حج عاشقانہ عبادت

حج عاشقانہ عبادت :شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ تحریر فرماتے ہیں :علماءمحققین کے نزدیک روزہ اور حج جمالی عبادات ہیں جواللہ تعالیٰ کی صفت جمال کا مظہر ونمونہ ہیں ،جب کوئی شخص کسی کی محبت وعشق میں گرفتارہوتاہے،جامِ محبت نوش کرتاہے ،توعشق کاپہلامرحلہ جس کوعاشق طے کرتاہے،وہ دل کو محبوب کے سوا تمام چیزوں سے خالی کرتاہے ،پھر محبوب کے خیال وتصورمیں پراگندہ حال وپریشان دل کے ساتھ محبوب کے وطن ،شہر ،گلی اور کوچوں کی طرف چل دیتاہے تاکہ محبوب کی ایک جھلک ہی سہی دیکھ لے اور اس کو پانے کے لئے محبوب کے در ودیوار کے چکر لگاتاہے ، یہ محبو ب سے سچی محبت وعشق کی علامات ہوتی ہیں ۔

روزہ تخلیہ قلوب

اسی طریقہ پر محبوب حقیقی کے عشاق جن کے دل میں اس کی عشق ومحبت کی آگ لگی ہو،وہ اللہ تعالیٰ کے گھر ۔جس کو اس نے” وادی غیر ذی ذرع“ میں بسایا ہے، جس گھر کاچکر ہرنبی علیہ السلام نے لگایاہے ۔کی زیارت کے لئے بے تاب وبے قرار رہتے ہیں ،اس عشق ومحبت کا پہلا زینہ دل کو ماسوی اللہ سے خالی کرلینااورہر اس چیز سے اجتناب کرناجو اللہ جل جلالہ سے غفلت پیداکردے۔

بنیادی طورپر اللہ تعالیٰ سے بندہ کو غافل کرنے والی چیزیں شہوت بطن ،وشہوت فرج ہیں(کھانا،پینا اورجماع کرنا)یہ تینوں چیزیں کائنات کا خلاصہ ہیں،روز ہ کی حقیقت ان دو شہوتوں کو توڑناہے ،لہذا عاشقان خداکی پہلی منزل روزہ ہے ،جب بندہ روزہ کے ذریعہ اپنے عشق ومحبت پر دلیل قائم کرتاہے ،(گویا روزہ تخلیہ کا سبب ہے )اور اپنے دل کو اس کی محبت وعشق سے معمور ومخمور کرلیتاہے ۔(حج عاشقانہ عبادت)

اب اس کے دل میں محبوب کے شہرجس کو اس نے ” وادی غیر ذی ذرع“ کے ویرانہ میں اپنی بستی فرمایا، عالم کے بت کدہ میں اپنا سب سے پہلا گھر بنایا اوراس کے سب سے پہلے عاشق و خلیل نے جو اس کے نام پر آگ میں کو د پڑنے والے ابراہیم اور اس کی راہ میں اپنے کو ذبح کے لئے پیش کرنے والے اسماعیل علیھماالسلام سے تعمیر کروایا ہے ، اس گھر کے درودیوار کو اپنی آنکھوں اور ہونٹوں سے لگانے کا جذبہ وشوق ان کو بے قرار وبے چین رکھتاہے ،یہی جذبہ وشوق انہیں وطن ،عزیز واقارب اور دوست واحباب کو چھوڑنے ،صحراءوبیابان ،دشت وجبل ،دریا وسمند رکو طے کرنے اور سفر کی تمام صعوبتیں ومشقتیں جھیلنے پر مجبو کر تاہے ،(گویا حج تحلیہ ہے (فتح الملہم۱۸۰/۱)

