استنجے کے آداب واحکام

جس طرح کھانا ،پینااورسونا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے ،اسی طرح پیشاب اور پاخانے سے فراغت بھی انسانی ضرورت ہے ،یہ ضرورت فطری وطبعی نظام پر قائم ہو،تو انسان صحت مند اورتندرست رہتاہے ،خدانہ خواستہ اگریہ نظام گڑبڑ ہوجائے ،تو ناقابل برداشت تکلیفوں کاسامناکرتاہے ، ڈاکٹروں کا کھلونا بن جاتاہے ،یہ نظام اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ا وربہت بڑی نعمت ہے،شریعت نے ہمیں استنجے کے آداب واحکام کوبتایا اورسکھایاہے۔

طبعی طریقے پر سہولت کے ساتھ غذا کااستعمال ،پھراس کاہضم ہونا ،پھرغذاکے جواجزاءمفیدِبدن ہوں، ان کا جزء بدن بن جانا،جو فضلہ اورمضرِصحت وبدن ہو، ان کا بدن سے سہولت وآسانی کے ساتھ خارج ہوجانا، یہ سب اللہ کی بہت بڑی بڑی نعمتیں ہےں ،ان عظیم نعمتوں کی قدرلوگوں کواس وقت ہوتی ہے ؛جب وہ بوڑھاپے کی عمر میں داخل ہوجائیں ،یابیمارہوکر ڈاکٹروں کا کھلونابن جائیں۔

ہمارے محسن ومہربان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان نعمتوں کا استحضارکرنے ،ان کا شکراداکرنے کی تلقین کی اوراس کا طریقہ بھی بتایا ،انسان قضائے حاجت کے لیے تنہا کھلے میدان، یا بیت الخلا میں جانے اور اپنا سترکھولنے پرمجبورہوتاہے ؛تاکہ اپنے بدن میں جوفضلہ و گندگی ہے، اس کو خارج کرے ،شیاطین اورخبیث مخلوقات کو گندگی اورگندگی کے مقامات سے خاص مناسبت ہوتی ہے ،وہی ان کے مراکز اوردل چسپی کے مقامات ہوتے ہیں ، جب ان کو شرارت اور انسان کو نقصان پہنچانے کا موقع ملتاہے ،توضرورجسمانی اورروحانی نقصان پہنچاتے ہیں ،جب انسان سترکھولتاہے اور دعاسے اپنی حفاظت کا انتظام نہیں کرتاہے ،تو ارشادنبوی کے مطابق شیاطین اس کی شرم گاہ سے کھیلتے اورہنستے ہیں ۔

میں تمہیں زندگی گذارنے کاطریقہ بتاتا اورسکھاتاہوں

اس لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سمجھایاکہ میں تم لوگوں کے لیے ایسے ہی ہوں،جیسے اولاد کے لیے باپ ،یعنی جس طرح ایک خیرخواہ ،عقل مند، مشفق اورمہربان باپ اپنی اولادکی تربیت کرتاہے اوراپنی اولاد کو بے تکلف زندگی کے ہرچھوٹے اوربڑے ادب کوبتاتا اور سکھاتاہے،اس کی دنیوی اوراخروی ضروریات کو پوری کرنے کاطریقہ بتاتاہے اوران کو دنیوی واخروی نقصانات سے بچانے کی فکراورکوشش کرتاہے ،اسی طرح میں تمہیں زندگی گذارنے کاطریقہ ،انسانی زندگی سے متعلق ہرضرورت کوسلیقے سے پوراکرنے کا طریقہ بتاتا اورسکھاتاہوں ۔

لہذا تم بیت الخلا اورگندگی کے مقامات میں جانے سے پہلے خبیث مخلوقات سے اللہ کی پنا ہ طلب کرلو ،ضرورت پور ی کرتے وقت لوگوں کے سامنے سترکھولنے اورگندگی کو داہنے ہاتھ سے صاف کرنے سے احتیاط کرو ، احترامِ کعبہ اورمکمل صفائی کاخیال کرو،بے موقع اورقابل احترام چیزوں سے ضرورت پوری کرکے لوگوں کو تکلیف مت پہنچاؤاور اپنے آپ کو مستحق ِملامت مت بناؤ ۔

یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین نے حضرت سلمان فارسی ؓسے مذاق کیا اورطنزکرتے ہوئے کہاکہ تمہارے نبی تمہیں بیت الخلاکا طریقہ بھی سکھاتے ہیں ،تمہارا عقیدہ ہے کہ وہ خداکے نبی ہیں ،بھلا جو خداکے نبی ہوں، وہ گندگی سے متعلق باتیں کرتے ہیں ؟اور تمہیں اس کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں ؟حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا : ارے بے وقوفو ! نبی کی تعلیم ،ان کی تربیت اورفکر کی گہرائی تک تمہاری عقلیں پہنچ نہیں سکتیں ،پھر سلمان فارسی ؓ نے استنجے کے آداب واحکام بتائے کہ بظاہر یہ معمولی آداب معلوم ہوتے ہیں ،حقیقت میں یہ آداب احترام ِکعبہ اور پاکی صفائی کے غایت درجہ اہتمام اور کسی بھی جان دارکی ایذارسانی سے اجنتاب کرنے کی ہدایات پرمبنی ہیں ،کبھی تم نے ان آداب کی حقیقت پر غورکیا؟ ۔

میں تمہارے لیے مہربان باپ ہوں

حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ، أُعَلِّمُكُمْ فَإِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ فَلَا يَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، وَلَا يَسْتَدْبِرْهَا وَلَا يَسْتَطِبْ بِيَمِينِهِ، وَكَانَ يَأْمُرُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، وَيَنْهَى عَنِ الرَّوْثِ وَالرِّمَّةِ۔(رواہ ابوداؤد،کتاب الطھارة ،باب کراھیة استقبال القبلة:۸) ۔

میں تم لوگوں کے لیے باپ کے درجے میں ہوں ،جب تم میں سے کوئی استنجے کے لیے جائے ،تو چاہئے کہ وہ قبلے کی طرف نہ منہ کرے نہ پیٹھ، اپنے داہنے ہاتھ سے استنجا نہ کرے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم استنجے میں تین ڈھیلوں کے استعمال کا حکم دیتے تھے ،لید اور بوسیدہ ہڈیوں سے استنجاکرنے سے منع فرماتے تھے۔

آداب ِنبوی پر طنز اور اس کا حکیمانہ جواب

حضرت سلمان فارسیؓ سے چند مشرکین نے مذاق اورطنز کرتے ہوئے کہا

عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قِيلَ لَهُ: قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ قَالَ: فَقَالَ: أَجَلْ «لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ، أَوْ بَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ۔(رواہ مسلم ،کتاب الطھارة ،باب الاستطابة:۲۶۲)

تمہارے نبی عجیب آدمی ہیں،وہ تمہیں استنجے کے آداب واحکام بھی سکھاتے ہیں یعنی انھوں نے تم کوبے وقوف سمجھ رکھاہے کہ معمولی معمولی باتیں بھی سکھاتے ہیں ،حضرت سلمان فارسیؓ نے نہایت حکیما نہ طریقہ اختیارکرتے ہوئے جواب دیا،ہاں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں( اس حدیث میں )استنجاکرنے کی چارضروری باتوں کی تعلیم دی ہے جہاں تک تمہاری عقلوں کی رسائی نہیں ہے ۔

استنجاکرتے وقت کعبہ شریف کی طرف نہ منہ کریں ،نہ پیٹھ

پہلی بات: ہم استنجاکرتے وقت کعبہ شریف کی طرف نہ منہ کریں ،نہ پیٹھ ۔شریعت نے قبلہ اورکعبہ کے احترام کا حکم دیاہے ،کفارومشرکین مکہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام واسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے ،اس لیے ان کے دلوں میں بھی کعبہ کی عقیدت ،محبت اورعظمت پیوست تھی اورکعبہ کا نہایت ادب واحترام کرتے تھے ،اس وجہ سے اس ادب کو ان کے سامنے بیان کرنا نہایت اہمیت کا حامل تھا۔

دوسری بات: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا نہ کریں ، اچھے برے کاموں کے لیے ہاتھوں کی تقسیم ہونی چاہئے ،تمہارے نزدیک اس کی کوئی تمیز نہیں ہے ،تم داہنے ہاتھ سے استنجا بھی کرتے ہو اور اسی ہاتھ سے کھاتے بھی ہو ۔

تیسری بات: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایاہے کہ بڑے استنجا میں کم از کم تین ڈھیلوں کا ضرور استعمال کرو ،تم لوگ ایک ڈھیلے پر اکتفا کرتے ہو، خواہ جگہ صاف ہوجائے،یانہ ہو۔

