علم کو دنیاطلبی کا ذریعہ نہ بنائیں

علم کو دنیاطلبی کا ذریعہ نہ بنائیں: استاذ وطالب علم کے لئے ضروری ہے کہ قرآن ِپاک کے ذریعہ دنیوی مقاصد مال ،عہدہ ومرتبہ ،معاصرین پرفوقیت و برتری،لوگوں میں شہرت ،لوگو ں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ارادہ بالکل مقصودنہ بنائے۔

استاذ اور قاری صاحب کے لئے ضروری ہے کہ طالب ِ علم سے کسی بھی قسم کے فائدہ کی امید سے اپنی تعلیم کو پاک وصاف رکھے ،چاہے وہ فائدہ خدمت ہو یاہدیہ کی صورت میں مال ، اگرچہ وہ تھوڑی ہی مقدارمیں ہوا۔

ارشاد ربانی ہے

من کا ن یرید حرث الآخرة ،نزدلہ فی حرثہ ،ومن کا ن یرید حرث الدنیا نؤتہ منھا ،ومالہ فی الآخرةمن نصیب (الشوریٰ:۲۰)

جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتاہے، ہم اس کے لئے کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں ، جو شخص دنیا کی کھیتی چاہتاہے ،ہم اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کے لئے کچھ حصہ نہیں ۔

ایک دوسری جگہ ارشادِخداوندی ہے

من کان یرید العاجلة عجلنا لہ فیھا مانشاءلمن نرید (الاسراء:۱۸)

جو شخص دنیا کا سامان چا ہتاہے ،ہم اس میں جتنا چاہیں جس کو چاہیں جلددےدیں۔

دنیاطلبی کے لئے علم حاصل کرے ،تو قیامت میں جنت کی خوشبو بھی سونگھ نہیں سکے گا

حضرت ابوہریرة ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ اللہ تعالیٰ، لایتعلمہ الا لیصیب بہ عرضا من اعراض الدنیا، لم یجد عرف الجنة یو م القیامة (رواہ ابوداؤد باسناد صحیح )

جو شخص ایسا علم حاصل کرے جس کے ذریعہ اللہ کی رضامندی حاصل کی جاسکتی ہے؛ لیکن وہ شخص اس علم کو اس لئے حاصل کرتاہے تاکہ اس کی وجہ سے دنیا کا کچھ حصہ اسے مل جائے ،تووہ شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی سونگھ نہیں سکے گا۔

لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے علم حاصل کرنا

حضرت انس اور حضرت حذیفہ ؓسے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے

من طلب العلم لیماری بہ السفھاءویکاثر بہ العلماءاویصرف بہ وجوہ الناس الیہ ،فلیتبوامقعدہ من النار(رواہ الترمذی من روایة کعب بن مالک وقال ادخلہ النا ر)

جو آدمی علم اس لئے حاصل کرے تاکہ بے وقوف لوگوں کے ساتھ بحث ومباحثہ کرے ،یا علماءپر فخر کرے یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے ،اس کو چاہئے کہ جہنم کواپنا ٹھکانہ بنالے ،ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل فرمائیں گے ۔

طلبہ کسی قابل عالم کے پاس چلے جائیں،تو ناراض نہیں ہونا چاہئے

استاذ ومدرس کوچاہئے کہ وہ اپنے پاس طلبہ کی بھیڑ جمع کرنے اور لوگوں کی آمد ورفت سے کلی طور پر اجتناب کرے ،اگر اپنے طلبہ کسی دوسرے قابلِ عالم کے پاس جاکر استفادہ کرتے ہیں، تو اس کو ہرگز برانہیں سمجھنا چاہئے ۔

یہ سب سے بڑی مصیبت ہے جس میں ناواقف اساتذہ مبتلاہوجاتے ہیں اور یہ بات ان کی بدنیتی اور بدباطنی کی کھلی دلیل ہے ؛ بلکہ یہ روشن دلیل ہے کہ اس استاذ ومدرس نے اپنی تعلیم سے اللہ کی رضا کو مقصود نہیں بنایا ہے۔

