بیماری گناہوں کی معافی اوردرجات کی بلند ی کا ذریعہ

بیماری گناہوں کی معافی اوردرجات کی بلند ی کا ذریعہ:مفتی عبداللطیف قاسمی ،جامعہ غیث الہدی ،بنگلور

دنیا دارالامتحان ہے ،جس طرح ایمان سے محروم انسان کو ابتلا وآزمائش میں مبتلاکیا جاتاہے ،اسی طرح صاحبِ ایمان کے لیے بھی ابتلا وآزمائش مقدرہوتی ہے ،اسلام کا تصوریہ ہے کہ بیماری اورشفااللہ کی طرف سے ہوتی ہے ،فرماں بردار اورنافرماں کی کوئی تخصیص نہیں ہے،حضرات انبیائے کرام بھی بیمارہوئے ہیں،سیدالمرسلین اورامام الانبیاء بھی متعدد مرتبہ بیماری میں مبتلاہوئے ہیں ،وفات کے موقع پرتقریباًچودہ دن بیماررہے ،بیماری مومن کے لیے امتحان وآزمائش ہے ، دنیا میں آزمائشیں  بخشش اور مغفرت کے لیے آتی ہیں ،حقیقت میں بیماری ایک نعمت ہے ،گناہوں کے لیےکفارہ اور رفع درجات کا سبب ہے،بیمارکواللہ اوربندوں سے معافی تلافی اورحقوقی کی ادائیگی کے لیے  ایک موقع  دیاجاتاہے ۔

حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال نرم ونازک پودے کی سی ہے ، جس کو ہوائیں ادھرسے ادھرجھکاتی رہتی ہیں ،منافق کی مثال صنوبرکے درخت کی سی ہے، جس کی جڑیں زمین میں نہایت مضبوط ہوتی ہیں، ہوائیں اس کو اِدھراُھرجھکانہیں سکتیں ؛یہاں تک کہ اس کو یکبارگی اکھاڑدیاجاتاہے ۔(بخاری ،کتاب المرضی،باب کفارۃ المرض: ۵۶۴۳)

یعنی مومن کو  غفلت سے بیدارکرنے  اوراس کی اخروی ترقی کے لیے باربارآزمائشیں آتی رہتی ہیں ،منافق اوربے ایمان کو مہلت دی جاتی ہے اوروہ غفلت کی زندگی میں مست ہوتاہے ؛یہاں تک کہ اچانک اس کو موت  آجاتی ہے،یااس پرکوئی عذاب نازل ہوجاتاہے ،جس کی وجہ سے اس کے لیے توبہ ،استغفار  اورگناہوں سے معافی تلافی کی کوئی صورت با قی نہیں رہتی۔

بیماری اورپریشانی گناہوں کے لیے کفارہ

 حدیث قدسی میں واردہے ،حضرت انس ؓفرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الرَّبَّ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى يَقُولُ:وَعِزَّتِي وَجَلَالِي لَا أُخْرِجُ أَحَدًا مِنَ الدُّنْيَا أُرِيد أَغْفِرَ لَهُ حَتَّى أَسْتَوْفِيَ كُلَّ خَطِيئَةٍ فِي عُنُقِهِ بِسَقَمٍ فِي بَدَنِهِ وَإِقْتَارٍ فِي رِزْقِهِ،رَوَاهُ رزين۔(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الجنائز ،باب عیادۃ المریض : ۱۵۸۵)

اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: میری عزت اورجلال کی قسم !میں کسی شخص کو جس کی میں مغفرت کرنا چاہتاہوں، اس کودنیاسے نہیں نکالتا؛یہاں  تک کہ بدنی بیماری اوررزق کی تنگی میں مبتلاکرکے اس کی گردن پر موجود  گناہوں سے اس بندے کوپاک و صاف نہ کردوں۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ هَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًى وَلاَ غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ۔(رواہ البخاری ،کتاب المرضی: ۵۶۴۱)

