دعوت قبول کرنا مسلمان حق

دعوت قبول کرنا مسلمان حق ہے :عبداللطیف قاسمی ،جامعہ غیث الہدی ،بنگلور

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ ؓ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ :قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ ،وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ ،وَإِذَا عَطسَ فَحَمِدَ اللَّهَ ،فَسَمِّتْهُ ،وَإِذَا مَرِضَ ،فَعُدْهُ َإِذَا مَاتَ ،فَاتَّبِعْه۔( صحیح مسلم:کتاب السلام، باب مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ لِلْمُسْلِمِ رَدُّ السَّلاَمِ.۲۱۶۲)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ،پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول ﷺوہ کون سے حقوق ہیں،آپ نے فرمایا: جب تم کسی مسلمان سے ملو، تو اس کو سلام کرو، جب وہ تم کو دعوت دے، تو اس کی دعوت قبول کرو،جب وہ تم سے نصیحت (خیرخواہی،مشورہ )طلب کرے ،تو اس کو اچھی نصیحت (خیرخواہی کا معاملہ )کرو،(صحیح ومناسب مشورہ دو)جب وہ چھینک کے بعد ا لحمدللہ کہے ،تو اس کی چھینک کے جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘ کہواور جب وہ بیمار ہوجائے ،تو اس کی عیادت کرواور جب وہ فوت ہوجائے ،تو اس کی نماز ِجنازہ میں شرکت کرو۔

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جوبنیادی حقوق ہیں ،ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کو دعوت دے ،تو اس کی دعوت قبول کرے ،جب کوئی مسلمان بھائی ولیمہ ، عقیقہ ، عقد نکاح، یاکسی بھی جائز مناسبت کی بناپرکھانے کی دعوت کرے ،تو اس مسلمان بھائی کی دل داری ،دل جوئی ،اس کی خوشی ومسرت میں شرکت اور اس کے دلی جذبات کی قدرکرتے ہوئے اس کی دعوت کو قبول کرے، دعوت قبول کرنےمیں داعی کی دل جوئی اوراس کی قدردانی ہوتی ہے ،آپس میں الفت ومحبت پیداہوتی ہے،دعوت میں شریک ہوکر تقریب کی مناسبت سے داعی ،اس کے عزیز اوراقارب کے لیے خیروبرکت کی دعائیں کرے،تہنیتی کلمات پیش کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت قبول کرنا

اسی دل داری کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے : اگرمجھے بکری کے پیرکی دعوت دی جائے ،تو میں قبول کروں گا ،یعنی ایک غریب اورمعمولی انسان بھی کسی معمولی چیز کی دعوت کرے ،تو بھی ایک مسلمان کی قدرکرتے ہوئے اس کی دل داری ودل جوئی کے لیے میں اس کی دعوت کوقبول کروں گا ۔سبحان اللہ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ دُعِيتُ إِلَى كُرَاعٍ ،لَأَجَبْتُ، وَلَوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ كُرَاعٌ لَقَبِلْتُ۔(بخاری ،کتاب النکاح،باب من اجاب الی کراع : ۵۱۷۸)

اگرمجھے بکری کے پیر کی دعوت دی جائے ،تو میں قبول کروں گا ،اگرمجھے بکری کے پیرکا ہدیہ پیش کیاجائے ،تو میں قبول کروں گا ۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:میری نانی ملیکہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ، آپ نے کھانا تناول فرمایا،پھرآپ نے فرمایا: کھڑے ہوجاؤ ،(نفل ) نمازپڑھاؤں گا ،چناں چہ میں نے ایک پرانی سیاہ حصیر اٹھائی ،اس پر پانی کے چھینٹیں دئے ،پھرمیں اوریتیم نے صف بنائی اورنانی پیچھے کھڑی ہوگئیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نفل )نماز باجماعت (گھرمیں خیروبرکت کے لیے )پڑھائی،پھرواپس گھرآئے۔(بخاری،کتاب الصلوۃ ،باب الصلوۃ علی الحصیر: ۳۸۰)

رسول اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھوک کے اثرات

حضرت ابومسعود ؓ فرماتے ہیں

أَنَّ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ، كَانَ لَهُ غُلاَمٌ لَحَّامٌ، فَقَالَ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ: اصْنَعْ لِي طَعَامَ خَمْسَةٍ لَعَلِّي أَدْعُو النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، وَأَبْصَرَ فِي وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الجُوعَ، فَدَعَاهُ فَتَبِعَهُمْ رَجُلٌ لَمْ يُدْعَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَذَا قَدِ اتَّبَعَنَا، أَتَأْذَنُ لَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ۔(رواہ البخاری،کتاب الاطعمۃ،باب الرجل یتکلف الطعام:۵۴۳۴)

