حضرت بلالؓ مؤذن رسول اللہ ﷺ

حضرت بلالؓ مؤذن رسول اللہ ﷺ،مؤذ نین کے سرخیل،رسول امین کے خزانچی اورآپ ﷺکے خادم خاص کے مختصر حالات آپ ابتداءً اامیہ بن خلف کے غلام تھے۔

نام ونسب آپ کانام نامی اسم گرامی بلال ،والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامة ہے ،آپ کی کنیت کے سلسلہ میں کئی نام آئے ہیں ابو عبداللہ ،ابو عبد الکریم،ابو عمرو، آپ عرب میں پیداہوئے اورآپ کی پرورش وتربیت عربوں کے درمیان ہوئی ،آپ حضرت ابو بکر ؓکے ہم عمر تھے۔(مستدرک۳۱۹/۳)

حافظ ابن عساکر کا اندازہ یہ ہے کے عام الفیل سے تقریبًا تین سال قبل آپ کی پیدائش ہوئی ہے ۔(تاریخ دمشق۴۷۵/۱۰)

(کان مُولَّدا من السراة،(المستدرک للحاکم ۳۱۹/۳ ،اسد الغابة ۲۳۷/۱ ،جاریة مولدة:تولد بین العرب،وتنشأمع اولادھم ،ویغذونھا غذاء الولد۔۔۔وکذالک المولدمن العبید،تھذیب اللغة۴۷۸/۴)

جب آپ نے اسلام قبول کیا ،تو امیہ بن خلف سخت سے سخت تکلیفیں دینے لگا،حضرت ابو بکر صدیق ؓنے پانچ ،سات،نو،چالیس اوقیہ میں(علی اختلاف الاقوال ) امیہ بن خلف سے خرید کر آزاد کردیا۔(اسد الغابة۲۳۷/۱)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ درمیان اوراپنے چچازاد بھائی عبیدة بن حارث بن عبد المطلب کے درمیان بھائی چارگی قائم فرمائی۔(المستدرک ۳۱۹/۳ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر وحضرکے مؤذن اورخادم خاص تھے،غزوہ بدر،احد ،خندق اور تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے

حلیہ

حضرت مکحول فرماتے ہیں:جن لوگوں نے حضرت بلالؓ کی زیارت کی ہے، ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ آپ کا رنگ گندمی ،جسم دبلا پتلا،قدلمبا،پیٹھ میں جھکاؤتھااورہلکے رخساروالے تھے،آپ کے اندرسفیدبالوں کی کثرت تھی؛ لیکن خضاب نہیں لگایاکرتے تھے۔ (المستدرک۳۱۹/۱،اسد الغابة۲۳۹/۱۰،تاریخ ابن عساکر)

رشتہ دار آپ کی والدہ محترمہ حمامہ ،ایک بھائی خالد ،اور ایک بہن عفرة ہیں،ماشاءاللہ ان تمام حضرات نے اسلام قبول کیا ،خود آپ کی کوئی اولا د نہیں ہے ۔(تاریخ ابن عساکر ،الاستیعاب)

زیدبن اسلم اور مقبری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نکاح ابو البکیر کی لڑکی سے کرایا اور حضرت قتادہ نے روایت کی ہے کہ آپ نے بنو زہرہ کی ایک خاتون سے بھی نکاح کیا ہے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد ۲۳۸/۳،بلالؓ بن رباح)

فضائل

حضرت بلالؓ ان خوش نصیب فرزندان ِاسلام میں سے ہیں جنھوں نے شروع زمانہ ہی میں اسلام قبول کیااوردین اسلام کے خاطرخوب ستائے گئے اذیتیں دی گئیں؛لیکن اسلام کو چھوڑ ناپسند نہیں کیا اوردین کے لئے ہرمصیبت برداشت کی اور اسلام پر ثابت قدم رہے۔

حضرت عبداللہؓ بن مسعودفرماتے ہیں:سب سے پہلے جن لوگوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا ،سات افراد ہیں:(۱)جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (۲)حضرت ابوبکرؓ(۳)حضرت عمارؓ ؓ(۴)حضرت سمیہ ؓ(۵) حضرت بلالؓ ؓ(۶)حضرت صہیب ؓ(۷)حضرت مقداد ؓ

اللہ تعالیٰ نے حضر ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓ کی اپنی اپنی قوم کی وجہ سے حفاظت فرمائی ،بقیہ افراد کو مشرکین مکہ لوہے کی زرہیں پہناکردھوپ میں ڈال دیتے اور سخت سے سخت تکلیفیں پہنچاتے ،بہرحال ہرایک کو چھٹکارانصیب ہوا؛لیکن حضرت بلالؓ کی مصیبت دورنہیں ہوئی ، حضرت بلالؓ کومکہ کے لڑکوں کے حوالہ کردیاجاتا کہ وہ گلی کوچوں میں لیکر پھراکریں( یہاں تک حضرت ابوبکر صدیق ؓنے انھیں خریدکر آزادفرمایا)(سیر اعلام النبلاء۲۱۰/۳)

