مدارس کاقیام،تحفظ اورترقی کے اصول

مدارس کاقیام،تحفظ اورترقی کے اصول الحمدللہ رب العالمین والصلوة والسلام علی رسولہ محمدبن عبداللہ الامین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین امابعد :

حضرات علماءکرام، ذمہ دارانِ عالی مقام ! آج الحمدللہ ہم چنددینی مدارس کے ذمہ داران اوراساتذہ کرام ایک باوقارمجلس میں جمع ہیں تاکہ دینی مدارس کی اصلاحی ،تربیتی ،اخلاقی ،تعلیمی اورتعمیری ترقی کے متعلق سب مل جل کر غوروفکرکریں اوراپنے مقاصد میں بھرپورکامیابی کی سعی وکوشش میں لگیں۔

حضرات محترم ! ہم سب مدار س کے ذمہ دارحضرات اور اساتذہ ہیں، لہذاآئیے ، جن مقاصد کے لئے مدارس کاقیام ہواہے، ایک مرتبہ ہم ان کو تازہ کرلیں، ہندوپاک کے تمام اہل السنہ والجماعہ کے مدارس براہ راست یابالواسطہ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہیں اوراس کا پرتوہیں ،ہمارے مدارس کے قیام کے مقاصدبھی وہی ہیں جن مقاصد کے لئے حجة الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ نے دارالعلوم دیوبندکو قائم فرمایا تھا ،دارالعلوم دیوبندکی بقاء،تحفظ اورترقی کے لئے جن اصول کو آپ نے مقررفرمایا، ہم بھی ان اصول کا اہتمام کریں گے ،تو ان شاءاللہ ہمارے مدارس بھی محفوظ رہیں گے ،قیامت کی صبح تک دینی خدمت میں مصروف بھی رہیں گے اورہم ان شاءاللہ اپنے مقصدمیں کامیاب وسرخ رو بھی ہوں گے ۔ مدارس کاقیام

دارالعلوم کی بنیادمندرجہ ذیل مقاصد کے لئے

دارالعلوم دیوبندکے قدیم دستورِاساسی کے مطابق دارالعلوم کو مندرجہ ذیل مقاصدکے لئے قائم کیاگیاہے : (۱)قرآن مجید،تفسیر،حدیث،عقائدوکلام اوران کے علوم کے متعلقہ ضروری اورمفیدفنون آلیہ کی تعلیم دینا اورمسلمانوں کومکمل طورپراسلامی معلومات بہم پہنچانا ،رشدوہدایت اورتبلیغ کے ذریعے اسلام کی خدمت انجام دینا ۔ (۲)اعمال واخلاق ِاسلامیہ کی تربیت اورطلباءکی زندگی میں اسلامی روح پیداکرنا ۔

(۳)اسلام کی تبلیغ واشاعت اوردین کا تحفظ ودفاع اوراشاعتِ اسلام کی خدمت بذریعہ تحریروتقریربجالانا اورمسلمانوں میں تعلیم وتبلیغ کے ذریعے خیرالقرون اورسلف صالحین جیسے اخلاق واعمال اورجذبات پیداکرنا ۔ (۴)حکومت کے اثرات سے اجتناب واحتراز اورعلم وفکرکی آزادی کوبرقراررکھنا ۔ (۵)علوم دینیہ کی اشاعت کے لئے مختلف مقامات پر مدارسِ عربیہ قائم کرنا اوران کا دارالعلوم سے الحاق ۔(تاریخ دارالعلوم دیوبند۱۴۲/۱)

ذمہ دارانِ مدارس اوراساتذہ کا کردار

حضرات محترم ! مدارس کی تعلیمی اورتعمیری ترقی اور مذکورہ بالامقاصدکی تکمیل میں ذمہ دارانِ مدارس اوراساتذہ مدارس دونوں کا اہم کردارہوتاہے اوردونوں کا مقصدایک ہوتاہے ؛البتہ خدمت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ۔

ذمہ دارانِ مدرسہ اپنے علاقہ میں مسلمانوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت، امت مسلمہ کی نئی نسل کو دینی تعلیمات سے آراستہ وپیراستہ کرنے اوراسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے مدرسہ کی بنیادررکھتے ہیں ،مدرسہ کے لئے تمام ضروری وسائل ،جگہ کی فراہمی، مالیات کی فراہمی ، اساتذہ وطلبہ سے متعلق تمام ضروریات کی تکمیل کے لئے کوشش کرتے ہیں۔

