عدل و انصاف اوراسلام

عدل و انصاف اوراسلام:امیرالہند حضرت مولانا سیدارشدمدنی مدظلہ ،صدرالمدرسین ،دارالعلوم دیوبند

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على سيدنا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.

اسلام ایک آسمانی مذہب ہے، جس کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے اللہ نے روۓ زمین پر بسنے والی سبھی مخلوق کے ساتھ عادلانہ ومنصفانہ برتاؤ کو پیش کرنے کے لئے بھیجا ہے، چناں چہ اسلام کی بنیادی کتاب قرآن کریم میں ،اللہ کے سچے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام میں جگہ جگہ اس کی تلقین ملتی ہے

وإذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل . (سورة النساء:۵۸)

جب لوگوں کا (خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والےہوں ) تصفیہ (فیصلہ ) کیا کروتو عدل سے تصفیہ کیا کرو۔

مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے ’’بین الناس‘‘ فرمایا ہے، ’’بین المسلمين يا بين المؤمنین‘‘ نہیں فرمایا ،اس میں اشارہ ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں سب انسان مساوی ہیں مسلم ہوں یا غیر مسلم، دوست ہوں یا دشمن، فیصلہ کرنے والوں پر فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہوکر جو بھی حق و انصاف کا تقاضا ہو وہ فیصلہ کر میں۔ (معارف القرآن:۲؍۴۴۸)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو فیصلے حق و انصاف کی بنیاد پر نہیں؛ بلکہ اپنے اور پراۓ کی بنیاد پر مبنی ہوں گے ،وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور ظلم ہوں گے ۔

ہرانسان عدل کا مکلف

يا أيها الذين أمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ،ولايجرمنكم شنئان قوم على أن لاتعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى واتقوا الله إن الله خير بما تعملون. (المائدة: ۸)

اے ایمان والو! اللہ تعالی کے لئے پوری پاپندی کرنے والے انصاف کے ساتھ شہادت ادا کرنے والے رہو اور کسی خاص قوم کی عداوت تمھارے لیے اس کا باعث نہ ہو جاۓ کہ تم عدل نہ کرو، عدل کیا کرو، (ہر ایک کے ساتھ ) کہ وہ تقوی سے زیادہ قریب ہے۔

مذکورہ آیت میں واضح طور پر سے ہدایت دی گئی ہے کہ انصاف قائم کرنا اور اس پر قائم رہنا حکومت اور عدالت ہی کا فریضہ نہیں؛ بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ خود بھی انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو بھی انصاف پر قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ (معارف القرآن۲؍۵۷۲)

إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي يعظكم لعلکـم تـذكـرون۔ (النحل:۹۰)

بے شک اللہ تعالی اعتدال اور احسان اور اہل قرابت (رشتہ داروں) کو دینے کا حکم فرماتے ہیں، کھلی برائی ، مطلق برائی اور ظلم (خواہ کسی مذہب کے ماننے والے؛ بلکہ کسی بھی مخلوق پر ہو) کرنے سے منع کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ تم کو اس لیے نصیحت فرماتے ہیں کہ تم نصیحت قبول کرو۔

یہ آیت قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمیٹ دیا گیا ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عدل، احسان اور اہل قرابت ( رشتہ داروں کو بخشش کا حکم دیا ہے اور فحش و بے حیائی اور ہر برے کام اور ظلم و تعدی سے منع فرمایا ہے۔

عدل کی حقیقت تمام مخلوق کے ساتھ خیر خواہی

عدل کی حقیقت یہ ہے کہ تمام مخلوقات کے ساتھ خیر خواہی و ہم دردی کا معاملہ کرے اور کسی چھوٹے بڑے معاملے میں کسی سے خیانت نہ کرے،سب لوگوں کے لیے اپنے نفس سے انصاف کا مطالبہ کرے، کسی انسان کو اس کے کسی قول وفعل سے ظاہرًا یا باطناً کوئی تکلیف نہ پہنچے۔(معارف القرآن)

لقد أرسلنا رسلنا بالبينات وأنزلنا معهم الكتاب والميزان ليقوم الناس بالقسط ۔(الحديد: ۲۵)

ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلے کھلے احکام دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور انصاف کرنے کے حکم کو نازل فرمایا ؛ تا کہ لوگ ( حقوق اللہ اور حقوق العباد میں خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ) اعتدال پر قائم رہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاءعلیہم السلام کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے اتارنے کا سارا نظام عدل وانصاف ہی کے لیے کھڑا کیا گیا ہے، رسولوں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل کرنا اسی مقصد کے لیے عمل میں آیا ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ کسی سچے نبی اور اس کے لائے ہوئے دین کی کوئی تعلیم عدل وانصاف کے خلاف ظلم وتعدی پر مبنی ہو۔

وإن حكمت فاحكم بينهم بالقسط إن الله يحب المقسطين. (المائدة:۴۲)

