اذان کی مشروعیت حکم نبوی اور قرآن کریم سے

اذان کی مشروعیت : اذان کا لغوی معنی اعلام ہے، (اطلاع دینا ،اعلان کرنا)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،واذان من اللہ ،ورسولہ (اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اطلاع واعلان ہے ،اذان کاشرعی معنی الاعلام بوقت الصلوةبالفاظ مخصوصة،مخصوص الفاظ کے ذریعہ دخول وقت صلوةاوراقامت صلوة کی اطلاع دینا ہے ،اللہ کے نبی ﷺاور حضرات صحابہ ؓنے دیکھاکہ نماز باجماعت شرعًا مؤکد ومطلوب ہے ،اس سے سلسلہ میں مشورہ ہواکہ اس کا طریقہءکار کیا اختیار کیاجائے ؟

اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ ؓکو خواب کے ذریعہ اذان کی تلقین کرائی، رسول اللہ ﷺنے اس خواب کی تائید فرمائی اوراس کو مشروع فرمایا، اذان واقامت کی مشروعیت صرف خواب سے نہیں ہوئی؟کیونکہ حضرات انبیاءعلیھم السلام کے علاوہ کسی کا خواب حجت نہیں ہوتا؛لکہ اذان واقامت کی مشروعیت ابتداء تائید نبوی سے ہوئی ہے،پھر قرآن کریم نے اس کی توثیق کی ،سورة الجمعة کی آیت یاَ اَیُّھَا الذَّینَ آمَنُو´ا اِذَا نُو´دِیَ لِلصَّلوةِ مِن´ یَو´ مِ الجُمَعَةِ ،فَاسَعَو´ا اِلی ذِکرِ اللّہِ کے ذریعہ(اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ،تواللہ کے ذکر کی طرف دوڑو )اس لئے کہ قرآن کریم اہم دینی امور اور شعائر اسلام کی طرف صراحة ًیا اشارة ًیادلا لةً ضرور اشارہ کرتاہے ۔(معارف السنن۱۶۹/۱)

اذان کی مشروعیت اور تائید نبوی

علامہ سہیلی ؒ فرماتے ہیں :اذان کی مشروعیت بظاہر ایک صحابی کے خواب کے ذریعہ ہوئی اور براہ راست وحی متلو یا وحی غیر متلو سے نہیں ہوئی ؛بلکہ تائید نبوی سے ہوئی ہے ،اس کی حکمت یہ ہے کہ اذان آں حضرت ﷺ کے نبوت ورسالت کے اعلان پر مشتمل ہے اور آ پ کی نبوت ورسالت کا ڈنکا بجانا اورآپ کے دین کی طرف لوگوں کو دوسروں کی زبانی دعوت دینا ،آپ کی عظمت وشان کو بلند کرنا ہے اور یہ کا م دوسرں کی زبانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زیادہ قابل فخر ہے۔ ورفعنالک ذکرک۔(عمدة القاری ۱۵۰/۴ باب بدا الاذان)

نیز علامہ سہیلی ؒ فرماتے ہیں :شب معراج کے موقعہ پر آسمانوں میں اللہ کے نبی ﷺ کو اذان سنائی گئی،جب اذان کی ضرورت محسوس ہوئی اور مشروعیت میں تاخیر ہوئی ،تو اللہ کے نبی ﷺ نے حضرات صحابہؓ سے مشورہ فرمایا، پھرحضرت عبد اللہؓ کو بذریعہ خواب کلمات ا ذان کی تلقین کرائی گئی، جب حضرت عبد اللہ ؓ نے اپنا خواب بیان کیا ،تو اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے قول: انہ لرویا حق ۔ان شاءاللّٰہ ۔ کے ذریعہ تائید فرمائی ۔(عمدة القاری۱۵۰/۴ باب بدا الاذان)

تاہم یہ روایت حافظ ابن کثیر ؒاور علامہ ابن ھمام حنفی ؒ کے تحقیق کے مطابق منکر ہے ؛کیونکہ صحیح روایات کی روشنی میں اذان کاآغازمدینہ میں ہواہے نہ کہ مکہ میں ،نیز مذکورہ روایت کا ایک راوی زیاد بن جارود پر جھوٹ کا الزام ہے ۔ (البدایة والنھایة ۲۵۸/۳ فصل فی الاذان ،فتح القدیر ،باب الاذان۲۴۵/۱)

اذان کی جامعیت ومعنویت

اذان واقامت اگرچہ یہ دونوں چیزیں بظاہر نماز باجماعت ،دخول وقت کا اعلان اور نماز کی دعوت کاذریعہ ہیں ؛لیکن اذان کی مشروعیت کے وقت حکمت خداوندی کا تقاضایہ ہواکہ اذان صرف نمازباجماعت کا اعلان واطلاع کا ذریعہ نہ ہو؛بلکہ وہ دین کا ایک شعار ہو،مشرق ومغرب، شمال وجنوب ،بحروبراور زمینی وآسمانی فضاﺅں میں جب اذان کی صدا بلند کی جائے ،تو دین کی شان بلند ہو،