اساتذہ ان ذمہ داروں کے حسین خوابوں کو شرمندئہ تعمیرکرنے والے ہوتے ہیں ۔ جن مقاصدکے لئے ذمہ دارن ِمدرسہ بیج بوتے ہیں ،اساتذہ اس بیج کو تناآوراورثمرآوردرخت بنانے والے ہیں، ذمہ دارانِ مدرسہ مدرسہ کو ظاہری اعتبارسے مزین کرتے ہیں ،تو اساتذہ مدرسہ کو حقیقی اعتبارسے یعنی امت کے نونہالوں کو علم دین سے آراستہ کرنے کے اعتبارسے کوشش کرتے رہتے ہیں ۔

ذمہ دارانِ مدرسہ اگرمدرسہ کے لئے جگہ خریدیں اورشاندارعمارت تعمیرکرلیں ،تمام ضروریاتِ مدرسہ کی تکمیل کرلیں؛ لیکن مدرسہ کی چہاردیواری میں طلبہ واساتذہ نہ ہوں،تو یہ تعمیرات واسباب کچھ کام کے نہیں ہیں ،اسی طرح موجودہ زمانہ میں کوئی شخص ذی استعداد عالم بن جائے ؛لیکن پڑھانے کے لئے کوئی موزوں ومناسب دارالعلوم مدرسہ مکتب نہ ملے ،تو اس کی صلاحیت و استعداد استعمال نہیں ہوگی ،دنیوی کاروبارمیں لگنے کی وجہ سے بربادہوجائے ،مدارس کاقیام،تحفظ اورترقی کے اصول۔

اساتذہ مدارس کےمقاصد کی تکمیل میں ریڑھ کی ہڈی

بہرحال ذمہ داران اوراساتذہ مدارس کی ترقی اورمقاصد میں کامیابی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانندہیں،لہذاآپسی وحدت واجتماعیت، اتحادِفکراوراجتماعیتِ قلوب کی اشدضرورت ہے ،ذمہ دارنِ مدرسہ کی فکر کچھ اورہے ،اساتذہ کی سوچ الگ اورمحنت الگ ہے، تولاحاصل ہے ،اساتذہ باصلاحیت اورذی استعداد ہیں؛ لیکن مدرسہ میں وسائل کی کمی اور اسباب کا فقدان ہے ،تو مدرسہ کی ترقی نہیں ہوسکتی ، اتحادِفکراوراجتماعیت قلوب کے لئے مندرجہ ذیل امور کا اہتمام ضروری ہے ۔

باہمی تعاون

مدارس کاقیام اور مقاصدکی تکمیل عملہ اورذمہ داروں کے آپسی تعاون کے بغیرناممکن ہے ، مدرسہ کی ضروریات کی تکمیل اورضر وری اشیاءکی فراہمی ،وغیرہ میں ذمہ دارانِ مدرسہ کا تعاون ضروری ہے ،طلبہ کی تربیتی، اخلاقی اورتعلیمی ترقی میں اساتذہ کا کرداروتعاون اہم ہوتاہے ،نیز ایک مدرسہ میں خدمت کرنے والوں کا بھی آپس میں ایک دوسرے کا معاون ہونا ضروری ہے ،اپنی مفوضہ ذمہ داریوں،نیزاسباق ونگرانی کی ترتیب اوراوقات کا اہتمام وغیرہ کوپوراکرنے کہ ذریعے مہتمم صدرمدرس ناظم کاتعاون ضروری ہے ،مشورہ طلب امورمیںمہتمم ناظم صدرمدرس کا اساتذہ سے مشورہ کرنے سے اساتذہ معاون بنیں گے ورنہ معاندبن سکتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے سیدابراہیم علیہ السلام کو اپنی اہلیہ اورشیرخواربچہ کو وادی ذی زرع میں چھوڑنے کا حکم دیا ،تو حضرت ھاجرہ نے ا س حکم کی تکمیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعاون کیا ،نیز اللہ تعالی ٰ نے دوسراسخت امتحان اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کے ذریعہ لیا، توحضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے تعاون کیا ،حضرت ابراہیم نے فرمایا : تم میرے لئے کس قدر بہترین معاون ہو ۔

