خطبات حکیم الامت: چودھویں صدی کے اکابرمیں سے حضرت اقدس حکیم الامت ،مجددالملت شیخ المشائخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی ؒ کے خلیفہ ومجاز مولانا اشرف علی تھانویؒ (المتوفی ۱۳۶۲ھ )کی ذات بابرکت ہے جو ہندوپاک میں محتاج تعارف نہیں،حضرت والانے ابتدائی تعلیم تھانہ بھون اورانتہائی تعلیم ”ام المدارس دارالعلوم دیوبند“ میں حاصل کی۔
آپ دارالعلوم دیوبندکے اولین فارغین میں سے ہیں ،فراغت کے بعدسب سے پہلے مدسہ ”فیض عام “کان پورمیں صدرمدرس مقررہوئے پھر”جامع العلوم“ کی مسندصدارت کو زینت بخشی ، ۱۳۱۵ءمیں ملازمت ترک کرکے ”خانقاہ امدادیہ“ تھانہ بھون میں متوکلا علی اللہ قیام فرمایا اوراسی خانقاہ میں۴۷ سینتالیس سال تبلیغِ دین ،تزکیہ نفس اورتصنیف وتالیف کے ذریعہ عظیم الشان اورگراں قدرخدمات انجام دیں،حضرت والاکا وصال۱۳۶۲ھ میں ہوااورحافظ ضامن شہیدؒ کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی۔
حضرت تھانویؒ کی ذات بابرکت ایک جامع شخصیت ہے ،علوم ظاہری وباطنی کی یکجائی ،تمام علمی وعملی کمالات کا اجتماع ،ایک طرف فقہ وفتاوی کی مسندنشینی ،دوسری طرف تصنیف وتالیف،وعظ وتقریرسے ہدایتِ خلق ،ردِبدعات ،دفع شبہات ،ابطال رسوم اورتیسری طرف اپنے انفاس قدسیہ سے باطنی فیوض وبرکات کا اجراءاوراسلام کے عقائد واعمال کو زمانہ کے تہ برتہ ظلمات کے گردوغبارسے پاک وصاف کرنا،ایسے اوصاف ہیں جن کا اجتماع آپ کے محبین ومعتقدین کے خیال میں منصبِ تجدید کے حدتک پہنچتاہے ۔
حضرت مولانا سیدسلیمان ندویؒ تحریرفرماتے ہیں
مولانا سیدسلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : حضرت والا کی اصلاحات کی خاص شان یہ ہے کہ وہ ہمہ گیرہیں ،اصلاحِ امت کی کوشش میں علمی وعملی زندگی کے ہرگوشہ پرآپ کی نظرتھی ،بچوں سے لیکربوڑھوں تک ،عورتوں سے لیکرمردوں تک ،جاہلوں سے لیکرعالموں تک ،فاسقوں سے لیکر صوفیوں ودریشووں تک ،غریبوں سے لیکر امیروں اوردولت مندوں تک ،خریداروں سے لیکر تاجروں تک ،طالب علموں سے استاذوں اورمدرسوں تک ؛غرض ہرصنف ِامت اورہرجماعت کے کاموں تک آپ کی نظردوڑی ،پیدائش ،شادی ،بیاہ ،غمی اوردوسری تقریبوں اوراجتماعوں تک کے احوال پرآپ کی نگاہ پڑی اوران کو شریعت کے معیارپرجانچ کر ہرایک کا کھراورکھوٹا الگ کیا،رسوم وبدعات اورمفاسدکے ہرروڑے اورپتھرکو صراط مستقیم سے ہٹایا۔