خوش نصیب ارواح ہی کو حاضری کی سعادت

خیال کاپرندہ بہت سارے آشیانوں کی سیر کرتاہے؛ لیکن ان ہی پاکیزہ وخوش نصیب عشاق کی روحوں کو اپنا مسکن بناتاہے جنہوں نے ابو الانبیاءسیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نداءدل گدازپر لبیک کہی ہو ،یہ بابرکت وقدسی صفات والی ارواح اس مقدس گھر کی زیارت اور دیدار کے بغیر تسکین نہیں پاتیں ہیں۔

چنانچہ یہ عاشقانِ خدا بدن پر مجنونہ لباس ،عاشقانہ ہیئت ،عشقِ خدااورسول کی محبتِ بے کراں سے سرشار ،ماسوی اللہ سے بے گانہ ہوکر سفر کی صعوبتوں،کلفتوں اور بُعدِ مسافت کی پرواہ کئے بغیر معشوقِ حقیقی کے دیار کی جانب زباں پرعشقیہ ودل کی گہرائیوں سے نکلنے والے دل گداز”لبیک، اللہم لبیک، ”لبیک ،لا شریک لک، لبیلک ،ان الحمد والنعمة، لک والملک ،لاشریک لک “کی پر تاثیر صدائیں اورپر نم آنکھوں کے ساتھ رواں دواں ہوتے ہیں،نماز کے بعداٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے ،اترتے چڑھتے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے زباں پر یہی عشقیہ نغمات رہتے ہیں ۔

جب کعبہ پہ پڑی پہلی نظر

جب محبوب کے شہر میں داخلہ ہوتاہے ،تو دل لرزجاتے ہیں، آنکھیں بے قابو ہوکر آنسوں کی لڑیاں بہاتی ہیں،دل مسرت وفرحت ،خوف وخشیت کے عجیب سنگم سے سرشار،زبان سجدہ شکر وامتنان سے لبریزاور زبان قال سے دل سوز آوازمیں تلبیہ جاری ہوجاتاہے ،جیسے ہی محبوب کے گھر پر نظر پڑ ی پڑی کی پڑ ی رہ جاتی ہے، اس گھڑی کی کیفیت کن لفظوں میں بیان ہو ،نہ زبان اپنے قابو میں، نہ دل اپنے اختیارمیں اوردبی دبی آوازمیں” اللہم زد ھذاالبیت تشریفًا وتعظیمًا وتکریمًا مھابةً،وزد من شرفہ ،وکرمہ ممن حجہ واعتمر“کے دعائیہ کلمات بے ساختہ جار ی ہوتے ہیں۔

زبان حال سے یو ں کہتاہے جس گھر کو تونے اپنا گھر کہہ کر پکارا ہے ،اس کا صحن تو تیرے نام پر ذبح ہونے والے اسماعیل اور آگ میں کو د پڑنے والے ابراہیم کے قابل تھا ،جس گھر کو تونے پاک گھر قرار دیاہے، اس کے درودیوار کو اپنے آنکھوں اور ہونٹوں سے لگانے والے تو صرف تیرے پاک وپاکیزہ ،نکھرے اور ستھرے عشاق ہی ہوسکتے ہیں۔

جس گھر کی طرف تیرے حبیب اور تیرے بندوں کے سردار نے دن کی روشنی اور رات کی تاریکیوں میں بے شمار سجدے کئے ہوں اوران گنت وبے حساب باراپنے سروں کو جھکایاہو ،اس کی چاردیواری تو صرف نور کے بنے ہوئے فرشتوں اور رحمت ومقبولیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے صدیقین وکاملین کے طواف کے لائق تھی،وہاں آج کس کو باریاب کررہاہے ؟کس ننگ خلائق کا دماغ عرش پر پہنچارہاہے ؟کس گندہ اورہرگندگی سے گندہ تر زبان سے لبیک کہلارہاہے ؟یہ بیداری ہے یاخواب ؟اگر خواب ہے، تو ہزاروں اس مبارک خواب پر قربان ،اگر بیداری ہے، توکوئی حقیر وذلیل ناپاک مشت خاک اپنے جذبات کے ظاہر کرنے کے لئے لفظ وعبارت کہاں سے لائے! کسی کی دعاکا اثردیکھ آئے ۔حج عاشقانہ عبادت