حضرت ابوسعیدخدری اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہمارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کوجو تھکان ،بیماری ،غم ورنج ، کوئی تکلیف اورغم حتی کہ کانٹابھی چھبتاہے ،تواللہ تعالیٰ اس تکلیف کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔ 

بخارگناہوں کو اس طرح دورکرتا ،جیسےبھٹی لوہے کی گندگی کو دورکردیتی ہے

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ  أَذًى مِنْ مَرَضٍ فَمَا سِوَاهُ إِلَّا حَطَّ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا۔(رواہ البخاری ،کتاب المرضی،باب اشدالناس بلاء:۵۶۴۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائب ؓ کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایا: کیابات ہے کہ تم لمبی لمبی سانس لے رہی ہو؟انھوں نے کہا: بخارہے ،اللہ اس کو نامبارک بنائے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخارکو برابھلانہ کہو ،کیوں کہ بخارانسان کے گناہوں کو اس طرح دورکردیتاہے ،جس طرح بھٹی لوہے کی گندگی کو دورکردیتی ہے ۔(مسلم،کتاب البروالصلۃ ،باب ثواب المؤمن:۲۵۷۵ )

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کوبیماری ،یاکوئی تکلیف پہنچتی ہے ،تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس تکلیف اوربیماری  کی وجہ سے اس مسلمان کے گناہوں کواس طرح (تیزی سے )گراتے  ہیں ،جس طرح درخت (موسم خزاں میں )اپنےسوکھے پتوں کو (تیزی سے )گراتاہے ،یعنی مسلمان کم وقت میں اپنے تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتاہے۔ 

گناہوں کو مٹانے والی والی چیزوں سے خوش ہوجاؤ

ابوالاشعث صنعانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں دمشق کی جامع مسجد صبح سویراپہنچا ، میری ملاقات اصحاب ِرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت شدادبن اوس اورصنابحی رضی اللہ عنہماسے ہوئی ،میں نے ان دونوں سے عرض کیا: اللہ تم پررحم کرے ،آپ حضرات کہاں جارہے ہیں؟انہوں نے فرمایا: قریب میں ہماراایک بھائی ہے، اس کی عیادت کے لیے ہم جارہے ہیں،تومیں بھی ان کے ساتھ ہوگیا، پھرہم لوگ چلے اوراس بھائی کے پاس پہنچے،ان دونوں صحابہ کرام نے اس مریض سے پوچھا کہ تم نے صبح کیسی کی؟(خیریت سے ہو)اس مریض نے کہا : اللہ کے فضل سے صبح کی،(الحمدللہ خیریت سے ہوں)پھرحضرت شدادؓ نے فرمایا: گناہوں کو مٹانے والی اور معاف کرانے والی چیزوں سے خوش ہوجاؤ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ آپ نے فرمایا: 

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: إِنِّي إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنًا، فَحَمِدَنِي عَلَى مَا ابْتَلَيْتُهُ، فَإِنَّهُ يَقُومُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ مِنَ الْخَطَايَا، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا قَيَّدْتُ عَبْدِي، وَابْتَلَيْتُهُ، فَأَجْرُوا لَهُ كَمَا كُنْتُمْ تُجْرُونَ لَهُ وَهُوَ صَحِيحٌ۔(مسند احمد،مسندشداد بن اوسؓ:۱۷۱۱۸)

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:جب میں اپنے کسی مؤمن بندے کو آزمائش میں مبتلاکرتاہوں اوروہ بندہ آزمائش میں بھی میری حمدوثنابیان کرتاہے(تقدیرپرراضی رہ کر ثواب کی امیدرکھتاہے ،صبر کرتاہے ،بےصبری ،جزع وفزع اورشکوے شکایات سے احتراز کرتاہے) تو وہ اپنی بیماری کے بسترسے(گناہوں سے پاک  وصاف ہوکر   ) اس طرح اٹھے گا، جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو ،اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے)فرماتے ہیں: میں نے اپنے بندے کو عمل کرنے سے روک دیاتھا اورآزمائش میں مبتلاکررکھاتھا ،لہذااس کےلیے اسی طرح اجرلکھاکرو جس طرح تم اس کی صحت کے زمانے میں اجرلکھاکرتے تھے۔