تبلیغ ،تعلیم ،سیاست ،معاشرت ،معاملات ،اخلاق ،عبادات اورعقائد میں دین خالص کی نظرمیں جہاں کوئی کوتاہی نظرآئی اس کی اصلاح کی ،فقہ کے نئے نئے مسائل اورمسلمانوں کی زندگی کی نئی نئی ضرورتوں سے متعلق بھی پوراسامان مہیا کردیا،خصوصیت کے ساتھ فن سلوک جس کا مشہورنام تصوف ہے ،تجدیدکی، جس کی تابانی پربدعات کی ظلمت غالب آگئی تھی،دنیا پرست صوفیوں کے لئے کسب ِمعاش کی صورت بن گیا تھا،سلوک کی غایت وحقیقت پوشیدہ ہوگئی تھی ،طریقت وشریعت کو دومتقابل حریف ٹہراکران میں سے ایک کی توہین وتحقیرکی جارہی تھی۔(جامع المجددین بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند۵۴/۲)
آپ کی تصانیف ومواعظ سے لاکھوں افرادکوعلمی وعملی فیض پہنچا ،عوام اورخواص کا جتنا بڑاطبقہ بیعت وارشادکی راہ سے آپ سے مستفیض ہوا ،بڑے بڑے صاحب علم وفضل اوراہل کمال آپ کے حلقہءبیعت میں شامل ہوئے اس کی مثال اس دورکی کسی دوسری شخصیت میں نہیں ملتی ،آپ کی ذات والاصفات علم وحکمت اورمعرفت وطریقت کا ایک سرچشمہ تھی جس سے برصغیرکے مسلمان سیراب ہوئے ہیں اورہوتے رہیں گے ،دین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آپ کی عظیم خدمات تقریری اورتصنیفی صورت میں نمایاں نہ ہوں۔
خطبات حکیم الامت کے اثرات
حضرت والا کے تجدیدی امورمیں سے ایک بڑا کارنامہ اپنے خطبات ومواعظ،ملفوظات ومکتوبات کے ذریعہ تبلیغ ِدین،اشاعتِ اسلام ،ردِبدعات ومنکرات ہے ،امت نے آپ کوحکیم الامت، مجددالملت کا لقب دیا جس کی وجہ یہی ہے کہ آپ نے زندگی کے ہرشعبہ میں امت کے امراض کی تشخیص کی اوران کے علاج کی تدبیروتجویز پیش فرمائی،بدعات وخرافات ،توھمات کو شریعت وسنت سے الگ کیا،امت کے احوال کی اصلاح کی ،رزائل واخلاق سیئہ سے تخلیہ اورفضائل واخلاق حسنہ سے آراستہ کیا،حضرت والا کے خطبات،علم کا سمندر، قرآنی آیات ،احادیث نبویہ ،نیز دلائل نقلیہ وعقلیہ سے مدلل،الہامی علوم ومعارف پرمشتمل ہوتے ہیں –
یہی وجہ ہے کہ اکابرامت خطبات حکیم الامت، ومواعظ ،ملفوظات ومکتوبات کو مشعل راہ بنائے ہوئے ہیں ،جوکتاب” خطبات حکیم الامت“ کے نام سے شائع ہوئی ہے ،وہ مختلف عناوین پر بتیس جلدوں میں تقریبا ساڑھے تین سو مواعظ کو جامع ہے ۔
خطبات حکیم الامت کو حضرت تھانوی ؒ کے قابل اعتماد اورذی علم حضرات مولانا ظفراحمدتھانوی ،مولوی سعید احمد صاحب ،حکیم محمد یوسف رحمھم اللہ نے مقام ِوعظ ،تاریخ اوروقت کے تمام قیودات کے ساتھ ضبط کرنے کا غیرمعمولی اہتمام کیاہے ،جس مجلس میں حضرت والاکے مخصوص احبا ب وعظ وتقریرکو ضبط کرنے والے شریک نہیں تھے اس مقام پرحضرت والا نے وعظ کے بعد اختصار کے ساتھ خودضبط کرنے کا اہتمام کیاہے ،موجودہ اکابرمیں سے کسی کی سرپرتی میں اس عظیم مجموعہ کی جدیدکتابت،آیات واحادیث مبارکہ کی تخریج ،مشکل الفاظ کی وضاحت کردی جائے ،تواس سے استفادہ آسان اورفیض عام ہوجائے۔ (فہارس خطبات ومواعظ :۲۹تا۳۲ مرتب ابوفیضان قاسمی)