خوش نصیب غلام کے ہاتھوں بدنصیب آقاکا قتل

امیہ بن خلف جمحی ان کفار مکہ میں سے تھاجو حضرت بلالؓ کو سخت سے سخت تکلیفیں پہنچاتاتھا اور تکلیفیں دینے کاحکم کرتاتھا ،اللہ تعالیٰ نے اس نامراد وناکام آقا کی ہلاکت اپنے ہی عزیز غلام کے ہاتھ میں مقدرفرمائی تھی۔

امام بخاری ؒ نے حضر ت عبدالرحمن ؓبن عوف سے روایت کی ہے ، حضر ت عبدالرحمن ؓبن عوف فرماتے ہیں میرے اور امیہ بن خلف کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ وہ مکہ میں میرے اہل ومال کی حفاظت کرے گااورمیں مدینہ میں اس کے اہل ومال کی حفاظت کروں گا،چنانچہ غز وہ بدرمیں جب لوگ سورہے تھے۔

امیة بن خلف، لانجوت، ان نجا

میں امیہ بن خلف کوبچانے کے لئے اس کو پہاڑ کے جانب لے گیا؛ لیکن حضرت بلالؓ کے اس کو دیکھ لیا اور انصار کی ایک جماعت کے پاس جاکر بلند آواز سے چیخے لگے ’’امیة بن خلف، لانجوت، ان نجا“(یہ امیہ بن خلف ہے ،میں نہ بچوں، اگر یہ بچ جائے )

چنانچہ انصار کی ایک جماعت(معاذ بن عفراء،خارجہ بن زید اور خبیب بن یساف اواساف ،الاستیعاب)ہمارے پیچھے پیچھے آنے لگی ،جب مجھے خوف محسوس ہواکہ یہ لوگ ہمارے قریب آگئے ،تو میں امیہ بن خلف کے بیٹے کو ان کے لئے چھوڑ دیا ،تاکہ وہ اس کے ساتھ مشغول ہوجائیں؛لیکن انصار کی یہ جماعت اس کو نمٹاکر دوبارہ ہمارے پیچھے ہوگئی اور ہمارے قریب آگئی۔

میں امیہ بن خلف سے کہا کہ تم جھک جاؤ(گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھوں کو زمین پرکھڑاکردو ) وہ موٹا آدمی تھا،اسی طرح جھک گیا جیسا میں نے کہاتھا ،تو اس کو اپنے جسم سے چھپالیا ؛لیکن یہ لوگ اس کو چھوڑ ے نہیں، میرے پیرکے نیچے سے تلواریں ڈال کر اس کو قتل کردیا اور اس کی وجہ سے میراپیربھی زخمی ہوگیا۔

راوی کا بیا ن ہے کہ حضرت عبد الرحمنؓ ہمیں وہ نشان دکھایا کرتے تھے ۔(بخاری۲۰۸/۱باب الوکالة اذا وکل المسلم حربیا)حضرت عبد الرحمنؓ فرمایاکرتے تھے : اللہ بلال پر رحم کرے ،میرے قیدی کو نقصان پہنچایا اور میرے پیر کوبھی زخمی کردیا،حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے یہ شعر پڑھا

ھنیئا لک زادک الرحمن خیرا٭فقد ادرکت ثارک یابلال

اے بلال تمہارے لئے مبارک بادی ہو ،رحمن تمہارے خوبیوں کو بڑھائے ۔ اے بلال یقیناتم نے اپنا بدلہ حاصل کرلیا ۔ (الاستیعاب۵۵/۱)

آپﷺ کو دنیاہی میں جنت کی بشارت سنائی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دنیاہی میں جنت کی بشارت سنائی ہے ،چنانچہ امام بخاری نے حضرت ابو ھریرة ؓسے امام احمد،حاکم اورترمذی نے حضرت ابوبریدہؓ اسلمی سے روایت فرمائی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کے ایک دن نماز فجر کے بعد دریافت فرمایا : مجھے بتاؤ تم نے اسلام میں سب سے زیادہ قابل ِقبول عمل کونسا کیاہے ؟اس لئے کہ آج کی رات جنت میں میرے آگے آگے تمہاری جوتوں کی آوازمجھے سنائی دے رہی تھی؟حضرت بلال ؓ نے عرض کیا ،کوئی زیادہ قابل ِقبو ل عمل میں نے نہیں کیا ؛البتہ دن ورات میں جب بھی میں وضو کرتاہوں،تو اس وضو سے اللہ تعالیٰ جتنی توفیق دیں نماز پڑھ لیتاہوں۔

