تلاوت قرآن جہرًا افضل یا سرًا

تلاوت قرآن جہرًا افضل ہے یا سرًا:اس کے متعلق بہت ساری احادیث مروی ہیں جو بلندآوازسے تلاوت کرنے کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں،بہت ساری روایات سرًاپڑھنے کی فضیلت میں آئی ہیں

ابوحامدامام غزالیؒ نے فرمایا : ان احادیث اور آثار میں تطبیق کا طریقہ یہ ہے کہ سرًاتلاوت کرنا ریاکاری سے محفوظ طریقہ ہے، لہذا یہ طریقہ اس شخص کے لئے افضل ہے جسے ریاکاری کا خوف ہو۔

اگرریائی کاری کا خوف نہ ہو،تو اس کے لئے بلند آواز سے تلاوت کرنا افضل ہے ،اس لئے کہ اس میں عمل زیادہ ہے ، اس کا فائدہ متعدی ہے او رمتعدی لازم سے افضل ہے۔

نیز آواز کی بلندی قاری کو بیدارکرتی ہے،اس کے ذہن کو یکسو رکھتی ہے ،کان کو اس کی طرف متوجہ کئے رہتی ہے ،نیند کو دور کرتی ہے ،چستی کو بڑھاتی ہے اوردوسروں کو جو سورہے ہوں یا غافل ہو ں ،ان کو متنبہ کرتی ہے۔

علما ءنے فرمایا :جب ان امور کی نیت ہو،تو بلندآواز سے تلاوت کرنا مستحب ہے ،نیز جب یہ نیتیں جمع ہوجائیں، تواجر کئی گنا بڑھ جاتاہے ،اسی وجہ سے امام غزالیؒ نے فرمایا : دیکھ کر تلاوت قرآن پڑھنا افضل ہے ۔

حدیث صحیح میں حضرت ابوہریرةؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا

مااذن اللہ لشیءمااذن لنبی حسن الصوت یتغنی بالقرآن یجھربہ۔ (رواہ البخاری ومسلم)

اللہ تعالیٰ کسی کی آواز کی طرف اتنی توجہ نہیں دیتے ،جتنی توجہ اس نبی کی آواز کی طرف دیتے ہیں جو خوبصورت وبلندآواز سے قرآن پاک پڑھ رہے ہوں۔

یعنی غور سے سنتے ہیں، یہ رضامندی وقبولیت کی جانب اشارہ ہے ۔

ابوموسی اشعری ؓ کو لحن داؤدی دی گئی

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما یا

لقد اُوتیتَ مزمارا من مزامیر آل داؤد۔ (رواہ البخاری ومسلم)

تمہیں داؤد علیہ الصلوة والسلام کے آواز وں میں سے ایک آواز دی گئی ہے ۔

مسلم شریف کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا

لقد رایتنی وانا اسمع لقرائتک البارحة

میں نے اپنے آپ کو گذشتہ رات تمہاری قراءت سنتے ہوئے پایا ۔

حضرت فضالہ بن عبید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما یا

للہ اشد اذنا الی الرجل حسن الصوت بالقرآن من صاحب القینة الی قینتہ۔(رواہ ابن ماجة )

حق تعالیٰ شانہ اس خوش الحان قاری کی آواز کی طرف اس شخص سے زیادہ کان لگا تے ہیں جو اپنی گانے والی باندی سے گانا سن رہاہو ۔

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما یا

انی لاعرف اصوات رفقة الاشعریین باللیل حین یدخلون ،واعرف منازلھم من اصواتھم بالقرآن باللیل ،وان کنت لم ارمنازلھم حین نزلوا بالنھار ۔(رواہ الخاری ومسلم)

میں اشعری ساتھیوں کو ان کی آواز سے پہچان لیتاہوں جب وہ رات میں آتے ہیں اوررات میں ان کی آواز سے ان کے قیام گاہوں کو پہچان لیتاہوں،اگرچہ میں نے انھیں دن میں فروکش ہوتے ہوئے دیکھانہ ہو۔

قرآن ِپاک کو اپنی آواز سے مزین کرو

حضرت براءبن عازب ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرما یا

زینواالقرآن باصواتکم ۔(رواہ ابوداؤد ،والنسائی ،وغیرھما )