آپسی اکرام وتعظیم

ذمہ داران واساتدہ میں سے کوئی حاکم ومحکوم نہیں ہے،دونوں کا مقصدایک ہے ،ہرمسلمان کو اس کے شایان ِشان اکرام کرنا یہ شرعی واخلاقی فریضہ ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے، بڑے ، مسلم غیرمسلم شرفائے قوم میں سے ہرایک کا اس کے لائق اکرام فرمایا کرتے تھے ،عکرمہ بن ابی جہل ؓمسلمان ہوکر مدینہ منورحاضرہوئے ،تو آپ نے ارشادفرمایا: عکرمہ بن ابی جہل آرہے ہیں ،کوئی شخص ان کے باپ کی وجہ سے ان کو عارنہ دلائے ،نیز آپ نے کھڑے ہوکران کا استقبال فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:انزلواالناس علی منازلہم۔(ابوداودکتاب الاداب،رقم :۴۸۴۲) ہرآدمی کے ساتھ اس کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھو، مدارس کاقیام،تحفظ اورترقی کے اصول

ذمہ دارانِ مدرسہ مدرسہ کے محسن ،معاون ،خیرخواہ اورمدرسہ کے خارجی انتظامی امور کوانجام دینے والے ہوتے ہیں نیزعمرمیں بھی عمومًابڑے ہوتے ہیں اورتمام انتظامی امورکے الجھنوں کو اپنے سرلے کرہم کو دینی تعلیم کے مشغلہ کے لئے فارغ کردیاہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: لیس منا من لم یرحم صغیرنا و یوخرکبیرنا الخ(ترمذی باب رحمة الصبیان :۱۹۲۱) جوشخص چھوٹوں پررحم نہ کرے اوربڑوں کی تعظیم نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ، اساتذہ حفاظِ قرآن، علمائے دین،انبیاءکے وارثین اورعلم ودین کے خادمین ہوتے ہیں ،اس اعتبارسے وہ اکرام وتعظیم کے مستحق ہیں ۔

آپسی مشورہ

ذمہ داران ِ مدرسہ کو چاہئے مدرسہ سے متعلقہ امورآپسی مشورہ سے انجام دیں ،نیزناظمِ مدرسہ وصدرمدرس کو قابل مشورہ امورمیں اساتذہ سے مشورہ کا اہتمام کرنا چاہئے،اس سے ذمہ دارن اوراساتذہ کے درمیان اعتماد واطمینان کی کیفیت پیداہوتی ہے اورطے شدہ امورکی تکمیل میں آسانی رہتی ہے، نیز ہم حضرات مشورہ کی اہمیت وافادیت سے بخوبی واقف ہیں ۔

نزاع واختلافات سے اجتناب

جھگڑے واختلافات سے گھراجڑ جاتے ہیں،خاندان بکھرجاتے ہیں،ملک بک جاتے ہیں ،تنظیمیں ٹوٹ جاتی ہیں ،قومیں بربادہوجاتی ہیں ،اگرذمہ دارواساتذہ میں اختلافات پیداہوجائیں ،تو مدارس ویران ہوجاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: واطیعواللہ، ورسولہ ،ولاتنازعوا،فتفشلو،وتذھب ریحکم، واصبروا ،ان اللہ مع الصابرین ۔(الانفال : ۴۶) اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت وفرمانبرداری کرو،آپس میں جھگڑانہ کرو کہ تم ناکام اوربے رعب ہوجاؤ ،صبرکرو،اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہیں۔

اگرمدارس کے ذمہ داروں(عمومی معنی) میں اختلاف ہوگا ،مدرسہ کی ترقی تنزلی میں بدلے گی،اپنی ذات کی ،ذمہ داروں کی اورمدرسہ کی بدنامی ہوگی اورمدرسہ ترقی کی راہ سے کوسوںدورہوجائے گا،اگراس طرح کے حالات اورمشکلات پیداہوجائیں،تواس کو خوش اسلوبی سے اپنے بڑوں سے حل کرانا چاہئے نیز ان مصائب وحوادث پر صبرسے کام لینا چاہئے۔ ان شاءاللہ۔اللہ کی مددونصرت آئے گی ۔

حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ فرماتے ہیں : مشیرانِ مدرسہ کوہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اورخوش اسلوبی ہو ،اپنی بات کی پچ نہ کی جائے ،خدانخواستہ جب اس طرح کی نوبت آئے گی کہ اہل مشورہ کو اپنی مخالفت رائے اوراوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوارہو،تو پھراس مدرسہ کی بنیادمیں تزلزل آجائے گا ،مدارس کاقیام،تحفظ اورترقی کے اصول

اخلاص نیت

مدرسہ کی جس نوعیت کی بھی خدمت ہم سے متعلق ہو، اس اللہ کی رضاءاور دینِ اسلام کی اشاعت وحفاظت کے لئے کرنا چاہئے ،عمل خواہ کتناہی بڑاہو،اگروہ اللہ کی رضا کے لئے نہ ہو،تو دنیوی مقاصد ممکن ہے حاصل ہوجائیں؛لیکن قیامت میں وبال کا سبب ہوگا ،جیساکہ حضرت ابوہریرة ؓ کی مشہورحدیث میں عالم ،سخی اورمجاہد کے احوال ذکرکئے گئے ہیں اورجوعمل اللہ کے لئے نہ ہو،اس میں برکت نہیں ہوتی اور دیرپا بھی نہیں ہوتا ،لہذا ضروری ہے کہ مدرسہ کی جس نوعیت کی بھی ہم خدمت انجام دے رہے ہوں، اس کو اللہ کا فضل اوراس کی عظیم نعمت سمجھیں اور اپنے عہدوں اور کارناموں پراترانا نہیں چاہئے اورکسی عمل کو لوگوں کو دکھانے کے لئے کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ولاتکونواکاالذین خرجوامن دیارھم بطرا،وریاءالناس ،ویصدون عن سبیل اللہ ،واللہ بمایعملون محیط۔ (الانفال : ۴۷)

ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے ،لوگوں کو دکھانے کے لئے اوراللہ کے راستہ سے روکنے نکلے تھے ،اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کی پوری پوری خبرہے ۔

وہ اصول جن پہ یہ مدرسہ اورنیز مدار سِ چندہ مبنی معلوم ہوتے ہیں

قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ دینی مدارس کاقیام خصوصا دارالعلوم دیوبند کے قیام وبقاءاورترقی کے لئے جودستورالعمل تجویز فرمایاہے وہ پیش ِخدمت ہے ،بقول حضرت حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب ؒ اصول کا متن حضرت والاکے قلم کا لکھا ہوا ہے اور دارالعلوم دیوبند کے خزانہ میں محفوظ ہے

جس کا عنوان ہے: وہ اصول جن پہ یہ مدرسہ اورنیز مدار سِ چندہ مبنی معلوم ہوتے ہیں (خطبات حکیم الاسلام ۲۵۳/۹) الف:اصل اول یہ ہے کہ تامقدورکارکنانِ مدرسہ کو ہمیشہ تکثیرچندہ پرنظررہے ،آپ کوشش کریں،اوروں سے کرائیں،خیراندیشانِ مدرسہ کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے ۔ ب :ابقائے طعام ِطلبہ؛ بلکہ افزائش طلبہ میں جس طرح ہوسکے خیراندیشانِ مدرسہ ہمیشہ ساعی رہیں

مشیران ِمدرسہ کوہمیشہ مدرسہ کی خوبی اورخوش اسلوبی ملحوظ ہونی چاہئے

ج:مشیران ِمدرسہ کوہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اورخوش اسلوبی ہو ،اپنی بات کی پچ نہ کی جائے ،خدانخواستہ جب اس طرح کی نوبت آئے گی کہ اہل مشورہ کو اپنی مخالفت رائے اوراوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوارہو،تو پھراس مدرسہ کی بنیادمیں تزلزل آجائے گا ،القصہ تہہ دل سے بروقت مشورہ اورنیز اس کے پس وپیش میں اسلوبی مدرسہ ملحوظ رہے ،سخن پروری نہ ہو اور اس لئے ضروری ہے کہ اہل مشورہ اظہاررائے میں کسی وجہ سے متامل نہ ہوںاورسامعین بہ نیت نیک اس کوسنیں،یعنی یہ خیال رہے کہ اگردوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی، تواگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو،بدل وجان قبول کریں گے

