طلبہ کی مصالح کی رعایت کرے

استاذ کوچاہئے کہ وہ طلبہ کی تعلیم کا بے حد شوقین ہو ،اپنی غیر ضروری دنیوی تقاضوں پر تعلیم کو فوقیت وترجیح دینے والا ہو،جب پڑھانے کے لیے بیٹھے ،تو تمام چیزوں سے ذہن کو خالی کرکے بیٹھے،طلبہ کو اسباق سمجھائے ،ہرطالبِ علم کو اس کا حق دے ،جو سبق طالبِ علم زیادہ یادنہیں کرسکتا،اس کو زیادہ سبق نہ دے ،جو زیادہ یادکرسکتاہے، اس کے لئے سبق کم نہ کرے ،آموختہ کو دہرانے کی عادت ڈالے،جس طالب ِعلم میں شرافت ونجابت کے اثرات دیکھے، اس پر خصوصی توجہ ومہربانی کرے بشرطیکہ اس طالبِ علم پر خودپسندی یا کسی اور فتنہ میں پڑنے کا خوف نہ ہو ۔

جو طالبِ علم محنت میں کوتاہی کرے اور اس کے متنفر ہونے کا اندیشہ نہ ہو،اس پر سختی کرے ،اگر کوئی طالبِ علم کسی فن میں ماہر ہوجائے ،تو اس پرحسدہرگزنہ کرے ،جو نعمتیں اس سے من جانب اللہ حاصل ہوگئیں، ان کو زیادہ سمجھ نہ بیٹھے ،اس لئے کہ اجنبی لوگوں کے لئے حسد کرنا سخت گناہ ہے، تو پھر اس طالبِ علم پر کیسے حسد کیاجاسکتاہے؟ جو اسی کا طالبِ علم ہے اور اپنی اولاد کے حکم میں ہے ،آخرت میں طالبِ علم کا اجر وثواب استاذ ہی کی طرف لوٹتاہے اور دنیا میں نیک نامی استاذ ہی کو ملتی ہے۔

علماءنے فرمایا: کسی بھی طالبِ علم کو اس کی بدنیتی کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ کرے ،سفیان ثوری وغیرہ حضراتؒ نے فرمایا: طالب علم کا علم کو طلب کرنا ہی نیت ہے ،بعض علماءنے فرمایا : ہم نے غیر اللہ کے لئے علم حاصل کیا ،تواللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے ہی لئے منظور فرمالیا ،مطلب یہ ہے کہ فی الحال علم کا حاصل کرنا انجام کے اعتبارسے ا للہ کے لئے ہوجائے گا ۔ان شاءاللہ

درس میں حاضری کے آداب

ضروری آداب میں یہ بھی کہ طلبہ کو پڑھاتے وقت اپنے ہاتھوں کو کھیل میں لگانے اور بلاضرورت ادھر ادھر دیکھنے سے اپنے آپ کو بچائے ،درسگاہ میں باوضوء،قبلہ رخ ،پر وقار اورپاک صاف لباس پہن کربیٹھے ،جب درسگاہ حاضرہو، تو درسگاہ میں بیٹھنے سے پہلے دورکعت نمازپڑھے اور دوزانو بیٹھے، امام ابوداؤد ؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کیاہے کہ آپ ؓ تلامذہ کو مسجد میں دوزانو بیٹھ کر پڑھاتے تھے ۔

علم کی توہین نہ کرے

ایک نہایت ضروری بات یہ ہے کہ علم کوذلیل نہ کرے ،لہذا کسی ایسی جگہ نہ جائے ،جہاں طالبِ علم کو اسی کی جگہ پڑھاناپڑے، اگرچہ وہ خلیفہ یا اس سے اوپر درجہ کا کوئی دوسرا شخص ہی کیوں نہ ہو ؛بلکہ ان چیزوں سے علم کی حفاظت کرے ،جیساکہ ہمارے اسلاف نے حفاظت کی تھی،اس سلسلہ میں اسلاف واکابر کے واقعات مشہورہیں ۔(حاملین قرآن ترجمہ التبیان فی آداب حملۃ القرآن للنوویؒ :۴۰ طلبہ کی مصالح کی رعایت )