اذان کے جواب سے متعلق مسائل

مسئلہ(۱ ) اگر بیک وقت کئی مساجد سے اذان کی آواز سنائی آئے، تو سب سے پہلے جو اذان سنے ،اس کا زبانی جواب دے ،اگرچہ اپنی جماعت کی مسجد نہ ہو، اس لئے کہ اپنی مسجدکی اذان کا جواب فعلی واجب ہے ۔(یعنی جماعت کی نماز میں شرکت لازم ہے )

سئل ظھیر الدین عمن سمع فی وقت من جھات ماذا علیہ ؟قال اجابة اذان مسجدہ بالفعل،وھذا لیس مما نحن فیہ اذ مقصود السائل ای مؤذن یجیب باللسان استحبابا، اووجوبا،والذی ینبغی اجابة الاول ،سواءکان مؤذن مسجدہ او غیر ہ لانہ حیث یسمع الاذان ندب الاجابة او وجبت ۔(فتح القدیر ۲۵۴/۱،البحر الرائق ۴۵۲/۱)

مسئلہ(۲) مؤذن جب اذان دے، تو جواب دینے میں جلدی کرے ؛لیکن کلمات اذان کے مکمل ادا کرنے کے بعد جوابی کلمات اداکرے ،مؤذن سے آگے نہ بڑھے ۔

علامہ ابن ھما م ؒ حدیث عمرؓ اور حضرت ابو امامہ ؓ کی ر وایت کے بعد لکھتے ہیں

فی حدیث عمر ؓ وابی امامة التنصیص علی ان لا یسبق المؤذن ،بل یعقب جملة منہ بجملة منہ ،ولیتم ھذا الدعاءعقیب الاجابة۔(فتح القدیر ۲۵۵/۱،فتح الباری )

مؤذن کی فراغت کے بعد اذان کا جواب

مسئلہ(۳)اگرکوئی آدمی اذان کے وقت مؤذن کے ساتھ جواب نہیں دے سکا ،یہاں تک کہ مؤذن اذان سے فارغ ہوگیاہے ،توایسا آدمی بھی اذان کا جواب دے سکتاہے ؛بشرطیکہ زیادہ وقت نہ گزرا ہو ۔

لم ار حکم ما اذا فرغ المؤذن،ولم یتابع السامع ،ھل یجیب بعد فراغہ ؟وینبغی انہ ان طال الفصل لایجیب ،والا یجیب ۔(البحر الرائق ۴۵۲/۱،منحة الخالق۴۵۲/۱،فتح الباری )

مسئلہ(۴ )عمدًا اگر کوئی آدمی اذان کا جواب دینے میں مؤذن کی متابعت نہیں کرتاہے، تو گناہ گار ہوگا ۔

ھل یاثم بالتاخیرعمدا ؟الظاھر نعم، لانہ مکروہ ۔(ردالمحتار ۶۵/۱،السعایہ ۵۳/۲)

مسئلہ(۵) غیر نماز والی اذان(مثلابچہ کے کان میں ) کا جواب دینے کا کیاحکم ہے ؟

علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں اپنے ائمہ کے نقول میں مجھے اس کی صراحت نہیں ملی؛لیکن قواعدکا تقاضایہ ہے کہ اس کا جواب دینا بھی مستحب ہے ،جیسے غیرِ نماز والی اذان میں حی علی الصلوة میں چہرہ پھیر نا مستحب ہے ،اسی طرح اس کا جواب دینا بھی مستحب ہے۔

ھل یجیب اذان غیر الصلوة کا لاذا ن للمولو د ؟لم ارہ لائمتنا ،والظاھر نعم ،ولذا یلتفت فی حیعلتہ کمامر وھو ظاھر الحدیث ۔(ردالمحتار ۶۶/۲)

عورتوں کوبھی اذان کا زبانی جواب دینا مستحب

مسئلہ(۶)مردوں کی طرح عورتوں کوبھی اذان کا زبانی جواب دینا مستحب ہے۔رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : اے گروہ خواتین! جب تم اس حبشی کی اذان سنو تو اس کا جواب دو ۔

