھا لگتا ہے، شور و غل سے تکلیف اور الجھن محسوس ہو تی ہے، اس لیے عیادت کرنے والوں اور تیمار داروں کو غیر ضروری بات چیت سے احتراز کرنا چاہئے۔
بیمارکے پاس کم ٹہرنا سنت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ تَخْفِيفُ الْجُلُوسِ، وَقِلَّةُ الصَّخَبِ فِي الْعِيَادَةِ عِنْدَ الْمَرِيضِ.رَوَاهُ رَزِينٌ۔(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الجنائز : ۱۵۸۹)
اگرکوئی شخص ایسا ہوکہ مریض کو اس کے قریب رہنے سے خوشی حاصل ہوتی ہو،راحت ملتی ہو، یاکوئی ایسی شخصیت ہوجس سے حصول ِبرکت کی امیدہو ،توان لوگوں کے مریض کے پاس دیرتک رہنا جائز ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الجنائز ،باب عیاۃ المریض ۱۵۹۰)
ح:(۸)مریض کسی کھانے پینے کی چیز کی خواہش کرے اور وہ چیز اس کی صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہو ،تو وہ چیز مریض کے لیے فراہم کرنا چاہئے ۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی عیادت کے لیےتشریف لے گئے ، اس بیمارسے فرمایا: کیاکھاناچاہتے ہو ؟بیمارشخص نے کہا: گہیوں کی روٹی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس گہیوں کی روٹی ہو ، وہ اس مریض کے پاس بھیج دے ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جب کوئی مریض کسی چیز کی کھانے کی خواہش کرے ،تو اس کو وہ چیز کھلادے ۔(ابن ماجہ ،کتاب الطب،باب المریض یشتھی الشیبہ: ۳۴۴۰)
ط:(۹)جب بیمارپرسی کے لیے جائے ،تومریض سے دعاکی درخواست کرنی چاہئے ،اس لیے کہ مریض کی دعاقبول ہوتی ہے ۔
حضرت عمربن خطاب ؓ فرماتے ہیں: جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ،تو اس سے دعاکی درخواست کرو، اس لیے کہ مریض کی دعا(قبولیت میں )ملائکہ کے دعاکی طرح ہوتی ہے ۔۔(ابن ماجہ ،کتاب الطب،باب المریض یشتھی الشیبہ: ۳۴۴۱)
ک:(۱۰)عیادت کے لیے مناسب وقت میں جائے ،کیوں کہ بعض اوقات مریض اورتیماردارکے آرام اور ضروریات ک ہوتاہے ،اس لیے ان چیزوں کالحاظ رکھنا چاہئے۔(فتح الباری ،کتاب المرضی،باب وجوب عیادۃ المریض: ۵۶۴۹)
غیرمسلم کی بیمارپرسی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں اورعورتوں یہاں تک کہ غیرمسلموں کی عیادت کے لیے بھی تشریف لے جاتے تھے،اس لیے کہ انسانیت کی بنیاد پر وہ بھی ہم دردی کے مستحق ہیں ، ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی عیادت کرناتو اسلامی حق ہے ؛مگر اس سے آگے بڑھ کر انسانیت کی بنیاد پربلاتفریقِ مذہب و ملت غیرمسلم برادرانِ وطن کی مزاج پرسی بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں، اگراس میں تبلیغِ اسلام کی نیت کرلی جائے ،تو پھرنور علی نور۔اس کے بہتر اورمفید نتائج سامنے آتے ہیں ۔
ایک یہودی لڑکارسول اﷲ ﷺ کی خدمت کیاکرتاتھا ،وہ بیمارہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی لڑکے کی خبر گیری اور عیادت کے لیے تشریف لے گئے ،اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی اورفرمایا: اسلام قبول کرلو، (اس کا باپ بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا)وہ یہودی لڑکا اپنےباپ کودیکھنے لگا ،باپ نے کہا : بیٹا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لے ،بیٹے نے فورًاکلمہ پڑھا،اورانتقال کرگیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الحمدللہ الذی انقذہ من النار۔تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں،جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا ۔(رواہ البخاری عن انس ،کتاب الجنائز،باب اذااسلم الصبی ،فمات:۱۳۵۶)
محترم قارئین کرام !اس مضمون کی پہلی قسط ’’بیماری گناہوں کی معافی اوردرجات کی بلندکا ذریعہ ‘‘ہے ،اس کو پڑھنے کے لئے ان ہی کلمات پر کلک کیجئے ،فقط والسلام عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور