نماز بیمارلوگوں کی

نماز بیمارلوگوں کی:اسلام میں سب سے اہم عبادت نمازہے جوبندگی او ر خدا ئے ذو الجلال سے مناجات کا بہترین ذریعہ ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے شبِ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے آپ کی امت کو بطو ر تحفہ عطافرمایا ؛تاکہ ایمان والا اللہ جل جلالہ، و عم نوالہ کے حضور میں اپنی محبت ونیاز مندی کا اظہار کر کے اس کا قرب ، اس کی رحمت حاصل کرنے کی کو شش کرے اور اس کی یاد سے اپنے قلب و روح کے لیے نور و سرور کا سر ماےہ حاصل کرے۔

اسی لیے ہر نبی کی تعلیمات اورہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناز ل کی ہوئی آخری شریعت ”شریعت محمدیہ “میں بھی نماز کی فضیلت ،اوقات کی تعیین ،تحدید ، شرائط، ارکان، واجبات، سنن و آداب، مفسدات اور مکروہات ،غرض یہ کہ نماز کی جملہ اقسام ،اس کی عزیمتوں اورخصتوں کو جس قدر تفصیل و اہتمام سے بیا کیا گیا ہے، اس کی نظیردیگر عبادات میں نہیں ہے۔

نماز دین کا ستون

انہی خصوصیات و امتیازات کی وجہ سے نماز کو دین کا ستون ،ایما ن و کفر کے درمیان خطِ امتیاز ،عظیم ترین شعار ِاسلام اور امتیازی نشان قراردیا گیاہے ،نماز دین کے احکام میں سب سے پہلے فرض ہو نے والی اور قیامت میں سب سے پہلے حساب لی جانے والی عبادت ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس عبادت کو ہر عاقل، بالغ ،مسلمان مرد و عورت، امیروغریر، مسافرومقیم ،صحیح اور مریض پر بلا کسی امتیاز فرض فرمایا ہے ۔بیمار

نمازکی پابندی اوراس کا اہتمام کس قدر لازم و ضروری ہے، ہم خاتم النبیین وسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِمبارکہ کے عمل سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی آخر ی لمحات تک معاف نہیں کی گئی ۔

جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہو ئے ،بیمار ی کی شدت سے بار با ر غشی طاری ہو تی تھی اور کئی کئی دفعہ وضو کا پانی طلب فرماتے ،آخر ایک مرتبہ وضو فر ماکر حضرت علیؓ ،حضرت عباس ؓ اور فضل بن عباسؓ وغیرہ حضرات صحابہ کے سہارے مسجد تشریف لے جاکر جماعت کی نماز میں شرکت فرمائی۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں آپ کو دیکھ رہی تھی کہ(مرض الوفات میں) آپ کے پاؤ ں مبارک زمین پر اچھی طرح سے جمتے بھی نہیں تھے ،اسی حالت میں باجماعت نماز کے لیے تشریف لے گئے۔(رواہ البخاری عن عائشة فی حدیث طویل، باب انماجعل الامام لیؤتم بہ : ۶۸۷ بیمار)

شریعت محمدیہ کی امتیازی شان ۔ الحنفیۃ السمحة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہایت آسان شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ،شریعت محمددیہ کے ہر حکم میں سہولتیں و آسانیاں خوب نمایا ں ہیں۔

اللہ جل جلالہ نے توریت و انجیل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔(الاعراف: ۱۵۷)

وہ لوگ جوپیروی کرتے ہیں اس رسولِ امی کی ،جن (کی صفات )کو تورات وانجیل میں لکھاہواپاتے ہیں،وہ نیک کاموں کا حکم کرتے ہیں،برے کاموں سے منع کرتے ہیں،پاک چیزوں کی حلت اورناپاک چیزوں کی حرمت کو بیان کرتے ہیں ، گذشتہ امتوں پرجواحکام شاقہ تھے، ان کے منسوخ ہونے کو بیان فرماکر آسان وسہل احکام لے آتے ہیں ،پس جولوگ اس نبی پرایمان لے آئے ،ان کی رفاقت ونصرت کی اوراس نورکی پیروی کی جو آپ کے ساتھ اترا ہے ،وہی لوگ کامیاب ہیں ۔

گذشتہ امتوں پر بعض احکام نہایت مشکل تھے، مثلًا توبہ کے لیے قتل کیا جانا ،جن اعضاءسے گناہ کا ارتکاب ہواہے، ان کاکاٹا جانا ،ہفتہ کے دن دنیوی کام وکاج کا ممنوع ہونا ،ناپاک کپڑے کو قینچی سے کاٹنا ،مالِ غنیمت کاحرام ہونا ،گناہوں کی وجہ سے بعض پاکیز ہ چیزوں کا حرام قرار دیاجانا،وغیرہ ،اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام ادیان میں آسان ترین دین دینِ حنیف کے ساتھ مبعوث فرمایا۔

اللہ جل جلالہ نے امت ِمحمدیہ کومندرجہ ذیل دعاءکی تلقین فرمائی

اللہ جل جلالہ نے امت ِمحمدیہ کومندرجہ ذیل دعاءکی تلقین فرمائی ہے ۔

رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ۔(البقرة:۲۸۶ )

اے ہمارے رب !ہم پر کوئی سخت حکم نازل نہ فرما جیساکہ تو نے ہم سے پہلی امتوں پر نازل فرما؛تاکہ بندے مشکل وناقابل برداشت احکام کے نازل نہ ہونے پراللہ کا شکراداکریں۔

اللہ تعالیٰ روزے کی سہولیات کوبیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں

يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۔( البقرة:۱۸۵)

اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ سہولت کا معاملہ فرمانا چاہتے ہیں ،عسر وتنگی کا معاملہ کرنا نہیں چاہتے ۔

اللہ تعالیٰ تیمم کی سہولت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں

مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ۔(المائدة:۶ )

اللہ تعالیٰ نے تم پر دین کے سلسلے میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے ۔

شریعتِ اسلامیہ نے بندوں کواپنے اوپر اس طرح کے مشکل احکام لاز م کرلینے سے بھی منع فرمایا ہے ،جائز لذتوں اورمباح چیزوں کو اعتقاداًاورعملًا حرام قرار دینے کو بھی نا جائزوحرام قرار دیاہے ۔

حضرت عثمان ؓبن مظعون ،حضرت علیؓ بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہؓ نے عہد کیا کہ رات بھر قیام کریں گے ،دن میں روزہ رکھیں گے اور بیویوں کے قریب نہیں جائیں گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا

انما بعثت بالحنفیة السمحة۔(رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامة ،رقم الحدیث: ۷۷۱۵)

میں آسان ترین دین دے کر بھیجا گیاہوں، یہودیت (جس میں سخت احکام تھے )اورھبانیت (جس کے ماننے والے خود اپنی طرف سے جائز چیزوں کو حرام کرلیاکرتے تھے )دے کرنہیں بھیجاگیاہوں اورفرمایا:رات میں قیام کرو ، آرام بھی کرو ،دن میں روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو۔

دین نہایت سہل وآسان

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ان الدین یسر۔(رواہ البخاری عن ابی ھریرة ،کتاب الایمان ،باب الدین یسر:۳۹ )

دین (اوردین کے احکام )نہایت سہل وآسان ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا:ای الادیان احب الی اللّٰہ؟کونسا دین آسان ہے ؟
قال الحنفیة السمخة ۔(رواہ احمدعن ابن عباس رقم الحدیث :۲۱۰۷)
آپ نے فرمایا :دین حنیف جوسہل وآسان ہے ۔

نمازمیں شریعت کی سہولتیں

فقہائے کرام نے فقہ وفتاوی کی کتابو ں میں عزیمت ،رخصت اورکتاب الاکراہ کے ابواب قائم فرماکر شرعی ترخیصات وسہولتوں کو مکمل تفصیلات کے ساتھ بیان فرمایا ہے ،ہمیں ان کا احاطہ کرنا مقصود نہیں ہے ؛بلکہ ایک نمونہ پیش کرنا ہے، جس طرح دیگراحکامات میں سہولتیں ہیں ،اسی طرح نماز میں بھی سہولتیں ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ہر عاقل بالغ مسلمان، مرد و عورت، امیرو غریب، مسافر و مقیم اور صحیح و مریض ہر ایک پر نمازکو فرض فرمایا ہے ، معذور افراد کے لیے اس میں بھی سہولتیں رکھی ہیں ،مثلًا

الف:شرعی مسافر کے لیے چار رکعت والی نمازوں میں قصر( دو رکعت پڑھنا)

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ۔(النساء:۱۰۱)

جب تم زمین میں سفرکرو ،توکوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ تم نماز میں قصرکرو ۔

ب: صلوة الخوف کی مشروعیت ۔

وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ الخ۔(النساء:۱۰۲)

جب آپ ان میں موجود ہیں اورنماز قائم کرنا چاہیں ،تو ایک جماعت کھڑی ہوجائے الخ

پانی سے نقصان کااندیشہ ہو ،تو تیمم کی سہولت

ج:نماز پڑھنے کے لیے پانی نہ ہو ،یا پانی کے استعمال سے نقصان کااندیشہ ہو ،تو تیمم کی اجازت وسہولت۔

وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ ۔(المائدة :۶)

جب تم بیمارہوں،یا سفرمیں ہوں،یاتم میں سے کوئی استنجاءکرے ،یا صحبت کرے،(جس کووجہ سے تم پر وضو،یاغسل فرض ہوجائے )اور پانی نہ پاؤ،توپاک مٹی کا قصدکرو۔

د:عورتوں کے لیے ایام ِحیض ونفاس کی نمازوں کا معاف کیاجانا۔

كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ يَأْمُرُنَا بِهِ أَوْ قَالَتْ: فَلاَ نَفْعَلُهُ۔(رواہ البخاری ،کتاب الطھارة، باب لاتقضی الحائض الصلوة : ۳۲۱و الترمذی باب ماجاءفی الحائض انھا لاتقضی الصلوة۳۴۱رقم:۱۳۰)

حضرت عائشة ؓفرماتی ہیں :ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایامِ حیض کی نمازوں کی قضاءنہیں کرتی تھیں۔

ایامِ حیض کی نمازوں کی قضاکا واجب نہ ہونا پوری امت کے نزدیک متفق علیہ مسئلہ ہے ۔

بیمار نمازی کے لیے سہولت کابیا ن

ففَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ ۔(النساء:۱۰۳)

نماز پڑھو کھڑے ہوکر، یا بیٹھ کر ،یا پہلو کے بل ۔

علامہ نسفیؒ نے ”مدارک التنزیل“ میں ،ابن الجوزیؒ نے” زاد المسیر“ میں ،خازن نے” لباب التاویل“ میں اور ملا جیون نے” تفسیرات احمدیہ“ میں اس آیتِ شریفہ سے صلوة المریض پر استدلال کیاہے ،ابن الجوزی نے اس تفسیر کو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا قول قرار دیاہے ۔

خاز ن لکھتے ہیں

قیل المراد بالذکر الصلوة،یعنی فصلوالِلّٰہ قیاما ،یعنی فی حالة الصحة ،وقعودا فی حالة المرض، وعلی جنوبکم یعنی فی حال الزمانة، والجراح۔ (لباب التاویل فی معانی التنزیل:النساء:۱۰۳ )

ذکرسے مرادنماز ہے ،یعنی اللہ کے لیے کھڑے ہوکر نماز پڑھو صحت کی حالت میں ،بیٹھ کر نماز پڑھو بیماری کی حالت میں اور پہلو کے بل نماز پڑھو اپاہج اورزخمی ہونے کی حالت میں ۔

فإذا أردتم أداء الصلاة فصلوا قياماً إن قدرتم عليه وقعوداً إن عجزتم عن القيام ومضطجعين إن عجزتم عن القعود ۔(مدارک التنزیل:النساء:۱۰۳ )

جب تم نمازکا ارادہ کرو ،تواگرکھڑے ہوسکتے ہو،تو کھڑے ہوکر نماز پڑھو ،اگرکھڑے ہونے سے عاجز ہوں،تو بیٹھ کر نماز پڑھو ،اگربیٹھنے سے عاجز ہوں ،تو لیٹ کر نماز پڑھو۔

احادیث میں بیماروں کی نماز کی سہولتوںکا بیان

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاَةِ، فَقَالَ: «صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ۔۔(رواہ البخاری ،اذا لم یطق قاعدا ۱۵۰/۱رقم:۱۱۱۷)قال الزیلعی : اخرجہ الجماعة الامسلما ،وزاد النسائی ”فان لم تستطع، فمستلقیا، لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا” (نصب الرایة باب صلوة المریض۱۷۷/۲)

حضرت عمران ؓبن حصین فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں سوال کیا ،(بیمارہونے کی حالت میں کس طرح نماز پڑھوں )آپ نے فرمایا : کھڑے ہوکر نمازپڑھو،اگر کھڑے ہو نے کی طاقت نہ ہو، تو بیٹھ کر پڑھو ،اگر بیٹھنے کی طاقت نہ ہو ،تو پہلو کے بل نماز پڑہو ،امام نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اللہ تعالی ٰکسی انسان کو اس کی طاقت سے زیاد ہ کا مکلف وپابند نہیں بناتے ۔

اگرکھڑانہیں ہوسکتاہے ،تو بیٹھ کر نماز پڑھے گا

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يُصَلِّي الْمَرِيضُ قَائِمًا إِنِ اسْتَطَاعَ , فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ صَلَّى قَاعِدًا , فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَسْجُدَ أَوْمَأَ وَجَعَلَ سُجُودَهُ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِهِ , فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبِهِ الْأَيْمَنِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ , فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى جَنْبِهِ الْأَيْمَنِ صَلَّى مُسْتَلْقِيًا وَرِجْلَاهُ مِمَّا يَلِي الْقِبْلَةَ۔(رواہ الدارقطنی باب صلوة المریض من رعف فی صلوتہ۳۱/۲رقم:۱۷۰۶)

رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا:مریض کھڑے ہوکر نماز پڑھے گا ،اگروہ کھڑے ہوکر پڑھ سکتاہے ،اگرکھڑانہیں ہوسکتاہے ،تو بیٹھ کر نماز پڑھے گا ،اگر بیٹھ کر رکوع وسجدے کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتاہے ، توبیٹھ کراشارے سے نماز پڑھے اور سجدے کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ پست کرے ،اگر بیٹھ کراشارے سے نماز پڑھ نہیں سکتاہے ،تو داہنے پہلو کے بل اشارے سے نماز پڑھے ،اگر داہنے پہلو کے بل اشارے سے بھی نماز پڑھ نہیں سکتاہے،تو لیٹ کراشارے سے نماز پڑھے اور قبلہ کی طرف اپنے پیر لمبے کرلے ؛تاکہ چہرہ قبلہ رو ہوجائے۔

حضرت ابن عباس ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں

بیٹھ کرنماز پڑھنے میں بھی مشقت ہو،تو سر کے اشارے سے نماز

یصلی المریض قائما، فان نالتہ مشقة ،صلی جالسا،فان نالتہ مشقة، صلی بالایماءیؤمی بالایماءبراسہ ،فان نالتہ مشقة ،سبح ۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط :۴۱۴۴وقال لم یروہ عن ابن جریج الاحلس بن محمد الضبعی ۔(اعلاءالسنن ۱۹۵/۷ورواہ فی مجمع الزوائد وقال ولم اجد من ترجمة ،وبقیة رجالہ ثقات،صلوة المریض ۳۲۱/۱)

بیمار آدمی کھڑے ہوکر نمازپڑھے (اگر کھڑے ہو نے کی ا ستطاعت ہو ) اگراس کوکھڑے ہونے میں مشقت ہو ،تو بیٹھ کر پڑھے ،(اگر بیٹھنے کی طاقت ہو) اگربیٹھنے میں بھی مشقت ہو،تو سر کے اشارے سے نماز پرھے ، اگراس میں بھی مشقت ہو،تو ذکر کرے(اورنماز موقوف کردے )

ان ہی آیات شریفہ احادیث مبارکہ سے حضرات فقہائے کرام نے صلوة المریض کے احکام مستنبط فرمائے ہیں ۔

مندرجہ ذیل عنوا ن کی قسط ثانی ’’بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت کن لوگوں کے لیے ہے ‘‘اس کا مطالعہ کرنے کے لیے اسی عنوان پر کلک کریں ۔