معلم کے فرائض اور اس کی ذمہ داریاں:حضرت مولاناسلیم اللہ خاں رحمۃ اللہ علیہ،تلخیص وپیش کش ابوفیضان قاسمی
الحمدللہ و کفی وسلام علی عبادہ الذین الصطفی اما بعد :اعوذ با للہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الر حمن الر حیم لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولاًمن انفسھم یتلو علیھم آیا تہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمةوان کانوا من قبل لفی ضلال مبین(آل عمران:۱۶۴)
و قال رسول اللہ ﷺانما بعثت معلما۔(رواہ ابن ماجة عن عبداللہ بن عمرو باب ماجاءفی فضل الانبیاء۲۲۹)وقال: العلماءورثة الانبیاءوان الانبیاءلم یورثوا دیناراً و لا درھماً،انما ورثوا العلم فمن اخذبہ اخذبحظ وافر۔(رواہ الترمذی عن ابی الدرداء:باب ماجاءفی فضل الفقہ: ۲۶۸۲)
حضرات علماءکرام !مجھے مکلف کیا گیا ہے کہ میں آپ کے سامنے کچھ گزارشات پیش کروں ،میں بحیثیت معلم و مدرس اپنے تجربات کی روشنی میں بعض امور آپ کے سامنے پیش کروں گا،اللہ تبارک وتعالی مجھے حسن نیت کے ساتھ ان باتوں کو کہنے کی توفیق عطا فرمائیں،پھر اس کا فائدہ مجھے اور آپ کو عطا فرمائیں۔
تربیت میں شفقت کا پہلوغالب ہو
معلم کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں اپنے تجربے کی بنا پر آپ سے یہ عرض کروں گا کہ جو طلبہ مدارس کے اندر علم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں،ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔
میں نے دیکھاہے کہ طالب علم اپنے ماضی کے اعتبار سے خواہ کیسے بھی رہے ہوں؛لیکن مدرسے میں آنے کے بعد جب ان کو اچھا ماحول نصیب ہوتاہے اور اچھی تربیت ان کے لئے فراہم کی جاتی ہے ،تو ان کی زندگی ہمیشہ کے لئے قابل رشک نہیں؛بلکہ انتہائی قابل رشک بن جاتی ہے، میں نے اس کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا ہے، اس لئے مدارس میں جہاں تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے ،وہاں تربیت کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ۔
تربیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ڈنڈا لئے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے پھرتے رہیں ،ان کو مرعوب کرنے کے لئے خوف زدہ اور دہشت زدہ بنائیں؛ بلکہ شفقت غالب ہونی چاہئے ،ضرورت شدیدہ کے پیش نظر تادیب کی جائے ،تو کوئی مضائقہ نہیں ؛لیکن عمومی احوال اور اکثر اوقات میں تربیت کے لئے شفقت کے پہلو کو غالب رکھا جانا چاہئے ۔
مکمل تیاری کے ساتھ سبق میں حاضری
اچھے معلم اور مدرس کی پہچان یہ ہے کہ طلبہ ان کے سبق کو اتنی اہمیت دیں کہ وہ کسی قیمت پر اس سبق کا ناغہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور اس استاذ کے سبق کو یاد کرنے میں وہ مبالغہ کی حد تک کام لیں۔
اگرکوئی استاذ ایساہے کہ طالب علم اس کے سبق میں کبھی آتا ہے اور کبھی نہیں آتا، اس کے سبق کو یاد کرنے کا اہتمام نہیں کرتا، تو وہ استاذ ناکام ہے ،وہ کامیاب استاذ نہیں کہلائے گا اور کامیاب استاذ وہی کہلائے گا کہ جس کے سبق کے ساتھ طلبہ کوشغف ہو ، ان کے سبق کا ناغہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور اس کو یاد کرنے کا پورا اہتمام کریں ،یہ کب ہوگا؟یہ اس وقت ہوگاجب کہ استاذ سبق کی ایسی تیاری کر کے آئے کہ سبق اس کو زبانی یاد ہو ،مختلف عنوانات سے طلبہ کو سمجھانے پرقادر ہو۔