جب لوگ اذان کی نداءسن کر مسجدوں کی طرف دوڑے ہوئے آئیں ،تو وہ دین کی تابعداری کی علامت وپہچان ہو،اسی وجہ سے اذان اللہ کی عظمت وکبریائی سے شروع کی گئی ہے، اس کے کلمات کی ترکیب وترتیب عجیب وغریب ہے ،اللہ تعالیٰ نے ایسے چند مختصر کلمات کا الہام فرمایاجو دین کی روح؛ بلکہ دین کے بنیادی اصول(توحید ،رسالت اور آخرت)کی تعلیم ودعوت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ،دین کے سلسلہ میں سب سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا مسئلہ ہے ۔

اذان اللہ کی عظمت اورکبریائی پرمشتمل

اس اعلان کے لئے اللّٰٰہُ اَکبَر´،اَللّٰٰہُ اَکبَرہے ،جو خدا وند ذوالجلال کے وجود ،عظمت اور کبریائی پرمشتمل ہے ۔ اشھَدُ ان لَّاالَہَ اِلَّا اللّٰہ ،اشھَدُ اَن لَا اِلہَ اِلَّا اللّٰہ ۔ اس میں توحیدکا اثبات اور شرک کی نفی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا مسئلہ حل ہوتا ہے ۔

اَشھَدُ انَّ مُحَمَّدًا رَسُو´لُ اللّٰہ ،اَشھَدُ انَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہ جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ہمارا معبو دصرف اللہ ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی عبادت کا صحیح طریقہ ہمیں صرف نبی بر حق حضرت جناب محمدرسول اللہﷺ کے ذریعہ ہی معلوم ہوسکتاہے ،تورسول اللہ ﷺ کی رسالت کے اثبات کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔

حَیَّ عَلی الصَّلوة´،حَیَّ عَلی الصَّلوة توحید ورسالت کے اعلان کے بعد لوگوں کو بندگی وعبادت اور اللہ سے تعلق قائم کرنے کا سب سے افضل و اعلی ذریعہ نماز کی دعوت دی گئی ۔ جو ایمان کے بعد ہر مسلمان عاقل ،بالغ ،مرد وعورت ،مقیم ومسافر اورفقیر وغریب بلا کسی امتیازکے ہر ایک پر فرض ہے ۔

حَیَّ عَلی الفَلَاح،حَیَّ عَلی الفَلَاح

حَیَّ عَلی الفَلَاح،حَیَّ عَلی الفَلَاح کے ذریعہ فلا ح دائمی کی دعوت دی گئی ہے ،اگر ہمیشہ کی کامیابی اور دائمی بہبودی چاہتے ہو، تو مولیٰ حقیقی کی اطاعت اور بندگی میں لگے رہو اور جولوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے اوراس راستہ کو چھوڑ کر دوسری راہوں پر چلیں گے، وہ ہر گز کامیابی ونجات حاصل نہیں کرسکیں گے ،گویا اس میں عقیدئہ آخرت کا اعلان ہے ،اس سے صرف عقیدہ کا علم نہیں؛ بلکہ حقیقی فلاح کا مسئلہ زندگی کا سب سے اہم اورقابل فکر مسئلہ بن کرہمارے سامنے کھڑا ہوجاتاہے ۔

پھر آخر میں اللّٰہُ اَکبَر´ ،اَللّٰہُ اَکبَر لَاالہَ اِلَّا اللّٰہ ے ذریعہ یہ اعلان وپکار ہے کہ انتہائی عظمت وجلال اور کبریائی والے صرف اللہ ہی ہیں اور وہی بلاشرکتِ غیر معبودِ برحق ہیں ،اس لئے بس انھیں کی رضاءکو اپنا مطلوب ومقصو د بنانا چاہئے ۔ (عمدة القاری ،کتاب الاذان۱۴۳/۴،فتح الملھم ،باب بداا الاذان،۲/۲،معارف الحدیث ۱۵۳/۳)

جمعہ کی اذان ثانی کی مشروعیت

عہدنبوی ﷺ میںرسول اللہ ﷺ جب منبرپرتشریف لے آتے ،تو جمعہ کی اذان مسجد کے دروازہ پر ہواکرتی تھی اور صرف یہی ایک اذان تھی،اس اذان کے بعدخطبہ ہوتاتھا ،لوگ عامةً سنتیں اپنے گھروں سے پڑھ کرآتے تھے،اس اذان کی آواز مسجد کے باہراوراندررہنے والے تمام لوگوں کو پہنچتی تھی،یہی کیفیت حضرت سیدنا ابوبکر ؓ وعمر ؓ کے دورِخلافت میں رہی ۔