مستدرک کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ دن رات میں جس وقت بھی میرا وضو ٹوٹ جاتاہے، تو فورًا وضوکرلیتاہوں۔(بخاری باب فضل الطھور باللیل والنھار۱۵۴/۱مسلم ۲۹۲/۱،المستدرک۳۲۲/۳)،ترمذی عن ابی بریدة مناقب عمر ۲۰۹/۲)

ابو بکر سیدنا ،واعتق سیدنایعنی بلالا

حضرت عمر ؓبن خطاب فرمایاکرتے تھے :ابو بکر سیدنا ،واعتق سیدنایعنی بلالا ،(بخاری مناقب بلال ؓ۵۳۱/۲)حضرت ابوبکر ہمارے سردارہیں اور ہمارے سردار یعنی بلال ؓکو آزادکیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

نعم المرأ بلال ،ھو سید المؤذنین ،ولایتبعہ الامؤذن۔ (رواہ الحاکم عن زید بن ارقم المستدرک،۵۲۴۴)

بلال کیاہی خوش نصیب آدمی ہیں ،مؤذنین کے سردار ہیں اور ہر مؤذن آپ ہی کی اتباع کرتاہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جنت بلال کی شوقین ہے ۔

اشتاقت الجنة الی ثلثة: علی ،وعمار ،وبلال۔ھذا حدیث صحیح ولم یخرجاہ (تلخیص الحبیررقم ۴۶۴۹)

امیہ بن خلف آپ کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت میں سیدھالٹاکر سینہ پر پتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتا تاکہ آپ حرکت نہ کرسکیںاور کہتاکہ اسی حال میں مرجاؤ، اگر زندگی چاہتے ہو، تو اسلام سے پھرجاؤ؛لیکن حضرت بلالؓ مصیبتوں کو برداشت کرتے اور” احد احد “کہتے علماءنے فرمایا: اسی کی برکت سے اسلام میں سب سے پہلی دی جانے والی اذان کہنے کا شرف وفضیلت اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو عطا فرمایا۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ میں رہنا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے جگہ کو خالی دیکھنا مشکل ہوگیا ،اس لئے ارادہ کیا کہ اپنی زندگی کے بقیہ ایام جہاد میں گزاردیں،یہ سوچ کر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا،اے اللہ کے رسول کے خلیفہ وجانشین !میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :

مؤمن کا سب سے بہترین عمل اللہ کی راہ میں جہاد کرناہے ،حضرت ابو بکر صدیقؓ نے پوچھا ،اے بلال !تم کیا چاہتے ہو؟عرض کیا ،میں اللہ کی راہ میں سرحدوں کی حفاظت میں بقیہ زندگی گزارنا چاہتاہوں،حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا:اے بلال !میں تمہیں اللہ کی قسم دیتاہوں اور میرے حق کا واسطہ دیتاہوں ،میں بوڑھاوکمزورہوچکا ہوں ،میری موت کا وقت قریب آچکا ہے ،(لہذا تم میرے ہی پاس قیام کرو)،تو حضرت بلال ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ ہی آپ کی وفات تک مدینہ میں قیام فرمایا۔

حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ کی خدمت میں وہی درخواست کی ،حضرت عمر ؓ نے مدینہ ہی میں قیام کی فرمائش کی ؛لیکن حضرت بلالؓ یارنہیں ہوئے ،تو حضرت عمر ؓ نے پوچھا ،اب اذان کی ذمہ داری کس کے سپرد کروں ؟حضرت بلالؓ نے عرض کیا ،حضرت سعد (القرظ ) کو مؤذن بنادیجئے ،انھوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اذان دی ہے ،چنانچہ حضرت عمر ؓنے حضرت سعدؓ اور آپ کی اولاد کو مؤذن بنادیا۔ (سیر اعلام ۲۱۷/۳،اوردہ الھیثمی فی المجمع ،وقال فیہ عبد الرحمن بن سعد بن عمار ،وھو ضعیف ،طبقات سعد ۲۳۶/۳،ابن عساکر )

حضرت بلالؓ نبی ﷺ کے بعد کسی کے لئے اذان نہیں دی

ولید بن مسلم کہتے ہیں:سعید بن مسلم ،ابن جابر وغیرہ حضرات نے مجھے خبر دی ہے کہ حضرت بلالؓ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے اذان نہیں دی اور جہاد میں جانے کا ارادہ کیا، تو حضرت ابوبکر ؓ نے منع فرمایا، تو حضرت بلالؓ نے عرض کیا ،اگر آپ نے مجھے اللہ کے لئے آزاد کیا ہے، تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں،اس بات پر حضرت ابو بکر ؓ خاموش ہوگئے اور حضرت بلال ملک شام چلے گئے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ ”جابیہ“ تشریف لے گئے ،ساتھیوں نے حضرت عمر ؓ سے درخواست کی کہ حضرت بلالؓ کو اذان کی فرمائش کی جائے،چنانچہ حضرت عمرؓنے حضرت بلال ؓ کو اذان کی فرمائش کی، آپ نے اذان دی ،اس دن سے زیاد کسی اور دن مسلمانوں کو زیادہ روتے ہوئے دیکھا نہیں گیا۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوجانے کی وجہ سے) (سیر اعلام ۲۱۷/۳بلااسناد ،ابن عساکر ،فتح الباری ،عمدة القاری،باب الوکالة،طبقات ابن سعد ۲۳۶/۳)