ایک انصاری صحابی جن کو ابوشعیب کہاجاتا تھا ،ان کا ایک غلام تھا ،ابوشعیب ؓنے اپنے غلام سےکہا :میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشمول پانچ افراد کو کھانے پرمدعوکرناچاہتاہوں،اس لیےپانچ افراد کاکھانا تیارکرو،میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھوک کے اثرات دیکھے ہیں،(چنانچہ کھانا تیارکیاگیااوررسول اللہ علیہ وسلم جب دعوت کے لیےچلے تو)ایک ایسے شخص بھی ساتھ ہوگئے جو دعوت دئے جانے کے وقت حاضرنہیں تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص ہمارے ساتھ آگئے ہیں ،اگرآپ اجازت دیں ،تو یہ بھی شریک طعام ہوجائیں گے ،انھوں نے اجازت دے دی ۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں

دعوت دینے والا صدق ِمحبت اورخلوص کے ساتھ کھاناتناول کرنے میں شرکت کی دعوت دیتاہے ،آپ کی ہم طعامی سے وہ خوش ہوتاہے اور اپنے تعلقات کو استواراورمضبوط کرنا چاہتاہے ،بلاعذردعوت قبول نہ کرنا بداخلاقی ،بڑائی اوربے مروتی ہے،الفت ومحبت نہ ہونے کی دلیل ہے ،غلط فہمیاں اوربدگمانیاں پیداہوتی ہیں،اسی وجہ سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا عذر شرعی دعوت قبول نہ کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے ،جو لوگ مال دار،یا صاحب حیثیت ہونے کی وجہ سے غریبوں کی دعوت میں شریک نہیں ہوتے ہیں ،ان لوگوں کو نبی کریمﷺ عمل اور فرمان یاد رکھناچاہئے کہ آپ نے فرمایا :

بلا عذر شرعی دعوت قبول نہ کرنا بداخلاقی

مَنْ تَرَكَ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔(رواہ البخاری،کتاب النکاح،باب من ترک الدعوۃ:۵۱۷۷)

حدیث کی کتابوں اس طرح کے بے شمارواقعات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غرباء وفقراء کی دعوت میں بھی ان کی دل داری ودل جوئی کے لیےشریک ہوتے تھے ،بطورنمونہ صرف دوحدیثیں ذکرکی گئیں ہیں ۔

جس شخص نے (بلاعذرشرعی )دعوت کوقبول نہیں کیا،اس نے اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کی ۔

جب ایک مسلمان دعوت دے ،تواس کو ضرورقبول کرے ،اگرکھاناتناول کرنے میں کوئی عذرہو،تو میزبان سے معذرت کردے اور اس کو دعائیں دے کر واپس چلاآئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُجِبْ، فَإِنْ كَانَ صَائِمًا، فَلْيُصَلِّ، وَإِنْ كَانَ مُفْطِرًا، فَلْيَطْعَمْ۔(رواہ مسلم عن ابی ھریرۃؓ،کتاب النکاح ،باب الامرباجابۃ الداعی الدی الدعوۃ :۱۴۳۱)

جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے ،تو چاہئے کہ وہ قبول کرے ،اگروہ روزے سے ہو،( قضایا کوئی واجب روزہ رکھاہواہے، تو دعوت میں حاضر ہوجائے ؛تاہم کھانے میں شریک نہ ہو، البتہ) ان کے حق میں خیر اور برکت کی دعاء کرے،اگرروزے سے نہ ہو،تو دعوت میں شریک ہوکر کھانا تناول کرے۔

اگر نفلی روزےسے ہو ،میزبان کو کھاناتناول نہ کرنے سے تکلیف پہنچتی ہو ،تو نفل روزہ توڑکر کھانا تناول کرنا افضل ہے ،اگرمیزبان ہمارے عذرکو قبول کرلے ،تو نفل روزے کو نہیں توڑنا چاہئے ۔(فتح الباری ،کتاب النکاح،باب من اجاب الی کراع : ۵۱۷۸)

دعوت قبول کرنے کا شرعی حکم

ولیمہ ،عقیقہ ،یاکسی اورجائز امرکی بناپر دعوت دی جائے ،تو اس کو قبول کرنا سنت ہے ،ولیمہ میں دعوت قبول کرنے کے زیادہ تاکیدکی گئی ہے ،بعض علما نے فرمایا کہ دعوت ِولیمہ قبول کرنا واجب ہے؛البتہ کھاناتناول کرنا مستحب ہے۔( مرقاۃ المفاتیح،کتاب النکاح ،باب الولیمۃ )

ابن ملک فرماتے ہیں :اگر کوئی شخص دعوت میں شریک ہونے سے معذور ہو ،مثلا دعوت کی جگہ اتنی دور ہے کہ وہاں جانے کے لیے کافی مشقت وتکلیف برداشت کرنی پڑے گی، تو اس صورت میں اس دعوت کو قبول نہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

مدعوکو دعوت میں شریک ہونے سے کوئی خاص مشغولی ہے ،مدعو نے شرکت سے معذرت کرد ی اورداعی نے اس کی معذرت کو قبول کرلیا ،یہ بھی شرعی عذرہے۔( مرقاۃ المفاتیح،کتاب النکاح ،باب الولیمۃ :۳۲۱۷)۔