خلیفہءثالث حضرت عثمانؓ بن عفان کے زمانہءخلافت میں مدینہ طیبہ کی آبادی زیادہ وسیع ہوگئی اور مجمع زیادہ ہوگیا،توحضرت عثما ن ؓ نے اپنے اجتھاد سے خارج مسجدبازارمیں ”زوراء“نامی مقام پراذان دینے کا حکم فرمایاتاکہ دوردورتک آواز پہنچ جائے اورلوگوں کو نماز میں شرکت کے لئے آسانی وسہولت ہو اورجواذان خطبہ سے پہلے امام کے سامنے دی جاتی تھی ،وہ اپنی جگہ پرحسب معمول باقی رہی۔

یہ دونوں اذانیں سنت ہیں، اس اذان کو پورے عالمِ اسلام کے لوگوں نے قبول کیا، اس لئے کہ حضرت عثمان ؓ خلیفہءراشد تھے ،آپ کی اطاعت وفرمانبرداری لاز م وواجب تھی،صحابہ کرام نے سکوت اورعدم انکار کے ذریعہ آپ کی موافقت کی،اگریہ اذان خلافِ شرع ہوتی، تو یہ حضرات ہر گز سکوت نہ فرماتے؛ بلکہ تردید کردیتے ۔

اذان ِثانی قرن مشہودلہ بالخیر سے ثابت اورمتوارث

علامہ عینیؒ فرماتے ہیں:حضرت عثمان ؓنے منیٰ میں جب اتمام صلوة فرمایا،تو امت نے حضرت عثمان ؓ کے اس عمل پر نکیرکی اور اس کو قبول نہیں کیا، جب کہ اذان ِثانی پر تابعین عظام ،ائمہ اور محدثین ؒ سب ہی نے عمل کیا ،یہ ترتیب قرونِ مشہودلہابالخیر سے ثابت اورمتوارث ہے ،حضرت عثمان ؓ کے دورمیں حضرات صحابہ کرام ؓ کااجماع سکوتی ہوچکا ہے ۔

خلفاءِراشدین کی سنت پرعمل کرنے کی حدیث میں تاکید آئی ہے ،پس ان کی سنت پر عمل کرنا بھی رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرناہے جوکہ خلاف ِحدیث نہیں؛ بلکہ عین موافق حدیث ہے ،وہ حضرات منشاءحدیث کو سمجھنے والے ،اس پر عمل کرنے والے اوراس کوشائع کرنے والے ہیں، (خلاصہ مباحث فتح الباری ،عمدة القاری ،بذل المجہود ، ،روح المعانی ،فتاوی محمودیہ )

حضرت محمدبن شہاب زہری سائب بن یزیدسے روایت کرتے ہیں قال کان النداءیوم الجمعة اولہ اذاجلس الامام علی المنبرعلی عھدالنبیﷺ وابی بکرؓ وعمرؓ،فلما کان عثمان ؓ،وکثرالناس،زادالنداءالثالث علی الزوراء،قال ابوعبداللّٰہ الزوراءموضع بالسوق بالمدینة (اللفظ للبخاری باب الاذان یوم الجمعة ۱۲۴/۱)

رسول اللہ ﷺ،حضرت ابوبکرصدیقؓاورحضرت عمرؓکے زمانہ میں جمعہ کے دن اذان امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد ہوتی تھی،جب حضرت عثمان ؓ کا دور آیا اورلوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ،تو حضرت عثمان ؓنے بازارمیں ”زوراء“نامی مقام پرایک تیسری اذان(مشروعیت کے اعتبارسے)یعنی موجودہ اذان اول دینے کا حکم فرمایا ۔ اس روایت کو امام مسلم کے علاوہ محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ذکرکیاہے۔

تنبیہ

تنبیہ :جو اذان خطبہ ءجمعہ سے نصف گھنٹہ پہلی دی جاتی ہے، وہ مشروعیت کے اعتبار سے ثانی ہے، ترتیب کے اعتبار سے اول ہے ،خطبہءجمعہ سے پہلے جو اذان خطیب کے سامنے دی جاتی ہے،وہ مشروعیت کے اعتبار سے اول اور ترتیب کے اعتبار سے ثانی ہے،احادیث میں اقامت کو بطورتغلیب کے اذان کہاگیاہے ،اس وجہ سے مذکورہ حدیث میں اذان ثالث کالفظ استعمال کیاگیاہے ۔(اذان ومؤذنین رسول اللہﷺ ۲۱تا۲۶)