اورنیز اسی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ مہتمم امورمشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشورہ کرے ،خواہ وہ لوگ ہوں جوہمیشہ مشیرِمدرسہ رہتے ہیں یاکوئی واردوصادرجوعلم وعقل رکھتاہواورمدرسوں کا خیراندیش ہواورنیز اس وجہ سے ضرورہے کہ اگراتفاقا کسی وجہ سے اہل مشورہ سے مشورے کی نوبت نہ آئے اوربقدرضرورت اہل مشورہ کی مقدارمعتدبہ سے مشورہ کیاگیاہوتواس وجہ سے ناخوش نہ ہو کہ مجھ سے کیوں نہ پوچھا ،ہاں اگرمہتمم نے کسی سے نہ پوچھا ،توپھراہل مشورہ معترض ہوسکتے ہیں ۔

د:یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین ِمدرسہ باہم متفق المشرب ہوں اورمثل علماءروزگارخودبیں اوردوسروں کے درپئے توہین نہ ہوں،خدانخواستہ جب اس کی نوبت آئے گی تواس مدرسہ کی خیرنہیں ۔ ہ:خواندگی مقررہ اس اندازسے جوپہلے تجویز ہوچکی ہے یا بعدمیں کوئی اورانداز مشورہ سے تجویز ہوپوری ہوجایاکرے ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آبادنہ ہوگا اواگرہوگا تو بے فائدہ ہوگا ۔

جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ ۔ان شاءاللہ۔ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا

و:اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ ۔ان شاءاللہ۔ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اورکوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیریاکارخانہءتجارت یاکسی امیرمحکم القول کا وعدہ تو پھریوں نظرآتاہے کہ یہ خوف ورجاجوسرمایہ رجوع الی اللہ ہے، ہاتھ سے جاتارہے گا اورامدادغیبی موقوف ہوجائے گی اورکارکنوں میں باہم نزاع پیداہوجائے گا ،القصہ آمدنی اورتعمیروغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسانی ملحوظ رہے ۔ ز:سرکارکی شرکت اورامراءکی شرکت بھی زیادہ مضرمعلو م ہوتی ہے ۔ ح:تامقدورایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب ِبرکت معلوم ہوتاہے جن کو اپنے چندہ سے امیدناموری نہ ہو،بالجملہ حسنِ نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتاہے ۔

مولانا محمدعلی جوہر کے آنکھوں میں آنسوں آگئے

تحریک ِخلافت کے موقع پرمولانا محمدعلی جوہرمرحوم دارالعلوم دیوبندآئے اورحضرت نانوتویؒ کے اصول ہشت گانہ دیکھے، تو مولانا محمدعلی جوہر کے آنکھوں میں آنسوں آگئے اورفرمایا کہ ان اصول کا عقل سے کیا تعلق ہے ؟یہ تو خالص الہامی ومعرفت کے سرچشمے سے نکلی ہوئی باتیں ہیں ،سوبرس کے بعددھکے کھاکرہم جس نتیجے پرپہنچے ہیں، حیرت ہے کہ یہ بزرگ پہلے ہی اس نتیجے پرپہنچ چکے ہیں ۔(تاریخ دارالعلوم ۱۵۲/۱)

ہم سب کے لئے دفعہ نمبرتین اوراساتذہ کے لئے بطورخاص دفعہ نمبرچاراور پانچ میں غورکرنے کی ضرورت ہے، آپسی اتحاد ،اجتماعیتِ قلوب،مدارس کے تحفظ اورترقی وکامیابی کے لئے جن نکات کو عرض کیا گیا، قرآن پاک میں ان تمام کی طرف اشارہ موجودہے اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :

یاایھاالذین اذالقیتم فئة ،فاثبتوا، واذکرواللہ کثیرا،لعکم تفلحون (الانفال :۴۵)

اے ایمان والو!جب جہادمیں کسی جماعت سے لڑو،تو ثابت قدم رہواوراللہ کا خوب ذکرکرو،تم کامیاب ہوجاؤ۔