چوتھی بات : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استنجے کے آداب واحکام میں بتایاکہ ہم لید،گوبر اورہڈی سے استنجانہ کریں،(کیونکہ لیداورگوبرخودناپاک ہیں ،وہ دوسروں کوکیسے پاک کرسکتے ہیں ؟ ہڈی کے چکنی ہونے کی وجہ سے صفائی مکمل نہیں ہوتی۔

الغرض حضرت سلمان فارسیؓ نے ان مشرکین کا مذاق کا حکیمانہ جواب دیاکہ استنجا کرنے کا طریقہ بھی تعلیمات ِنبوی کامحتاج ہے ،شریعت کی ہدایت کے بغیریہ معمولی کام بھی انسان سلیقے سے کرنہیں سکتا،یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ہمیں استنجے کے آداب واحکام کوبتایا اورسکھایاہے۔

بیت الخلاجانے سے پہلے خبیث شیاطین سے پناہ طلبی

بیت الخلا اور گندگی کے مقامات شریرجنات اورشیاطین کے مرکز ہوتے ہیں اورقضائے حاجت کے وقت انسانوں کوتکلیف پہنچاتے ہیں ،بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ شریرجنات وشیاطین سترکھلاہونے کے وقت انسانوں سے کھیلتے اورہنستے ہیں ۔

جنات وشیاطین کو ہم دیکھتے ہیں ،ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے ،جب انھیں شرارت کا کوئی موقع ملتاہے ،توشیاطین اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ،ان کی شرارت سے بچنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیت الخلاجانے سے پہلے شیاطین سے پناہ طلب کرنے کاحکم دیااوردعائیں سکھائی ہیں کہ جب بیت الخلا جاؤ ،تو مندرجہ ذیل دعائیں پڑھو، شیاطین کے شرونقصان سے محفوظ رہوگے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ هَذِهِ الْحُشُوشَ مُحْتَضَرَةٌ، فَإِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْخَلَاءَ فَلْيَقُلْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ۔(رواہ ابوداؤدعن زیدبن ارقم، کتاب الطھارة،باب مایقول الرجل اذادخل الخلاء:۶ ،ترمذی، باب مایقول اذادخل الخلاء:۵)

بیت الخلااورگندگی کے مقامات میں شیاطین وخبیث جنات رہتے ہیں ،لہذاجب تم میں سے کوئی بیت الخلا جائے، تو مندرجہ ذیل دعاپڑھ لے ۔اللھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث۔اے اللہ! میں مذکرومؤنث شیاطین سے آپ کی پناہ طلب کرتاہوں۔

انسانوں کے سترپر جنات کی نگاہ پڑھنے سے حفاظت کا ذریعہ یہ ہے کہ آدمی جب بیت الخلا جائے، تو، بسم اللہ پڑھے۔

سَتْرُ مَا بَيْنَ أَعْيُنِ الجِنِّ وَعَوْرَاتِ بَنِي آدَمَ: إِذَا دَخَلَ أَحَدُهُمُ الخَلَاءَ، أَنْ يَقُولَ: بِسْمِ اللَّهِ۔(رواہ الترمذی عن علی بن طالب، باب ماذکرمن التسمیة عنددخول الخلاءابواب السفر:۶۰۶)

حضرت سعدبن عبادہ ؓ اورقضائے حاجت

خزرج کے مشہور سردار صحابی رسول حضرت سعدبن عبادہ ؓ قضائے حاجت کے لیے گئے،بعدمیں وہیں مردہ پائے گئے ،جسم سبز ہوچکاتھا،اس وقت ایک پراسرارآواز سنی گئی کہ کوئی یہ شعرپڑھ رہاہے ۔

قتلنا سیدالخزرج سعدبن عبادة ٭ رمیناہ بسھمین فلم نخط فؤادہ

ہم قبیلہءخزرج کے سردارسعدبن عبادہ ؓپردوتیر چلائے ،وہ تیران کے دل پر لگے ،ہمارانشانہ خطانہیں ہوا۔(الاستیعاب فی ذکرالاصحاب حافظ عبدالبر۲۹۹/۲،معارف السنن ۷۸/۱)