اگر آپ فیصلہ کر یں، تو ان میں عدل کے موافق فیصلہ کیجیے، بے شک اللہ تعالی عدل کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ عدل وانصاف کرنا اور بنا کسی بھید بھاؤ کے کرنا اللہ تعالی کی پسندیدہ چیز ہے، اللہ ایسے بندے کو محبوب رکھتا ہے جس کا برتاؤ اس کے بندوں کے ساتھ انسانیت کی بنیاد پر عدل وانصاف کے مطابق ہوتا ہے اور جو آدمی عدل و انصاف نہیں کرے گا وہ اللہ تعالی کا محبوب نہیں ہوگا۔

عدل وانصاف کے سلسلے میں حضرت محمد ﷺ کے کچھ ارشادات

عن عبد الله بن عمرو بن العاص ؓقال قال رسول اللہ ﷺ: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن وكلتا يديه يمين ـ الـذيـن يعدلون في حكمهم وأهليهم وما ولوا . (رواه مسلم،کتاب الامارۃ ،باب فضیلۃ الامام العادل:۱۸۲۷)

عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سلم نے ارشادفر مایا کہ عدل و انصاف کرنے والے بندے اللہ تعالی کے یہاں نور کے منبروں پر ہوں گے،اللہ کے داہنی جانب وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل وعیال اور متعلقین کے ساتھ معاملات میں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح آدمی کو دوسروں کے ساتھ عدل وانصاف کی تاکید ہے، اسی طرح اس پر اپنے اہل خانہ اور آل واولاد کے ساتھ عدل وانصاف کی تاکید ہے ظلم ہر جگہ ظلم ہے،خواہ بیوی اور اولاد ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔

انصاف پرورحاکم اللہ کا محبوب ترین بندہ

عن أبي سعيد قال قال رسول اللہ ﷺ: إن أحب النّاس إلى الله يوم القيامة و أقربهم منه مجلساً إمام عادل وإن أبغـض الـنّـاس إلـى الـلـه يـوم القيامة وأشدهم عذابـا إمـام جائر۔(جامع الترمذی،کتاب الاحکام، باب ماجاء في إمام عادل:۱۳۲۹)

حضرت ابوسعید ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفر مایا کہ عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنے والا حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے سب بندوں سے زیادہ محبوب اور پیارا ہوگا ،اس کو اللہ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا اور قیامت کے دن اللہ کا سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ عذاب میں مبتلا ظلم کرنے والااحاکم ہوگا۔

چوں کہ حاکم کے پاس قوت اور طاقت ہوتی ہے، اس لیے قدم قدم پر اس سے ظلم و تعدی کا عمل ظاہر ہوسکتا ہے، اللہ کے نبی کاارشاد اس کو آگاہ کرتا ہے کہ قیامت کے دن تجھ کو بھی بادشاہوں کے بادشاہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اس کی عدالت میں ہمیشہ فیصلہ مظلوم کے حق میں ہوگا، اس لیے یہاں ظلم سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو، تا کہ قیامت میں اللہ کے محبوب بن سکو۔

عن عياض بن حمار – قال: سمعت رسول الله يقول: أهـل الـجـنة ثلاثة: ذو سلطان مـفسـط متـصـدق مـوفـق ورجـل رحيم رقيق القلب لكل ذي قربي ومسلم وعفيف ومتعفف ذوعيال. (رواہ مسلم،کتاب الجنۃ،باب الصفات التی یعرف بھااہل الجنۃ فی الدنیا:۲۸۶۵)

حضرت عیاض بن حمار ہونے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنتی تین لوگ ہیں: ایک وہ بادشاہ جو عدل و انصاف اور صدقہ وخیرات کرنے والا ہے، دوسرا ایسا شخص جو ہر رشتہ دار اور اللہ کی اطاعت کرنے والے پر رحم کرنے والا نرم دل ہو، تیسرا صاحب اولا د جو پاک دامن اور پاک دامنی کی کوشش کرنے والا ہو۔

رسول اللہ نےانتقام لینے کی پیش کش کی

عن أبي سعيد الخدري قال: بينما رسول الله ا يقسم قسما أقبل رجل، فأكب عليه، فطعنه رسول الله بعرجون كان معه فجرح بوجهه ،فقال له رسول الله تـعـال، فـاستـقـد ،قـال: بـل عـفـوت يـارسـولالله!. (رواه ابوداؤد،کتاب الدیات،باب القود بالضربۃ: ۴۵۳۶)

حضرت ابوسعید خدری بھی فرماتے ہیں کہ نبی کریم سے لوگوں میں مال تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص ( مال لینے والا) حضور ﷺﷺ کے اوپر اوندھا ہوکر آ گرا، آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، آپ نے اس سے چونکا لگایا جس سے اس کے چہرے پر کچھ خراش آگئی،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے بدلہ لے لو ( گویا محض معافی نہیں چاہی؛بلکہ انتقام لینے کی پیش کش فرمادی) تو اس نے عرض کیا کہ رسول اللہ میں نے معاف کر دیا۔