روی الطبرانی عن میمونة ؓ ان رسول اللہ ﷺ قام بین صف الرجال، والنساء،فقال: یا معشر النساء! اذا سمعتم اذان ھذا الحبشی واقامتہ ،فقلن کما یقول۔ (الترغیب ۱۱۵/۱)

مسئلہ( ۷)جنبی شخص کے لئے بھی اذان کا جواب دینا مستحب ہے ؛البتہ حائضہ ونفساءکے لئے اذان کاجواب دینا مستحب نہیں ہے ۔

من سمع الاذان، فعلیہ ان یجیب ،وان کان جنبا لان جابة المؤذن لیست باذان۔ (البحرالرائق ۴۵۰/۱،ردالمحتار ۶۵/۲وکذا الحائض والنفساءلایجوز اذانھما وکذا ثنائھما والمراد با لثناءالاجابة۔ ( (البحرالرائق ۴۵۲/۱،ردالمحتار ۶۵/۲)

مسنو ن طریقہ سے دی گئی اذان کاجوا ب مستحب

مسئلہ(۸) صرف اس اذان کاجوا ب دینا مستحب ہے جو مسنو ن طریقہ پردی جائے،جواذان خلاف سنت ہو اس کا جواب دینا درست نہیں ۔مثلًاموسیقی کی طرزپراذان دینا ،جنبی کی اذان ،عورت کی اذان ،وقت سے پہلے کی اذا ن وغیرہ۔

علامہ شامی ؒلکھتے ہیں

ان سمع المسنو ن منہ الظاھر ان المراد ماکان مسنونا جمیعہ ،۔۔۔فلو کان بعض کلماتہ غیر عربی، اوملحونا ،لاتجب الاجابة فی الباقی لانہ حینئذ لیس اذانا مسنونا کما لوکان کلہ کذالک ،اوکان قبل الوقت ،اومن جنب اوامراة ۔(ردالمحتار۶۶/۲)

مسئلہ(۹) اذان واقامت کو سننے والا بوقت اذان کسی سے بات چیت نہ کرے ،نہ خود سلام کرے ،نہ سلام کرنے والاکا جواب دے ۔

ولایقرأ السامع، ولایسلم، ولایرد السلام، ولایشتغل بشیءسوی الاجابة، ولوکان السامع یقرأ یقطع القراءة،ویجیب۔ (البحرالرائق ۴۵۰/۱)

دوران تلاوت اذان کا جواب

مسئلہ(۱۰) اگر کوئی شخص تلاوت میں مصروف ہو اور اذان شروع ہوجائے ،تو چاہئے کہ تلاوت موقوف کرے اور اذان کا جواب دے ۔

بعض علماءنے تفصیل بیان کی ہے

اگر خارج مسجد تلاوت کررہاہو ،تو تلاوت موقوف کرکے جواب میں لگے ،اگر مسجد ہی میں تلاوت کررہاہو، تو تلاوت کو موقوف کرنے کی ضرورت نہیں ؛لیکن اس سلسلہ میں بہتر بات وہ ہے جس کو علامہ شامی ؒنے صراحةً اور دیگر فقہاءنے اشارة ًبیان کیاہے ۔

علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں

تلاوت قرآن مجید سے مقصود تحصیل اجر ہے اور اذان کا جواب دینے سے یہ چیز فوت نہیں ہوتی ؛بلکہ جواب سے فراغت کے بعد اس کی تلافی کی جاسکتی ہے ؛لیکن اذان کے جواب کی فضیلت صرف اسی وقت حاصل کی جاسکتی ہے ،لہذاجس کی تلافی ممکن ہو،اس کو مؤخرکردے اورجس کی تلافی ممکن نہیں ،وقت کے فوت ہونے سے فوت ہوجاتی ہے، اس کو بجالاکر فضیلت حاصل کرلے ۔

بخلاف القرآن لانہ لا یفوت ،ولعلہ لان تکرار القراءةانما ھو للاجر، فلا یفوت بالاجابة۔ (ردالمحتار ۶۶/۲)

خطیب کے سامنےکی اذان کاجواب دل دل میں دے

مسئلہ(۱۱ )خطیب کے سامنے جب اذان ہو، تو دل دل میں جواب دینا بہتر ہے تاکہ کسی کا اختلاف نہ رہے۔