قرآن ِپاک کو اپنی آواز وں سے مزین اور خوبصورت بناﺅ۔

ابن ابی داؤد ؒنے حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے روایت کی ہے آپؓ نے مسجد میں ان لوگوں کی آوزیں سنیں جوقرآن پاک پڑھ رہے تھے ،آپؓ نے فرمایا

طوبی لھٰولاءکانوا احب الناس لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

مبارک بادی وخوشخبری ہو اِن لوگوں کے لئے ،یہی لوگ اللہ کے نبی علیہ الصلوة والسلام کے سب سے زیادہ محبوب تھے ۔

جہرًا تلاوت قرآن افضل ہے بشرطیکہ کسی کو تکلیف نہ ہو

جہرًا تلاوت قرآن کی اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے اپنے اورپر ریاکاری ،خود پسندی اور دیگربرائیوں کا خوف نہ ہو ۔

نیز جہرًاتلاوت کرنے سے نماز پڑھنے والوں کو تکلیف اور ان کی نمازوں کی خراب کرنے کا سبب نہ بنے ،بعض اکابر مذکورہ باتوں سے بچنے کے لئے سری تلاوت کو ترجیح دیتے تھے ۔

حضرت اعمش ؒ فرماتے ہیں :میں ابراہیم ؒ کی خدمت میں حاضرہوا ،آپ تلاوت کررہے تھے ،میں اندرداخل ہونے کی اجازت طلب کی ،تو آپ ؒنے قرآنِ پاک پر پردہ ڈال دیا او رفرمایا میں نے مصحف پرپردہ ا س لئے ڈالا تاکہ دیکھنے والا یہ نہ سمجھے کہ میں ہر وقت تلاوت کرتے رہتاہوں ۔

ابوالعالیةؒ کہتے ہیں :میں حضرات صحابہ کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھا تھاکہ ان میں سے ایک ساتھی نے کہا کہ میں نے رات میں قرآ ن پاک کی اتنی مقدار پڑھی ،تو دیگر حضرات نے فرمایا کہ یہ قرآن میں سے تمہارا حصہ ہے۔(یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کی توفیق عطافرمائی) ۔

سری تلاوت کے افضل ہونے کی دلیل

جو حضرات سری تلاوت کو افضل کہتے ہیں وہ حضرت عقبہ بن عامر ؓ کی روایت سے استدلا ل کرتے ہیں۔

حضرت عقبہؓ فرماتے ہیں :میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :

الجاھر بالقرآن کالجاھر بالصدقة ،والمسر بالقرآن کالمسر بالصدقة ۔(رواہ ابوداؤد ،والترمذی ،والنسائی ،وقال الترمذی حدیث حسن )

جو شخص بلند آوازسے تلاوت کرتاہے، وہ علانیہ صدقہ کرنے والے کے مانند ہے اور جو شخص سرًا تلاوت کرتاہے، وہ چپکے سے صدقہ کرنے والے کے مانند ہے ۔

امام ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص سرًا تلاوت کرتاہے ،وہ افضل ہے جہرًاتلاوت کرنے والے سے ،اس لئے کہ چپکے سے کیا جانے ولا صدقہ اہل علم کے نزیک افضل ہے علانیہ صدقہ سے ۔

امام ترمذی نے فرماتے ہیں : اس حدیث کا مذکورہ مطلب اہل علم نے اس لئے مراد لیاہے تاکہ قاری خود پسندی سے محفوظ رہے ،اس لئے کہ جو چپکے سے عمل کرتاہے ،اس کو خود پسندی کا خوف نہیں رہتا جیساکہ علانیہ عمل کرنے سے عجب کا خوف رہتاہے ۔

علامہ نوویؒ فرماتے ہیں: امام ترمذی کی بات سے ہماری ان شرائط کی تائید ہوتی ہے جن کو ہم نے شروع میں بیان کیا ،لہذا بلند آوازسے تلاوت کرنے سے مذکورہ باتوں کا خوف ہو،تو آہستہ تلاوت کرے ۔

اگر ان خرابیوں کا خوف واندیشہ نہ ہو ،تو بلند آواز سے تلاوت کرنا مستحب ہے ،اگرکوئی جماعت اکٹھے ہوکر تلاوت کررہی ہورہو، تو بھی بلند آوازسے تلاوت کرنا چاہئے، ا س لئے کہ تلاوت قرآن جہرًا کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے ۔(حاملین قرآن : ۷۹تا۸۲)