طواف اورصفاومروہ کی سعی

پھر یہ مجنون عشقِ الہی میں مست و مدہوش ہوکر معشوق کے در ودیوار کے بو سوں سے قلب وروح کو سامانِ تسکین فراہم کرتے ہوئے کبھی مستانہ چال ،کبھی دیوانہ رفتار سے خانہ ءمعشوق کے چکر کاٹتے ہوئے مقام ابراہیم پر حاضر ہوکر سجدہ شکر بجالاتے ہیں،پھر میخانہءزمزم پر پہنچ کر جام زمزم کے فرحت آفریں گھونٹ پیتے ہیں اور بدن کے رواں رواں کو سیراب کرتے ہوئے صفاومروہ کی پہاڑیوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنی دادی ابن الذبیحین سر کا ردوعالم ﷺکی مادر محترم کی یاد تازہ کرتے ہوئے دوڑ لگاتے ہیں۔

منی کی وادی اورعرفات کا میدان

پھر مالک حقیقی ومحبوب حقیقی کی اوامر کا امتثال، امت مسلمہ کے بانی وجدامجد حضرت سیدنا ابراہیم ،حضرت ھاجرہ اور حضر ت اسماعیل علیھم السلام کی یاد زندہ وتابندہ کرنے کے لئے منیٰ کی گھاٹیوں میں اپنے محلات وبنگلات کی راحت وسکون کو قربان کرتے ہوئے قیام کرتے ہیں ۔

پھر میدان عرفات میں خیمہ زن ہوتے ہیں جہاں نہ سردی وگرمی سے پچاؤ کا انتظام ،نہ دھوپ وبارش سے سر چھپا نے کا کوئی نظم، اس میدان میں بچے ،بوڑھے ،مرد ،عورتیں،عرب وعجم ،کالے وگورے ،فقیر وامیر ،رئیس ومزدور، خوش حال ومفلس، عالم وجاہل اورناموروگم نام سب ایک ہی لباس میں ملبوس، آج کس سے کس کو پہچانا جائے ؟

آج وہ دن ہے کہ خو د مالک اپنے بندوں پر فخر کرتاہے

یہ دن عشاق کی نوازشوں وعنایتو ں کا ہے ،آج کی رحمتوں کی نہ کوئی حد ہے، نہ حساب ،نہ کوئی اندازہ ہے نہ پیمانہ، بڑے بڑے مجرم آج رہا کئے جاتے ہیں ،سب کو عفو کی بشارت ہوتی ہے ،محبوب ہمہ رحمت ومرحمت اور ہمہ شفقت ومغفرت ہے، اس کی تجلیات ِرحمت امت کے بڑے سے بڑے تباہ کار کو اپنے آغوش میں لے لیتی ہے او راسی کومولی ٰاپنے بندوں سے قریب آجانے سے تعبیر کرتاہے اور بندوں نے تو اپنے مالک پر خدامعلوم کتنی بار فخر کیاہوگا ،آج وہ دن ہے کہ خو د مالک اپنے بندوں پر فخر کرتاہے۔

آج کا دن دعاء،مناجات ،توبہ واستغفار ،الحاح وزاری جھکنے اور گڑگڑانے کے لئے مخصوص ہے جتنا اور جہاں تک ممکن ہو، مانگنے کا دن ہے، ہمہ جو د وکرم اورہ ہمہ بخشش وعطا بے حساب دینے والا بخشنے او رلٹانے پر آجائے تو خاک کا پتلا جو ہمہ فقر ،ہمہ طلب ،ہمہ احتیاج ا ورہمہ درماندگی ہے، مانگنے میں اور طلب کرنے میں کوئی کسر کیوں اٹھارکھے؟ دین ودنیا کی نعمتوں کا کوئی ارمان اور کوئی حوصلہ دل میں کیوں رہنے دے ؟ان ہی ربانی نوازشوں ،جود وکرم کو شیطان دیکھ کر اپنے سرپرخاک انڈیلتااور ذلیل وخوارہوتارہتاہے۔