اس آیت کے اشارةالنص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے جب کسی اہم دینی کام کوشروع کریں،تو صبرواستقامت کے ساتھ جمے رہنا چاہئے اوراللہ کا ذکرجس میں تمام طاعتیں اوردعاءداخل ہیں بکثرت کرناچاہئے، یعنی کامیابی سے مایوس اورناامید ہوئے بغیر صبرواستقامت کے ساتھ محنت اوردعاؤں میں لگناچاہئے ،ذکرسے دلوں میں قوت اور طمانیت پیداہوتی ہے جس کی دینی امورمیں اشدضرورت ہوتی ہے۔

حسبنا اللہ، ونعم الوکیل

قاری امیرالحسن صاحب ؒ ایک مرتبہ جامعہ غیث الہدی بنگلورتشریف لے آئے ،مہتمم جامعہ مفتی محمداسلم صاحب رشادی دامت برکاتہم نے حضرت سے جامعہ کے مقروض ہونے کی خبردیتے ہوئے دعاؤں کی درخواست کی، تو حضرت والا نے ایک وظیفہ بتایا جس کا اہتمام کرنے میں مدارس کی ضروریات کی تکمیل ،شروروفتن اورحوادث سے حفاظت حاصل ہوتی ہے

الف:حسبنا اللہ، ونعم الوکیل ،۳۴۱مرتبہ برائے حفاطت از شروروفتن،ب: ۳۰۸مرتبہ برائے وسعت ِرزق وادائے قرض ،ج: ۱۴۰ مرتبہ برائے حفاظت ازحوادث،د:۱۱۱مرتبہ کارِخاص کے لئے مجرب ہے۔

حضر ت مہتمم صاحب فرماتے ہیں :جب جامعہ میں اس وظیفہ کا اہتمام ہوتا ہے ،تو الحمدا للہ اطمینان ہوتاہے، جب اس میں غفلت ہوتی ہے ،تو پریشانیوں اورمشکلات کاخطرہ رہتاہے ،لہذا ہمارے مدارس میں اس کابھی اہتما م ہونا چاہئے ۔

مولانا سیدشبیراحمدعثمانی ؒ تحریرفرماتے ہیں

واطیعواللہ ورسولہ الخ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت وفرمانبرداری کرو،آپس میں جھگڑانہ کرو کہ تم ناکام اوربے رعب ہوجاؤگے ،صبرکرواللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہیں ،حضرت مولانا سیدشبیراحمدعثمانی ؒ تحریرفرماتے ہیں : ”معلوم ہواکہ دولت ،لشکراورمیگزن وغیرہ سے فتح ونصرت حاصل نہیں ہوتی ،ثابت قدمی ،صبرواستقلال ،قوت وطمانیت ِقلب ،یادِالہی ،خداورسول اوران کے قائم مقام سرداروکی اطاعت وفرمانبرداری اورباہمی اتفاق واتحادسے حاصل ہوتی ہے“ ۔(فوائد عثمانی )

معلوم ہوکہ مدرسہ کی خدمت کرنے والوں میں اگراختلاف ہوجائے، تو کام کرنے والوں کی قوت ٹوٹتی ہے نیز اپنا وقارمجروح ہوتاہے ،اپنی ذات کی اور مدرسہ کی بدنامی ہوتی ہے اورمدرسہ ترقی سے کوسوںدورہوجاتاہے ۔ ولاتکونواکالذین خرجوا الخ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اورلوگوں کو دکھانے کے لئے اوراللہ کے راستہ سے روکنے نکلے تھے ،اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ مدارس کاقیام،تحفظ اورترقی کے اصول

خلاصہءکلام یہ ہے کہ مدارس کاقیام اور مدارس کی ترقی کے لئے ذمہ داران اوراساتذہ مخلص ،باہم معاون بن کر،الفت ومحبت، ایک دوسرے کا ادب واحترام کرتے ہوئے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشورہ کے ساتھ خدمت میں لگنا چاہئے،ا ن شاءاللہ اپنی ذات کی بھی ترقی ہوگی اورمدرسہ کی بھی ترقی ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوعمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین عبداللطیف قاسمی (مذکورہ مقالہ:مدارس کاقیام،تحفظ اورترقی کے اصول، ذمہ داران مدارس کی ایک مجلس میں پیش کیا گیاتھا )