منع حمل کی تدبیر یں اوران کے احکام

منع حمل کی تدبیر یں اوران کے احکام حضرت اقد س مفتی سعیداحمد صاحب قدس اللہ سرہسابق شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند

پہلا طریقہ: مرد یا عورت میں کوئی ایسا عمل جراحی (آپریشن) کرنا جس سے ہمیشہ کے لیے قوتِ تولیدختم ہو جائے ، عورت کا آپریشن کر کے بچہ دانی نکال دیتے ہیں اور مرد کی نس بندی کر دیتے ہیں ،فوطوں کے نیچے ایک رگ ہے جس سے جرثومے آتے ہیں ،اس کو کاٹ کرسی دیتے ہیں، جس سے شہوت بحال رہتی ہے اور جرثومے آنے بند ہوجاتے ہیں، اس لیے حمل قرار نہیں پاتا۔

دوسرا طریقہ: مرد یا عورت میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا کہ لمبے عرصے تک تولید رک جائے ؛مگر آئندہ تولید شروع ہوسکتی ہے، ایسا طریقہ مرد میں کوئی نہیں اور عورت میں کئی طریقے ہیں، مثلا: ایک آلہ ہے، انگریزی کےلفظ( T)شکل کاہوتاہے، اس کو بچہ دانی کے منہ پر لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ دانی کا منہ بند نہیں ہوتا اورحمل نہیں ٹہرتا، پھر جب بچہ کی خواہش ہوتی ہے ،تو اس آلے کو نکال دیتے ہیں، پس تولید شروع ہو جاتی ہے۔

تیسرا طریقہ: مردوزن کوئی ایسا عارضی طریقہ اختیار کریں جس کا اثر ایک مدت تک یا ایک رات تک رہے، ایساطریقہ مرد میں نرودھ (ربڑ کی کیپ) کا استعمال ہے اور عورت میں اندام ِنہانی میں کوئی گولی دی جاتی ہے جس سے جرثومے بھسم ہوجاتے ہیں اورحمل قرارنہیں پاتا۔

منع حمل کی تین نیتیں

پہلی نیت: روزی کا مسئلہ : آدمی سوچتا ہے: اگر بچے ہوتے رہے ،تو ان کا پیٹ کیسے بھروں گا،گویا وہ رزاق ہے۔

دوسری نیت: خوش عیشی: آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ اگر ایں قدرآں قدر بچےہو گئے ،تو رات بھر پریشان کریں گے اور سارا مزہ کرکرا کر دیں گے ، اس لیےیہ آفت رک جائے ،تو بہتر ہے۔

تیسری نیت: عورت یا پیدا ہونے والے بچے ،یا پیدا شدہ بچوں کی مصلحت: مثلا ًعورت نحیف ہے ،یا آپریشن سے بچہ لیا گیا ہے اور اب ولادت سے اس کی جان کو خطرہ ہے، یا یہ اندیشہ ہے کہ اگر حمل جلدی ٹہر جائے گا ،تو دودھ والے بچے کی صحت متاثر ہوگی ،یا اس کی صحیح تربیت نہیں ہو سکے گی، یا عورت کسی ایسے مرض میں مبتلا ہے کہ بظاہر اسباب متعدی ہونے کا اندیشہ ہے اور دین دارحکیم ڈاکٹر کی رائے میں حمل ٹہرنا مناسب نہیں وغیرہ۔

منع حمل احکام

الف:مردمیں عمل جراحی کر کے قوت ِتولیدختم کر لینے کی شرعا قطعا گنجائش نہیں، یہ خصی ہونا ہے جس کی سخت ممانعت آئی ہے، ارشاد پاکہے:

وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا ۔(النساء :۱۱۹)

شیطان نے کہا: میں ضرور لوگوں کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ کی بناوٹ کو بگاڑیں گے ۔

احادیث میں خصی ہونے کی ممانعت آئی ہے اور عورت میں بعض مخصوص حالات میں یعنی اضطرار کی صورت میں مفتیان کرام بچہ دانی نکالنے کی اجازت دیتے ہیں، پس خاص حالات میں مفتیان کرام کی طرف رجوع کیا جائے۔

منع حمل کا دوسرا طریقہ یعنی ٹی لگوانا بحکم ِعزل ہے، (عزل کے لغوی معنی ہیں:جدا کرنا، اور اصطلاحی معنی ہیں: جماع کے وقت فرج کے بجائے باہر منی نکالنا تاکہ حمل نہ ٹہرے۔)

اگرچہ یہ لمبے وقت کے لیے عزل ہے اور حمل کا تیسرا طریقہ تواصل عزل ہے پس جوحکم عزل کا ہے وہی حکم ان دونوں صورتوں کا ہے۔

ب:روزی کے ڈر سے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا ایمان کی کمزوری ہے، کیا مومن یہ سمجھتا ہے کہ وہ رزق رساں ہے! الله تعالی آنے والے بچے کو ایک منہ کھانے کے لیے دیتے ہیں تو دو ہاتھ کمانے کے لیے بھی دیتے ہیں۔

ج:خوش عیشی کے لیے منع حمل کا کوئی طریقہ اپنانا اسلام میں مقصدِ نکاح کے خلاف ہے، اسلام میں نکاح کا اہم مقصد عفت اور پاکدامنی ہے، اور دوسرا بنیادی مقصد افزائشِ نسل ہے، سورة البقره آیت ۱۸۷: میں ہے:

فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ

ترجمہ: پس اب ( رمضان کی راتوں میں) بیویوں سے ملو ملاؤ اور وہ(اولاد) چاہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مقدر کی ہے ۔

زیادہ بچہ جاننے والی اور زیادہ پیار کرنے والی عورتوں سے نکاح کرو

حدیث میں ہے: زیادہ بچہ جاننے والی اور زیادہ پیار کرنے والی عورتوں سے نکاح کرو ؛کیونکہ میں تمہاری زیادتی سے دوسری امتوں پر( قیامت کے دن) فخر کروں ۔ (مشکوة : ۳۰۹۱)

معلوم ہوا کہ اسلام میں نکاح کا مقصد افزائشِ نسل بھی ہے اور خوش عیشی کی نیت اس مقصد کے منافی ہے،؛البتہ عورت کی مصلحت سے یا اولاد کی مصلحت سے عزل کی گنجائش ہے اور اس کی دلیل غیل (زمانه حمل میں بچے کو پلایاجانے والاماں کا دودھ)کی ممانعت کاارادہ فرماناہے ،یہ ارادہ بچے کی مصلحت کے پیش نظرتھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ منع حمل کے رائج تین طریقے ہیں اور ان کے پیچھے کارگر تین نیتیں ہیں ، پس جب تین کوتین میں ضرب دیں گے ،تو نوقسمیں ہوں گی اور ان کے احکام مذکورہ تفصیل سے باآسانی نکالے جاسکیں گے،اس کے بعد جانا چاہئے کہ عزل کے سلسلے میں چار روایتیں ہیں ، دوحکم سے متعلق ہیں اور دو میں عزل کا مآل بیان کیا گیا ہے۔

پہلی حدیث: حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس زمانے میں قرآن نازل ہورہا تھا ہم عزل کرتے تھے مگرنہ وحی جلی نے ہمیں روکا نہ وحی خفی نے۔(رواہ الترمذی ،باب ماجاء فی کراھیۃ العزل: ۱۱۱۷)

یعنی اللہ تعالی نے اس کا جواز برقرار رکھا ،گھروں میں پرائیویٹ زندگی میں جو عمل ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آئے ، آپ عالم الغیب نہیں تھے؛ لیکن الله تعالیٰ عالم الغيب ہیں، اگر صحابہ کا یہ عمل ناجائز ہوتا ،تو قرآن میں کوئی آیت نازل ہوتی یا کم از کم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبر دی جاتی اور آپ لوگوں کومنع کرتے ؛مگر کوئی ممانعت نازل نہیں ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے اس کے جواز کو برقرار رکھا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نےعزل کوناپسندفرمایا

دوسری حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل کا تذکرہ آیا، آپ نے فرمایا: لم يفعل ذلك أ حدکم؟ یعنی تم میں سے کوئی یہ کام کیوں کرتا ہے؟ اس جملہ میں ناپسندیدگی کا اظہار ہے؛ مگر آپ نے لایفعل( کوئی ایسانہ کرے ) نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا:” جوبھی نفس پیدا ہونے والا ہے ،وہ ہونے والا ہے ،یعنی جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے ،توعزل کے باوجودحمل قرار پائے گا مثلاً: اگر بچہ پیدا ہونا مقدر ہے، تو جب آدمی انزال کے قریب عضو باہر نکالے گا،تو چند قطرےاندر ٹپک جائیں گے اور حمل ٹھہر جائے گا،یا دل میں داعیہ پیدا ہو گا کہ آج تو اندر ہی فارغ ہوجاتے ہیں ،اس طرح حمل قرارپاجائے گا ۔

عزل کےطريقے ، نیتیں اوراحکام

الف:قوت تولید ختم کرلینا مسئلہ رزق کی وجہ سے ،حرام اور ایمان کی کمزوری ہے ۔ب:قوت تولیدختم کر لینا خوش عیش کے مقصد سے ،حرام اور مقصد نکاح کی خلاف ورزی ہے۔ج:قوتِ تولیدختم کر لینا عورت یا بچے کی مصلحت سے ،حرام ؛مگر بحالت اضطرارعورت میں گنجائش ہے۔د:لمبی مدت کے لیے تولید روک دینا،مسئلہ رزق کی وجہ سے ،حرام اور ایمان کی کمزوری ہے۔

ہ: لمبی مدت کے لیے تولید روک دینا خوشی کے مقصدسے ،مکروہ تحریمی اور مقصد نکاح کی خلاف ورزی ہے۔و:لمبی مدت کے لیے تولید روک دینا عورت یا بچے کی مصلحت سے ،برا؛مگر مجبوری میں گنجائش ہے۔ز: وقتی طور پرحمل روکنا مسئلہ رزق کی وجہ سے، مکروہ اور ایمان کی کمزوری ہے۔ح: وقتی طور پرحمل روکنا خوشی عیشی کے مقصد سے، برا اور مقصد نکاح کی خلاف ورزی ہے۔ط:وقتی طور پرحمل روکنا عورت یا بچے کی مصلحت سے،اس کی گنجائش ہے۔ (تحفۃ الالمعی ،کتاب النکاح،باب ماجاء فی العزل،المجلدالثالث: ۵۶۹)