کن صورتوں میں دعوت قبول کرنا جائز نہیں

مندرجہ ذیل صورتوں میں دعوت میں شریک نہیں ہونا چاہے ۔الف(۱) ایسے شخص کی دعوت قبول نہ کرے جس کی کل آمدنی حرام ہے، اگر اکثرمال حلال ہے ،تو پھر تو جائز ہے؛ لیکن اگر زجر کے لیے نہ کھائے تو بہتر ہے۔ب:(۲)جس دعوت میں صرف مال داروں کوبلایاگیاہو،غریبوں کو نظرانداز کیاگیاہو،تواس دعوت میں شرکت نہ کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں صرف مال داروں کو دعوت دی گئی ہو ،غریبوں کو بلایانہ گیاہو۔

بِئْسَ الطَّعَامُ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُدْعَى إِلَيْهِ الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الْمَسَاكِينُ۔(مسلم عن ابی ھریرۃ ،کتاب النکاح ،باب اجابۃ الداعی : ۱۴۳۲)

ج:(۳) دعوت میں کوئی ایسا شخص شریک ہو جس سے دینی یادنیوی نقصان کا خطرہ ہو ،یا وہ فاسق وفاجرشخص ہوجس کے ساتھ بیٹھنا نامناسب ہو۔د:(۴)کسی شخص کو دعوت میں محض اس لیے بلایا جارہاہے کہ اس کی خوشنودی حاصل کی جائے اور اس سے کوئی نقصان نہ پہنچے ،یا اس کی ذات سے کوئی دنیاوی غرض پوری کرنے کے لیے دعوت دی گئی ہو،تو ایسی دعوت کو قبول نہ کرنا ہی اولی ہے ۔

غیرشرعی امورپر مشتمل میں دعوت میں شرکت

ہ:(۵)کسی شخص کو دعوت میں بلایاگیاہے؛ تاکہ وہ ان لوگوں کے باطل ارادوں، یا غیرشرعی امورمیں ان کی مدد کرے ۔و:(۶)جس دعوت میں ناجائز ،غیرشرعی امور: بدعات ،خرافات ،رسومات اورشرکیہ اعمال کا ارتکاب کیاجارہے ہو ،جیسے بے پردگی،بے حیائی ،شراب نوشی،ویڈیوگرافی،میوزک اورگانا بجانا ، (اسی طرح جہیز کےمطالبے اورلین دین کی تقریبات وغیرہ) تو ایسی دعوت میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ (شرح مسلم للنووی،کتاب النکاح ،باب اجابۃ الداعی،مرقاۃ المفاتیح،کتاب النکاح ،باب الولیمۃ )

ز:(۷)شہرت ،ریاکاری اورتفاخرکی غرض سے جودعوتیں کی جائیں ،ان میں بھی شرکت نہ کرے ۔حضرت ابن عباس ؓسےمرسلًامروی ہے :تفاخراورایک دوسرے سے سبقت لے جانےکی غرض سے کھلائے جانے والی دعوت میں شرکت نہ کی جائے۔(ابودؤد،کتاب الاطعمۃ،: ۳۷۵۴ )

بِئْسَ الطَّعَامُ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُدْعَى إِلَيْهِ الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الْمَسَاكِينُ۔(مسلم عن ابی ھریرۃ ،کتاب النکاح ،باب اجابۃ الداعی : ۱۴۳۲)

دعوت کے آداب

الف:(۱)کسی دعوت میں بلائےبغیرہرگز نہ جائے ۔(الاحزاب: ۵۳)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص دعوت میں بلائےبغیر جائے ،وہ چورکی شکل میں داخل ہوتاہے اور لٹیرے کی صورت میں باہرنکلتاہے ۔(ابوداؤد،کتاب الاطعمۃ،باب ماجاء فی اجابۃ الدعوۃ : ۳۷۴۱)

ب:(۲)جب دوشخص دعوت میں مدعو کریں ،تو جس کا گھرقریب ہواورقریبی پڑوسی ہو ،اس کی دعوت قبول کی جائے ۔ (ابوداؤد،کتاب الاطعمۃ،باب ماجاء فی اجابۃ الدعوۃ : ۳۷۴۱)ج:(۳)دوشخص دعوت دیں ،توجس نے پہلے دعوت دی ہے ،اس کی دعوت قبول کرے ۔(حوالہ سابق)د:(۴) اپنے ساتھ دعوت کے بغیر کسی شخص کو ہرگز نہ لے جائے۔ (رواہ البخاری،کتاب الاطعمۃ،باب الرجل یتکلف الطعام:۵۴۳۴)ہ:(۵) وقت سے پہلے آکر کھانا تیار ہونے کے انتظار میں نہ بیٹھے۔ (لاحزاب: ۵۳)و:(۶) کھانے سے فارغ ہوکر اپنے کاموں میں لگ جائے، دیر تک بیٹھے رہنا اور باتوں میں مشغول ہونا میزبان کے لیے باعثِ تکلیف ہے۔(لاحزاب: ۵۳)