اللہ کا نبی عام انسانوں کی طرح کا کردار نہیں رکھتے تھے جو دوسروں کو حکم تو دیتے ہیں ؛لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے؛ بلکہ اگر آپ سے نادانستہ کوئی ایسا کام ہو گیا جو دوسرے کے لیے تکلیف دہ هندہے ،تو بدلہ لینے کی پیش کش فرماتے ہیں ۔

عدل وانصاف سے متعلق حضرت عمربن خطاب کا معاملہ

عـن أبـي فـراس قال: خطبنا عمر بن الخطاب فقال: إنّـي لـم أبعث عمالي ليضربوا أبشاركم ،ولا ليأخذوا أمـوالـكـم ،فمن فعل به ذلك، فليرفعه إلى، أقصه منه، قال عمرو بن العاص : لو أن رجلا أدب بعض رعيته أتقصه منه؟، قال: إي والذي نفسي بيده أقصه، وقد رأيت رسول اللہ ﷺ أقص من نفسه . (رواہ ابوداؤد،کتاب الدیات،باب القودبالضربۃ : ۴۵۳۷)

حضرت ابوفراس کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک خطبے میں عام رعایا کو خطاب کرتے ہوۓ فرمایا : میں نے حکام اور عمال کو اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ تم پرسختی کر یں اور تمھارے مال چھین لیں ( بلکہ وہ صرف ضابطہ کے مطابق اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے والے اور زکوۃ وصول کرنے والے ہیں، )اگر کوئی ایسی زیادتی کرے، تو لوگوں کو چاہیے کہ وہ معاملہ میرے روبرو پیش کر یں؛ تا کہ میں ان سے بدلہ لوں۔

اس پر حضرت عمرو بن العاص ؓ نے عرض کیا کہ اگر کوئی حاکم تنبیہ و تادیب کے لیے رعیت کے کسی آدمی پر ہاتھ اٹھائے ،تو کیا آپ اس سے بھی قصاص لیں گے؟ فرمایا: بے شک میں اس سے بھی قصاص لوں گا، میں نے رسول اللہ ﷺﷺ کو دیکھا کہ اپنے نفس تک کے بارے میں دوسروں کو بدلہ لینے کی پیش کش فرمائی۔

یہی عدل وانصاف کا کامل نمونہ تھا جس سے اسلام چند ہی دنوں میں مشرق سے مغرب تک پھیل گیا اور دنیا کی قومیں صدیوں پرانے اپنے مذہبی رشتے توڑ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوئیں، اسلام نے ہی سارے انسانوں اور ساری قوموں میں قانونی اور اخلاقی یکسانی پیدا کر کے عالم گیر اخوت کی بنیاد ڈالی اور محض اس لیے کہ اس نے ہر چیز کا معیارقو می حد بندیوں کو قرار دینے کے بجاۓ قانون ِخداوندی اور اصول پسندی کو قرار دیا۔

مساجد :فضائل ،مسائل اورمتعلقہ امور

بشکریہ از دفتراصلاح معاشرہ کمیٹی دارالعلوم دیوبند

مفتی محمد جمال الدین صاحب قاسمی۔مدظلہ موجودہ دور میں امت مسلمہ میں جو تنزلی آئی ہے، اس کا مساجد پر بھی گہرا اثر پڑا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ پنج وقتہ اذان اور نماز جیسے اہم فرائض کی ادائیگی کے لیے قوم جن افراد کو اپنا مؤذن اور امام بناتی ہے، ان میں سے بعض اس کے اہل ہی نہیں ہوتے اور جو اہل ہوتے ہیں، ان کے ساتھ مصلیوں کا سلوک ناروا ہوتا ہے، ان کے مقام ومرتبے کا لحاظ کیے بغیر ان پر تنقید وتبصرہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے،اسی طرح متولیوں کی طبقے کی تو اور ہی حالتِ زار ہے، نااہل افراد کے کندھوں پر محض ان کی دنیوی جاہ ومنصب کے پیشِ نظر یہ نازک اور حساس ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے اور وہ اموال مساجد میں جیسے چاہیں تصرف کرتے رہتے ہیں۔
ضرورت تھی کہ مذکورہ خامیوں کو اجاگر کرکے امت کے سامنے صراطِ مستقیم واضح کی جائے اور انہیں راہِ اعتدال پر گامزن کیا جائے،مفتی عبد اللطیف قاسمی زید علمہ وفضلہ نےاس کی جانب توجہ کی ’’مساجد:فضائل، مسائل اور متعلقہ امور‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ماشاء اللہ مؤلف نے ہر بات با حوالہ اور مدلل بیان کی ہے،ان کا قلم جادئہ حق سے ہٹا نہیں بلکہ شائستہ انداز میں اختلافی موضوعات پر اچھا اور بہت اچھا لکھا ہے۔