اللہ کی رضا مقصو دہوتی، تو اس کے طلبہ کا دوسرے قابل استاذسے استفادہ کرنے سے اس کو ہرگز ناگواری نہ ہوتی ؛بلکہ ایسی صورت میں استاذ کو چاہئے کہ اپنے دل کو سمجھائے کہ اس کو پڑھانے سے میرامقصود اللہ کی اطاعت اور اس کی رضامندی ہے، الحمد اللہ وہ مجھے مل گئی ،اب وہ طالب ِعلم دوسروں کے پاس جاکر مزید علم حاصل کرناچاہتاہے، لہذا اس پر کسی قسم کی ناراضگی نہیں ہونی چاہئے ۔

اے حاملینِ قرآن ! علم پر عمل کرو

امام دارمی رحمة اللہ علیہ نے اپنی مسند میں حضرت علی بن طالب ؓ کے مندرجہ ذیل ملفوظات نقل فرمائے ہیں

یا حملة القرآن اوقال یا حملة العلم !اعملوابہ ،فانما العالم من عمل بہ بماعلم ،ووافق علمہ عملہ ،وسیکون اقوام یحملون العلم لایجاوز تراقیھم یخالف عملھم علمھم وتخالف سریرتھم علانیتھم ،یجلسون حلقا، یباھی بعضھم بعضا حتی ان الرجل لیغضب علی جلیسہ ان یجلس الی غیرہ ویدعہ ،اؤلئک لا تصعد اعمالھم فی مجالسھم تلک الی اللہ تعالی۔

آپ نے فرمایا : اے حاملینِ قرآن،اے علماءکی جماعت ! علم پر عمل کرو،عالم صرف وہ ہے جو اپنے علم پر عمل کرے اورجس کا علم اس کے عمل کے مطابق ہو ،عنقریب کچھ لوگ آئیں گے جو اس علم کو حاصل کریں گے اور وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا ،ان کا عمل ان کے علم کے خلاف ہوگا ،ان کی خلوت ان کی جلوت کے خلاف ہوگی ،چھوٹے چھوٹے حلقے بنالیں گے اور ایک دوسرے پر فخر کریں گے ،یہاں تک یہ لوگ اپنے ساتھ بیٹھنے والوں (طلبہ )پر غصہ کریں گے، جب یہ طلبہ دوسروں کے پاس چلے جائیں ،تو ناراض ہوکر انہیں چھوڑدیں گے ،یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال اللہ تک نہیں پہنچتے ۔

استاذ اپنے کواچھے اخلاق سے سنوارے

استاذکو چاہئے کہ اپنے آپ کواچھے اخلاق، خوبیوں اور پسندیدہ عادات سے سنوارے جو قرآن وحدیث میں آئے ہیں اوراللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ،

یعنی دنیا سے بے رغبتی ،دنیاوی اسباب کی قلت ،دنیااور دنیا دار لوگوں سے بے نیازی ،سخاوت ،بخشش،مکارم اخلاق ،خندہ پیشانی سے لوگوں سے ملاقات ،حلم وبردباری،صبر، خسیس پیشوں سے اجتناب ،تقوی ،خشوع وخضوع اور وقار وجمال کا اختیار کرنا ،بے جا ہنسی سے پرہیز ،حد سے زیادہ مذاق کرنے سے بچنااور شرعی وظائف کا اہتمام ،پاکی وصفائی کا خیال ،ان بالوں کو صاف کرنا جن کے صاف کرنے کا شریعت میں حکم دیاگیاہے ،مونچھوں کو کا ٹنا ،ناخن کاٹنا ،داڑھی میں کنگھا کرنا، بدن اور کپڑوں کے میل کچیل کو صاف کرناچاہئے ،اور حسد ،ریا کاری ،خود پسندی ،دوسروں کی حقارت سے مکمل اجتباب کرناچاہئے ۔

نیز ان اذکار،تسبیحات اور ادعیہ کا اہتمام رکھے جو احادیث میں وارد ہوئے ہیں اور خلوت وجلوت میں ہر وقت اللہ تعالی ٰ کا دھیان رکھے ،اور تمام امور میں صرف اللہ جل شانہ پر بھروسہ واعتماد رکھے ۔ حاملینِ قرآن۳۲تا۳۵