بیماری رفع درجات کا ذریعہ

بیماری ایک طرح سے رحمت ہے ،اس سے گناہوں کی صفائی ہوتی ہے اور جنت میں درجات بلند ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ بعض بندوں کے لیے آخرت میں بلند مقام کا فیصلہ کرتے ہیں ؛مگر ان کے پاس وہ اعمال نہیں ہوتے جن کی وجہ سے وہ اس کے مستحق ہوسکیں، اس لیے بسا اوقات بیماریوں اورآزمائشوں میں مبتلا کر کے ان کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آخرت کے اس بلند مقام کے اہل ہو جائیں۔

محمدبن خالد سلمی اپنے والد سے اوروہ ان کے داداسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَنْزِلَةٌ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ ،ابتلاه الله فِي جسده أَفِي مَالِهِ أَوْ فِي وَلَدِهِ ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ يُبَلِّغُهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ الله. (رَوَاه وَأَبُو دَاوُد،کتاب الجنائز ،باب الامراض المکفرۃ للذنوب: ۳۰۹۰)

اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے لیے کسی اونچے مقام کا فیصلے فرماتےہیں ،وہ بندہ اس مقام تک اپنے عمل سے پہنچ نہیں پاتا،تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی مالی یا بدنی مصیبت وپریشانی میں مبتلاکرتے ہیں،پھراس کو اس مصیبت پر صبرکی توفیق عطافرماتے ہیں یہاں تک  کہ اس کو اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جس کا فیصلہ خداکی طر ف سے اس بندے کے لیے ہوا ہے ۔حدیث مذکورسے معلوم ہوا  کہ پریشانیاں اوربیماریاں ہمارے لیے رفع ِدرجات کاذریعہ ہیں ،بشرط یہ کہ ہم صبروہمت سے کام لیں اورثواب کی امید رکھیں اورخدائی فیصلے اورتقدیرپر راضی رہیں ۔

مصائب وامراض پر اجروثواب

حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت عطابن رباح ؒ سے فرمایا: میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھائوں؟، عطا بن ابی رباح ؒنے عرض کیا: ضروردکھائیے، حضرت ابن عباس نے فرمایا: یہ وہ سیاہ فام عورت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی  اور عرض کیا: مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اس مرض سے شفا کی دعا فرمائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اگر تم چاہو ،تو صبر کرو اور تمہارے لیے جنت ہے ، اگر تم چاہو ،تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تمہیں اس مرض سے نجات دے دے،اس عورت نے عرض کیا: میں صبر کروں گی، پھرُاس نے یہ درخواست کی: مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ بس اتنی دعا فرما دیجیے کہ دورے کے دوران میرا ستر محفوظ رہے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی-(رواہ البخاری،کتاب المرضی،باب فضل من یصرع :۵۶۵۲)

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ۔ (رواہ الترمذی،ابواب الزھد:۲۴۰۲)

دنیا میں عافیت سے رہنے والے قیامت میں جب آزمائش والوں کو دیکھیں کہ ان کو خو ب اجر وثواب دیاجارہاہے ،تو وہ لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کا ش دنیا میں ان کے جسموں کو قینچیوں سے کاٹ دیاجاتااوران کو بھی اسی طرح اجر وثواب دیاجاتا،جیسے ان آزمائش والوں کو دیاجارہاہے۔

بیماری میں صحت کے زمانے کے اعمال اوران کاثواب

ایک صحت مندانسان جن کاموں کو کرسکتاہے ،بیمارآدمی ان کوانجام دے نہیں سکتا ،اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل وکرم ہے کہ مؤمن بندہ کسی عمل کو پابندی اوراہتمام سے کرتاتھا ،مرض ،سفریا کسی اورعذرکی وجہ سے وہ عمل چھوٹ جائے ،تو بھی اس عمل کا جروثواب اس کے لیے لکھاجاتاہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ کوئی عبادت کرتارہے ،پھربیمارہوہوجائے ،تواللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: اس بندے کے لیے اس عمل کا ثواب بھی لکھو جوعمل وہ صحت کی حالت میں کیاکرتاتھا ؛یہاں تک  کہ میں اس کو صحت دے دوں ،یا اپنے پاس بلالوں۔(مشکوۃ المصابیح،کتاب الجنائز ،باب عیادۃ المریض : ۱۵۵۹،مسنداحمدمسند عبداللہ بن عمرو: ۶۸۹۵)