قضائے حاجت سے فراغت پر مغفرت طلبی اورادائے شکر

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ، قَالَ: «غُفْرَانَكَ(رواہ الترمذی،باب مایقول اذاخرج من الخلاء:۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستورتھاکہ جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوکربیت الخلاسے باہرآتے ،تو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ”غفرانک“ اے اللہ!میں تیری مغفرت وبخشش چاہتاہوں۔

قضائے حاجت سے فراغت کے بعد اللہ سے مغفرت طلبی کا موقع نہیں ہے ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مغفرت کیوں مانگی؟اس سوال کے مختلف جوابات دئے گئے ہیں ۔

الف:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہروقت اللہ کاذکر فرماتے رہتے تھے؛چونکہ بیت الخلا میں زبانی ذکر کا موقع نہیں رہتا،تھوڑی دیرذکرکا سلسلہ موقوف ہونے پر آپ نے استغفار فرمایا،اے اللہ یہ وقت ذکرکے بغیرگذرگیا،مجھے معاف فرما۔

حضرت رشیداحمدگنگوہیؒ فرماتے ہیںب:قضائے حاجت کے وقت انسان اپنی نجاستوں کا مشاہدہ کرتاہے ،اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ان ظاہری نجاستوں کو دیکھ کر انسان کو اپنی باطنی نجاستوں کا استحضارکرناچاہئے اورظاہرہے کہ یہ استحضاراستغفارکا موجب ہوگا ،اس لیے غفرانک کہنے کی تعلیم دی گئی۔

فضلات کا انسان کے جسم سے نکل جانا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت

ج:علامہ خطابیؒ فرماتے ہیں: فضلات کا انسان کے جسم سے نکل جانا ،اس کی صحت وزندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے،موجودہ دور میں جولوگ کمزوں ہاضمہ کا شکارہیں،یا پیشاب وبیت الخلاکی پریشانیوں میں مبتلاہوجاتے ہیں ،ان کی پریشانی وبے بسی کا عالم یہ ہوتاہے کہ ان کے پیشاب کو خارج کرنے کے لیے پائپ لگاکر مریض کے ساتھ پیشاب کی تھیلی کولگادیاجاتاہے، جہاں جائے ،ساتھ لے کرجائے ،بسااوقات بیت الخلا کو ناک کے راستے سے پائپ ڈال کر نکالاجاتاہے ،انسان ڈاکٹروں کا کھلونا بن کررہ جاتاہے،

ان مصیبتوں میں مبتلامریضوں کودیکھنے سے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا احساس ہوتاہے ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے بعد اس دعا کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ کی اس عظیم نعمت کا شکراداکرے اور اللہ کی نعمتوں کا شکرکاحق ادانہ کرنہیں سکتا، اس لیے اللہ سے مغفرت بھی طلب کرے ۔(شرح مہذب،باب الاستطابة ۷۶/۲)

د:علامہ سیدمحمدیوسف ؒبنوری ؒ فرماتے ہیں: کلام عرب میں ”غفرانک“ شکرکے مفہوم میں استعمال ہوتاہے ،عرب حضرات کہتے ہیں : غفرانک لاکفرانک،اس توجیہ کی تائید ابن ماجہ میں حضرت انس ؓ کی روایت سے ہوتی ہے جس میں بیت الخلا سے نکلنے کے وقت کی دعاان الفاظ میں مروی ہے

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي۔(ابن ماجہ ،کتاب الطھارة، باب مایقول اذاخرج من الخلاء: ۳۰۱،صف:۶۲)

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے گندگی کو دورکردیا اور عافیت عطافرمائی۔

بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بے شمارنعمتیں ہیں ،جن میں سے ایک اہم نعمت یہ ہے کہ انسان غذاکا استعمال کرتاہے ،غذا کا آسانی کے ساتھ پیٹ میں جانا ،غذاکاہضم ہوجانا،مفیدِبدن کا بدن کا جزءبن جانا اوربدن وصحت کے لیے جوچیزنقصان دہ ہو، اس کا باہرنکل جانا،یہ سب اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہےں ۔(مستفاد:ازدرس ترمذی ۱۷۹/۱)

استنجے کے آداب واحکام سے متعلق دیگرپوسٹ کی تفصیلات

استنجے کے آداب واحکام (قسط اول) ،کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ۔(قسط ثانی)پانی اورڈھیلے سے استنجا کرنا (قسط ثالث) ،استنجے کے آداب (قسط رابع)