سبق کی تقطیع کرکے سمجھاناچاہئے
ایسا نہ ہو کہ کتاب کے تابع ہو کر بات کر رہا ہے ،کتاب ہٹادی جائے ،تو سبق کے بیان کرنے سے قاصرہو ،پورا سبق استاذ کو خود اپنے ذہن میں پورے طریقے سے محفوظ کر کے درس گاہ میں آناچاہئے اور سبق کی تقطیع کرکے سمجھاناچاہئے ،یہاں سے یہاں تک یہ مسئلہ بیان کیا گیاہے اور یہاں سے یہاں تک یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے ،اس کے بعد پھر جزءاول کا خلاصہ نہایت آسان عنوان سے بیان کرے،پھر دوسرے جزءکا خلاصہ نہایت آسان عنوان سے بیان کرے، پھر اس کے بعد کتاب پر منطبق کرے،اگر یہ طریقہ اختیار کیا جائے ،تو طالب علموں کو بہت سہولت اور آسانی ہو تی ہے۔
ہم نے اپنے بعض اساتذہ کو دیکھاہے کہ ان کو سبق پڑھا نے کے لئے کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ،بیضاوی شریف ،توضیح تلویح ،خیالی جیسی مشکل کتابیں سا منے رکھے بغیر پڑھاتے تھے اوروہ طالب علموں پر اپنی ایسی گرفت قائم کر لیتے تھے کہ طالب علموں کو نماز میں وسوسے آسکتے ہیں ،دعا کے وقت وسوسے آسکتے ہیں؛ لیکن ان کے سبق میں با لکل وسوسے نہیں آتے، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ طلبہ ان کے سبق کو خوب یاد کرتے تھے اور ان کے سبق میں حاضری کا بڑا اہتما م کرتے تھے ۔
کمزورطلبہ کوپیشِ نظر رکھ کر سبق پڑھائے
معلم کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ جو طلبہ جماعت میں کمزور ہیں، ان کوپیشِ نظر رکھ کر سبق پڑھائے، مختلف استعداد کے لڑکے ہوتے ہیں، بعض وہ ہوتے ہیں جو مطا لعہ میں خود ہی کتاب کو حل کر کے لاتے ہیں ،بعض وہ ہوتے ہیں جو استاذ کی بات سن کر کتاب کو بہت آسانی سے سمجھ جاتے ہیں،بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو ایک مرتبہ بیان کر نے سے سمجھ میں نہیں آتا ،ان کے لئے عنوان بدل کر آسان طریقہ سے سمجھا نے کی کوشش کی جائے ،کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے، اس سے بے نیاز ہو کر پڑھانا درست اورصحیح نہیں ۔
طلبہ کو سبق میں سوال کی اجازت ہونی چاہئے
بعض لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سبق میں اگر کسی طالب علم نے سوال کر لیا، تو اس پر نا راض ہو جا تے ہیں ،یہ طریقہ غلط ہے ، یا الزامی جواب دے کر اس کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،یہ بھی غلط ہے ؛بلکہ طالب علم کے سوال کا منشاسمجھنے کی کوشش کرنی چا ہئے ،اس کو حل کرنے کے لئے اور طالب علم کو مطمئن کرنے کے لیے اطمینان بخش جواب دینا چا ہئے۔
معلم کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ طالب علم اور استاذ کے درمیان فرق ِمراتب برقرار رہے، بعض استاذ طلبہ سے اتنے بے تکلف اور فری ہو جاتے ہیں کہ استاذ اور شاگرد کے مرتبہ کی رعایت باقی نہیں رہتی، یہ بھی با لکل غلط ہے ،بعض ایسے عبوسا قمطریرا بن کر رہتے ہیں کہ طالب علموں کو استاذ سے دریافت کرنے کی جرات اور ہمت نہیں ہوتی ،اس بات کا اہتمام ہوناچاہئے کہ فرق مراتب بھی بر قرار رہے اور طلبہ کو اپنا سوال پیش کرنے میں کسی طرح کی الجھن اور بہت تکلف بھی نہ ہو۔