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤمن بندہ کسی بیماری میں مبتلاہوتاہے ،اللہ تعالیٰ فرشتے سے فرماتے ہیں: ان نیک اعمال کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاکرو جن کو وہ (صحت کے زمانے میں) کیاکرتاتھا ،پھراللہ تعالیٰ اس کوشفاوصحت عطافرمادے ،تو اس کو گناہوں سے پاک وصاف فرمادیتے ہیں ،اگراس کو اپنے پاس بلالیں ،تو اس کو معاف فرمادیتے ہیں اور اس پررحم فرماتے ہیں۔ (مشکوۃ المصابیح،کتاب الجنائز ،باب عیادۃ المریض : ۱۵۶۰مسنداحمد،مسندانس بن مالکؓ:۱۳۵۰۱)

بیماری سے پریشان ہوکر نہیں رورہاہوں

حضرت شقیق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیمارتھے ،ہم لوگ عیادت کے لیے حاضرہوئے ،حضرت ابن مسعودؓ رونے لگے ،ہم نے آپ کو تسلی دی ،تو آپ نے فرمایا: میں بیماری سے پریشان ہوکر نہیں رورہاہوں  ،اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بیماری گناہوں کے لیے کفارہ کےذریعہ ہے ،اس لیے بیماری سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے،میں اس بات پرروہاہوں کہ بیماری کمزوری کے زمانے (بڑھاپے کی عمر جس میں طاقت وقوت مفقود ہونے کی وجہ سے انسان عمل نہیں کرسکتاہے)میں آئی ہے ،محنت کے زمانے میں بیماری  آتی ،تو  بیمارہونے سے پہلے  جواعمال کرتاتھا ،بیماری کے زمانے  میں بھی ان اعمال کا اجروثواب لکھاجاتاہے (اس بات پر رورہاہوں)۔(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الجنائز ،باب عیادۃ المریض : ۱۵۸۶)

بیماری اورمصیبت میں صبرواحتساب

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحت آدمی کے لیے ہزار نعمت ہے ،تمام دینی و معاشرتی خدمات اہل وعیال کی نگرانی، تجارت و کاروبار ؛بلکہ دنیا کا کوئی کام ایسا  نہیں جس کے لیے صحت کی ضرورت نہ ہو، اسی لیے ہر شخص یہ تمنا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ صحت مند رہے،؛لیکن بیماری انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے ،اس سے کوئی مفرنہیں ؛بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص میں کوئی خیرنہیں جس کو کبھی بیماری آئی نہیں ۔

لہذاایمان والوں  کوچاہئے کہ جب حالات سازگار ہوں،خوشی اور شادمانی کے سامان میسر ہوں،مالی وسعت اورتن درستی حاصل ،تو بھی وہ اس کو اپنا کمال اور اپنی قوت بازو کا نتیجہ نہ سمجھیں ؛بلکہ اس وقت بھی اپنے دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی بخشش ہے اور وہ جب چاہے اپنی بخشی ہوئی ہر نعمت چھین بھی سکتا ہے ، اس لئے ہر نعمت پر اس شکرکا کر ادا کریں ۔

جب کوئی دکھ ،مصیبت اوربیماری پیش آ جائے، تو وہ مایوسی اور سراسیمگی کا شکار نہ ہوں ؛بلکہ ایمانی صبر و ثبات کے ساتھ اس کا استقبال کریں  اور دل میں  یہ یقین رکھیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، جو ہمارا حکیم اور کریم رب ہے اور وہی ہم کو اس دکھ ، مصیبت اوربیماری سے نجات دینے والا ہے ۔