علامہ حصکفی ؒ لکھتے ہیں

ینبغی ان لایجیب بلسانہ اتفاقا فی الاذان بین یدی الخطیب ۔(الدر المختار مع ردالمحتار ۷۰/۲)

مسئلہ(۱۲ )اگرکوئی شخص مسجدمیں ہو اوراذان ہوجائے ،تونماز پڑھے بغیرمسجدکے باہرنکلنا مکروہ ہے ؛البتہ اعذارکی صورت میں نکل سکتاہے ،مثلاً وضوبنانے کے لئے یا کسی دوسری جگہ امامت یا اذان دینے کی ذمہ داری ہے ،یا مغرب یا فجرکی نماز ہے جنہیں کسی دوسری مسجد میں پڑھ چکاہے ،ان صورتوں میں مسجد سے نماز پڑھے بغیر نکل گیا،توان شاءاللہ گناہ نہیں ہوگا ۔

حضرت ابوہریرة ؓمسجدمیں موجودتھے ،اذان ہوگئی ،ایک شخص مسجدسے نماز پڑھے بغیرنکل گیا ،توحضرت ابوہریرة ؓ نے فرمایا: اس شخص نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۔(ترمذی ۵۰/۱)

اذان کا جواب نہ دینے کے مواقع

مندرجہ ذیل مواقع میں اذان کاجواب نہ دے۔

نمبر(۱) اگر نمازمیں ہونے کی حالت میں اذان ہوجائے ،تو اذان کا جواب نہ دے ۔

نمبر(۲)خطبہ جمعہ کے دوران اگر اذان کی آواز کان میں پڑے، تو جواب نہ دے ۔

نمبر(۳)خطبہءعبد الفطر ،خطبہءعید الاضحی اور خطبئہ عرفہ کے دوران اگر اذان کی آواز کان میں پڑے ،تو جواب نہ دے ۔

نمبر(۴)نماز جنازہ میں شریک ہونے کی حالت میں۔

نمبر(۵)دینی تعلیم کے سیکھنے اور سکھانے میں مصروف ہونے کی حالت میں ۔

نمبر(۶)جماع کی حالت میں۔

نمبر(۷)بیت الخلاءمیں ہونے کی حالت میں (خواہ قضاءحاجت میں نہ لگا ہو، اس لئے کے یہ ناپاک جگہ ہے )

نمبر(۸)قضاءحاجت کے وقت (پیشاب وپائخانہ کے وقت ،اگر چہ میدان میں ہو )

علامہ ا بن نجیم مصری ؒ تحریر فرماتے ہیں

فی المجتبی :فی ثمانیة مواضع ،اذا سمع الاذان لا یجیب ،فی الصلوة ،واستماع خطبة الجمعة،وثلاث خطب الموسم ،والجنازة ،وفی تعلیم العلم وتعلمہ ،والجماع ،والمستراح ،وقضاءالحاجة ،والتغوط۔(البحرالرائق ۴۵۲/۱)

مسئلہ : مذکورہ مقامات میں جب ان چیز وں سے فارغ ہوجائے ،تو اذان کا جواب دینا چاہئے یا نہیں ؟

علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں :جواب دینا چاہئے اگر اذان کا فاصلہ زیادہ نہ ہو ،قضاءحاجت میں مصروف شخص بالاتفاق جواب نہ دے ۔

ھل یجیب بعد الفراغ من ھذہ المذکورات ام لا ؟ینبغی انہ لم یطل الفصل،،فنعم ،وان طال ،فلا “۔۔۔واجمعوا ان المتغوط لایلزمہ مطلقا-(ردالمحتار ۶۶/۲)

اذان کے جواب سے متعلق مسائل،اذان کا جواب نہ دینے کے مواقع،اذان ومؤذنین رسول اللہ ﷺ : ۸۵تا ۸۹،مرتب ابوفیضان قاسمی

درس قرآن ،درس حدیث، فقہ وفتاوی ،تعارف کتب وشخصیات ، اصلاحی، علمی اورتحقیقی مضامین ومقالات کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ کی طرف رجوع کیجئے اوردوست واحبا کو بھی متوجہ کیجئے ۔