فراغت کے بعد تعلیمی امورمیں مشغولی کی ذہن سازی
معلم کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ہمارے مدارس میں جو طلبہ پڑھنے کے لئے آتے ہیں، ان کی ذہن ساز ی اس نکتہ نظر سے بھی بے حد ضروری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کردیں ،میرے کہنے کا منشا یہ ہے کہ بہت سے لوگ تعلیم حاصل کرلیتے ہیں ؛لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد تجارت کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں ،یا صنعت کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں،یا زمین داری کو اختیا ر کر لیتے ہیں، دس پندرہ سالوں میں جو علم انھوں نے حاصل کیا ہے،اس سے نہ وہ خود مستفید ہوتے ہیں اور نہ خلقِ خدا کو مستفید کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بناتے ہیں ۔
میں نے بہت سے مولویوں کو دیکھا ہے کہ پڑھنے کے بعد عالم فاضل ہو گئے ، میری نظر میں کئی ایسے ہیں کہ جن کی استعداد بہت اعلی ،بہت عمدہ اور بہت بہترین تھی؛ لیکن عالم بننے کے بعد انہوں نے تعلیم و تدریس کا پیشہ اختیار نہیں کیا،کسی نے گاڑی چلا نی شروع کر دی، کسی نے فوج کے اندر نوکری شروع کر دی،کسی نے کا رخانہ لگا لیا، کار خانہ لگانے والے یا فوج کی نوکری کرنے والے کیا کچھ کم ہیں؟لاکھوں کروڑوں، سینکڑوں کی تعداد میں ہیں ۔
جوعلماء اولاد کودینی علم کے لئے مدارس میں داخل نہیں کرتے،وہ علمِ دین کی بد نامی کا سبب بنتے ہیں
نہایت کم مقدار میں لوگ علمِ دین حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں،یہ علم دین کی اشاعت کے لئے اگر اپنے آپ کو مختص نہ کریں، تو افسوس کی بات ہے،میں کہا کرتا ہوں کہ ان مولویوں نے علم حاصل کرنے کے بعداپنی اولاد کو دوسرے شعبہ سے متعلق کر دیا اور اپنی اولاد کے لئے علم دین کا نتخا ب نہیں کیا، وہ اپنے عمل سے یہ تاثر دینا چا ہتے ہیں کہ ہم تو بد قسمت تھے جو ہم نے علم ِدین حاصل کیا ،ہم اپنی اولاد کو بد قسمت نہیں بنا ئیں گے۔
کئی لوگ ایسے ہیں کہ خود تو عالم بنے؛ لیکن اپنی اولاد کو عالم نہیں بناتے ،علم کو رواج دینے کے لئے انھوں نے اپنے آپ کو مختص نہیں کیا اور اپنی اولاد کو بھی علم دین کے لئے مدارس میں داخل نہیں کیا ،ایسے لوگ۔ اللہ معاف فرمائے۔ ہماری نظر میں علمِ دین کی بد نامی کا سبب بنتے ہیں،اللہ تبارک و تعالی کے اس دین کی حفاظت کے لئے فراستِ نبوت کو نظر انداز کر کے دوسرے طریقوں کو خود اپنے لئے اختیار کرنا اور اپنی اولاد کے لئے اختیار کرنا یہ نا شکری کی بات ہے۔
بہر حال میری یہ دعاہے کہ اللہ تبا رک و تعالی آپ کو علم دین کی خدمت کے لئے قبول فرمائے ، آپ کی تمام توانا ئیا ں ، تمام صلاحیتیں علم دین ،علم شریعت کی اشاعت اور اس کو عام کرنے کے لئے قبول فر مائے اللہ تبارک و تعالی مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرمائیں اور آپ کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین (ملخض از رموز تدریس وتربیت : ۶۲)
درس قرآن ،درس حدیث،فقہ وفتاوی ،علمی وتحقیقی دینی مضامین اوردیگراصلاحی مضامین کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ کامطالعہ فرمائیں دوست واحباب کو شیئر بھی کریں ۔