رسول اللہ ﷺکے وصال کے بعدروضہءاقدس پرحاضری

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ نے ذکرفرمایا ہے : حضرت بلالؓ ایک عرصہ تک مدینہ منورہ لوٹ کر نہیں آئے ،ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ماھذہ الجفوة یا بلال! اے بلال!یہ کیا ظلم ہے ،ہمارے پاس کبھی نہیں آتے ،آنکھ کھلنے پر مدینہ طیبہ حاضر ہوئے ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضری دی اور رونے لگے، پھر حضرات حسنین ؓ آئے ،ان سے لپٹ گئے اورانھیں چومنے لگ۔

حضرات حسنینؓ نے اذان کی فرمائش کی ،لاڈلوں کی درخواست ایسی نہیں تھی کہ انکا ر کی گنجائش ہوتی ،اذان دینا شروع کیااورمدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی اذان کانوں میں پڑ نے کی وجہ سے کہرام مچ گیا ،عوتیں تک روتی ہوئی گھر وں سے نکل پڑیں،چندروز قیام فرماکر دوبارہ دمشق چلے گئے ۔(اسد الغابة۲۳۸/۱حکایات صحابہ حضرت شیخ مذکورہ واقعہ اختصار کیساتھ ذکرفرمایاہے )

(حضرت بلالؓ کے حضرت ابوبکر کے لئے اذان دینے اور آپ کے ساتھ قیام کرنے اورنہ کرنے کے مذکورہ دونو ں واقعات کو مؤرخین واصحاب تراجم نے ذکرکیا ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں تطبیق یاترجیح کا کوئی پہلو نہیں اپنایاہے )

حضرت بلالؓ کی مرویات

علامہ ذہبی نے ؒلکھا ہے کہ آپ کی کل مرویات چالیس (۴۰)ہیں،متفق علیہ(۱)صرف بخاری میں(۲)اور صرف مسلم میں ایک موقوف روایت ہے ،(سیر اعلام ۲۱۹/۳)

آپ سے اکابر صحابہ اورکبارتابعین نے روایت کی ہے ،حضرت ابو بکر ؓ،حضرت عمر ؓ،حضرت علی ؓ،حضرت عبداللہ ؓبن مسعود،حضر ت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت جابرؓ،حضرت ابوسعید خدری ؓ،حضرت اسامہ بن زیدؓ،حضرت براءبن عازب ؓ،حضرت کعب بن عجرةؓ،حضرت صنابحیؓ۔

تابعین میں سے حضرت سعیدبن المسیب ؒ،ابو عثمان نھدیؒ،حضرت اسودؒ،حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ ،حضرت ابوادریس خولانی ؒاورحضرت حکم بن میناوغیرہ نے آپ سے روایت کی ہے۔(المستدرک۳۱۹/۳،سیر۳۲۱۲،۲۱۲/۳،اسدالغابة۲۳۸/۱)

وفات

آپ ؓ نے ساٹھ سے زائد سال عمر پائی، جب وفات کا وقت قریب آیا، تو آپ کے زبان مبارک پر یہ شعرتھا غدا نلقی الاحبة ٭محمدا وحزبہ

کل ہم دوستوں سے ملاقات کریں گے ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں سے ملیں گے۔ آپ کی بیوی کہنے لگی: واویلاہ ،ہائے افسوس ! آپ فرما رہے تھے :وافرحاہ ،ہائے خوشی!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص سفر وحضر کے مؤذن اللہ کے نبی علیہ السلام کے شیدائی ۲۰ھ میں دمشق میں تاقیام قیامت اپنی یادکو چھوڑتے ہوئے اپنی جان جاں آفریں کے سپردکردی اور باب صغیر کے پاس مدفون ہوئے ۔(اکثر روایات کے مطابق،سیر ۲۱۹/۳،مستدرک۳۲۳/۳) اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائے ،آپ کی طرح ہمیں بھی قبول فرمائے ۔ (اذان ومؤذنین رسول اللہﷺ:۹۴تا۱۰۱ مرتب عبداللطیف قاسمی )

اپنا تبصرہ بھیجیں