مومن بندے کا معاملہ بھی عجیب

اس دنیا میں تکلیف اور آرام تو سب ہی کے لیے ہے؛ لیکن اس تکلیف اور آرام سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا یہ صرف اُن اہل ایمان ہی کا حصہ ہے جو چین و آرام اور مسرت و خوشی کی ہر گھڑی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جب کسی رنج اور دکھ میں مبتلا کئے جاتے ہیں اور کوئی بیماری اورتنگی  ان کو پیش آتی ہے ، تو وہ بندگی کی پوری شان کے ساتھ صبر کرتے ہیں ۔

حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ،  ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ، اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے، تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو دکھ اور رنج پہنچتا ہے، تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کرتے ہوئے )اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے ۔ (مسلم،کتاب الزہد والرقاق:۲۹۹۹)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ : جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو  اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے، تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں گے ۔ (مجمع الزوائد ،باب فی من صبرعلی العیش الشدید: ۱۷۸۷۲)

صبرایوب ۔علیہ السلام

صبر کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی مصیبت اور تکلیف کا کسی کے سامنے اظہار نہ کرے اور ایسے صابروں کے لیے اس حدیث میں مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بخشش کا ذمہ لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان مواعید پر یقین اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

حضر ت مولانا سیدشبیراحمدعثمانی ؒ رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:حضرت ایوب علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے دنیا میں ہر طرح سے آسودہ رکھا تھا، کھیت،مویشی، لونڈی، غلام، اولاد صالح اور بیوی مرضی کے موافق عطا کی تھی، حضرت ایوب علیہ السلام بڑے شکر گزار بندے تھے؛لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، کھیت جل گئے، مویشی مر گئے، اور اولاد اکٹھی دب کر مرگی، دوست  اورآشنا الگ ہوگئے،بطورخاص سالہا سال کسی سخت بیماری میں میں مبتلاکئے گئے ۔

اس طویل بیماری کے زمانے  کبھی بھی زبان پرایک حرف شکایت  نہیں لائے ،اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں حضرت ایوب کے صبر کی داددیتے ہوئے  ارشادفرمایا:ہم نے ایوب کو صبرکرنے والاپایا ،وہ بہت ہی بہترین بندہ تھا اور(میری طرف ) بہت رجو ع کرنے والاتھا،حضرت ایوب علیہ السلام جیسے نعمت میں شاکر تھے ،ویسے ہی بلا میں صابررہے ،پھر دعا کی  اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ۔( لانبیآء :۸۳) رب کو پکارنا تھا کہ دریائے رحمت امنڈ پڑا۔

حضرت ایوب پراللہ کی نظر عنایت

اللہ تعالیٰ نے مری ہوئی اولاد سے دگنی اولاد دی، زمین سے چشمہ نکالا،اسی سے پانی پی کر اور نہا کر تن درست ہوئے،بدن کا سارا روگ جاتا رہا اور جیسا کہ حدیث میں ہے سونے کی ٹڈیاں برسائیں، غرض سب طرح درست کردیا،ایوب علیہ السلام پر یہ مہربانی ہوئی اور تمام بندگی کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت اور یادگار قائم ہوگئی کہ جب کسی بندے پر دنیا میں برا وقت آئے ،تو ایوب علیہ السلام کی طرح صبرو استقلال دکھلانا اور صرف اپنے پروردگار سے فریاد کرنا چاہیے، حق تعالیٰ اس پر نظر عنایت فرمائے گا۔(مستفاد:ازتفسیرعثمانی،سورۃ الانبیاء:۸۳)

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ عِظَمَ الجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ البَلَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ۔(رواہ الترمذی،ابواب الزھد:۲۳۹۶)