سمجھے تھے سیہ کاری اپنی ہے فزوں حد سے ٭دیکھاتوکرم تیرااس سے بھی سوا پایا

اعمال حج میں رکن اعظم یہی وقوف عرفہ ہے ،جہاں نماز ظہر اور عصر کو جمع کرتاہے اور امیر الحج خطبہءحج پڑھتےہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سورج پیلا پڑتاہے، دلوں میں عجیب مسرت وفرحت محسوس ہوتی ہے چاروں طرف سے صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں کہ حج ہوگیا اور ایک دوسرے کو گرم جوشی کے ساتھ مبارک بادیا ں دینے لگتے ہیں،پھرمزدلفہ کی پہا ڑی میںرات بسر کرنے کے لئے چل دےتے ہیں۔

مزدلفہ سے منی کے میدان میں رمی جمرات ،قربانی اور حلق کے واجبات اداکرنے کے بعد دوبارہ مولی ٰکے دربارمیں حاضری دیتے ہیں جو حج کا دوسرے رکن ہے ،اب یہ عاشقانِ خدا بقول حبیبِ خدا ﷺکے بخشے بخشائے اپنے گھروں کی طرف اس طرح لوٹتے ہیں جیسے ان کی ماںنے انہیں آج ہی جنم دیاہو ۔حج عاشقانہ عبادت

نورکی بستی مدینہ منورکی حاضری

جلال الہی کے تجلیات سے سرشارہوکر ،جمال محمدی کے لئے بے قرار بحالت اشتیاق واضطراب ”منزل “مدینة الرسول ۔زادھا اللہ شرفًا وعظمة۔ہے جہاں کی حاضری ہر غلام کی زندگی کی آخری آرزو وارمان ہوتی ہے ،کیوں نہ ہوں؟ خود آقا مدنیﷺنے فرمایاہو کہ میرے روضہ کی حاضر ی میر ی زندگی کی حاضری ہے؛ لیکن مراد ِشہہ لولاک بھلائیں بھول نہ پائیں ،مدینہ کی گلیاں ،وہاں کے سحروشام ،گنبد خضراءکا پر کشش نظارہ ،منبرومحراب ،روضہءنبوی ﷺکا خاموش وپر کیف منظر ،رفیقان روضہ، جنت البقیع اور بہت کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حج عاشقانہ عبادت

التجاء

مولیٰ ہر بے کس کی لاج تیرے ہاتھ میں ہے !ہر مفلس کا آسرا تیراہی دست کرم ہے !تو زندگی میں اپنے گھر کی شرف یابی سے مالا مال فرمااوربارہا فرما!مردوں کو جلاِنے والے مولیٰ!بے کسوں کی دستگیری کرنے والے آقا!دلوں کے زخم پر مرحم رکھنے والے پروردگار!دعاؤں کو قبول کرنا تیرے قبضہءقدرت میں ہے اور دعاؤں کی توفیق دینا بھی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ،لہذا ہم تمام کو اپنے اور اپنے حبیب ﷺکے دربار کی حاضری کی توفیق اورسعادت باربار نصیب فرما! آمین یارب العلمین

تمام قارئین کرام سے گزارش ہےکہ آپ حضرات اس عاجز وناتواں بندے کے لئے کریم آقاکے دربارمیں بارہا حاضری کی سعادت ونوازش کے لئے دعافرمائیں ،اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آپ کو بھی مع اہل وعیال بارباراس کے در کی حاضری کی سعادت بخشے۔آمین یارب العلمین ۔طالب دعا: عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور۲۳/ذی قعدہ ۱۴۴۱؁ھ م ۱۴/جولائی ۲۰۲۰؁ء ،دینی علمی اوراصلاحی مضامین کے لئے رجوع کیجئے http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com