بڑاانعام بڑی آزمائش پرہوتاہے ، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتے ہیں ،تو اس کوآزمائش میں مبتلاکرتے ہیں ،جو اس کے فیصلے سے راضی ہوتاہے ،اللہ اس سے راضی ہوتے ہیں ،جو اس کے فیصلے سے ناراض ہوتے ہیں ،اللہ ان  سے ناراض ہوتے ہیں ۔

علاج ومعالجہ اور دعابے صبری نہیں

اس دنیا میں تکلیف، دکھ اور رنج بھی ہے اور آرام ،خوشی اورمسرت بھی ،تن درستی اوربیماری بھی ہے اور سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور فیصلے سے ہوتا ہے ، اس لیے ایمان والوں کو  چاہئے کہ جب تکلیف ،مصیبت پریشانی اورآزمائشیں آئیں،تو صبروہمت سے کام لیں ، ظاہری تدابیراختیارکریں ،خداکی طرف رجوع کریں اوران مصائب پراجروثواب کی امیدرکھیں  ،ان شاء اللہ حالات سازگارہوں گے ،اس کی بہترین مثال اللہ نے قرآن پاک میں حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعے میں بیان فرمائی ہے ،یہی ہمارے لیے کافی   ہے۔

مرض کے ازالے کے لیے ظاہری  تدابیر اختیارکرنا ، علاج ومعالجہ کرنا  ،ڈاکٹر،طبیب اورتیماردارکواپنی  بیماری اور تکلیف بتانا اوردعاکی درخواست  کرنا، مریض  کا شدت ِمرض کی وجہ سے کراہنا ،صبر،تقوی اورتوکل کے خلاف نہیں ہے،نیز اللہ تعالیٰ سے دعاکرنا ،اللہ کے سامنے اپنے کمزوری اورعاجزی  اوراپنی  عبدیت وحاجت مندی کا اظہارکرنا،پریشانی اوربیماری سے شفاطلب کرنا  بے صبری  نہیں ہے ؛بلکہ یہ باتیں اللہ کو بہت پسند اورمحبوب ہیں۔

اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ کیجئے جب کہ انہوں نے (شدیدمرض میں مبتلاہونے کے بعد)پکارا کہ مجھ کو تکلیف پہنچی ہے اورآپ سب سے زیادہ مہربان ہیں ،پس اپنی مہربانی سے میری تکلیف اوربیماری کو دورکردیجئے ،ہم نے ان کی دعاقبول کی اورہم نے اپنے فضل سے اورعبادت گزاوں کی عبرت کے لیے ان کو دوبارہ ان کاکنبہ عطافرمایا اوران کے ساتھ ان کے برابر اوربھی اہل،اولاد اورمال ودلت عطاکیا ۔

جزع وفزع بے صبری

یہی وجہ ہے کہ محققین نے فرمایاہے : حضرت ایوب علیہ السلام کی مذکورہ دعاتوحید وعبدیت،عجز وانکساری پر مشتمل  عجیب جامع دعاہے ۔(التفسیرالقیم ،الانبیاء:۸۳)

بے صبری یہ ہے کہ بیمار جزع وفزع کرے  ،تقدیرپر ناراضگی  کااظہارکرے  اورمخلوق کے سامنے خالق کی شکایت کرے  ،خدا،رسول اورشریعت کو برا بھلاکہے،اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجائے ،مرض کی شدت کی وجہ سے کوئی نامناسب قدم اٹھائے ،یہ بے صبری ہے جوممنوع ہے ،مسلمان کی شان نہیں ہے،نیز جزع وفزع سے  تکلیفیں ،مصیبتں ،پریشانیاں اوربیماریاں دورنہیں ہوں گی،دنیا میں ان پریشانیوں میں مبتلارہیں گے  اور آخرت میں اجروثواب سے محروم ہوجائیں گے ۔

محترم قارئین کرام بیماری اوربیمارپرسی کے آداب ایک طویل مضمون ہے ،اس صفحے میں صرف بیماری سے متعلق امورکو پیش کیاگیاہے ’’بیمارپرسی کی اہمیت ،آداب اورطریقہ ‘‘کا مطالعہ کرنے کے لیے اس ان سطروں پرکلک کریں۔