حفاظ وعلماء کے لئے چندضروری باتیں

حفاظ وعلماء کے لئے چندضروری باتیں: سب سے پہلی بات جو پڑھنے اور پڑھانے والے کے لئے ضروری ہے ،وہ یہ کہ پڑھنے اور پڑھانے کے ذریعہ اللہ کی رضامندی وخوشنودی کی نیت کرے ۔یعنی اولاً نیت کی اصلاح کرے ۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

ومامروا لالیعبدوااللہ مخلصین لہ الدین حنفاء،ویقیمواالصلوة ،ویوتوا الزکوة ،وذالک دین القیمة (البینة:۵)

ان کویہی حکم ہوا کہ ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی راہ پر خالص کرکے اللہ ہی کی بندگی کریں ، نماز کو قائم رکھیں اور زکوة دیں،یہی ہے مضبوط لوگوں کا راستہ ۔

بخاری ومسلم میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کا ارشاد ہے

انما الاعمال بالنیات ،وانما لکل ا مرأمانوی ۔

اعمال کا دارومدار نیتوں پرہے اور ہرآدمی کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے ، یہ حدیث اسلام کے بنیادی اصول میں سے ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ارشادفرمایا: انمایعطی الرجل علی قدرنیتہ ،

ہر شخص کو اس کے نیت کے بقدر دیاجاتاہے اور بعض دیگر صحابہ سے مروی ہے: انما یعطی الناس علی قدر نیاتھم لوگوں کو ان کی نیتوں کے بقدر دیاجاتاہے

اخلاصِ عمل

استاذابوالقاسم قشیری رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آپ ؒ نے فرمایا: الاخلاص افراد الحق فی الطاعة طاعت وبندگی میں حق تعالیٰ کونیت کے ذریعہ خالص کرنے کانام اخلاص ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ اپنے عمل وطاعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب طلب کرے ،مخلوق سے کوئی بھی چیزمثلًا،لوگوں کی تعریف ،ان کے دلوں میں محبت،نیک نامی وشہرت یاکسی اورچیز حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور فرمایا کہ اس طرح بھی کہاجاسکتاہے –

الاخلاص تصفیة الفعل عن ملاحظة المخلوقین

مخلوق کا لحاظ کرنے سے عمل کو پاک وصاف رکھنے کانام اخلاص ہے اور حذیفہ مرعشی رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے۔

الاخلاص استواءافعال العبد فی الظاھر والباطن

ظاہر وباطن میں بندہ کے اعمال کے یکساں ہونے کانام اخلاص ہے ۔

اخلاص کی تین علامتیں

ذوالنون مصری رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: اخلاص کی تین علامتیں ہیں: عام لوگوں کی تعریف وتنقیص عمل کرنے والے کے نزدیک برابر ہو ں(۲)اعمال میں دیکھنے کے عمل کو بھول جانا (کتنا کیا ،کیا کیا ،عمل کرے اور چھوڑدے ) (۳)عمل کا ثواب آخرت میں طلب کرنا ۔

اخلاص سے متعلق اکابرکےارشادات

حضرت فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے

ترک العمل لاجل الناس ریاء،والعمل لاجل الناس شرک ،والاخلاص ان یعافیک اللہ منھما

لوگوں کی وجہ سے عمل کو چھو ڑناریاکاری ہے ، لوگوں کے لئے ( دکھانے کے لئے )عمل کرنا شرک ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دونوں سے محفوظ رکھے،یہ اخلاص ہے ۔

سہل تستر ی ر حمة اللہ علیہ سے مروی ہے کہ آپ ؒنے فرمایا : اہل عقل ودانش نے اخلاص کی تعریف میں غورکیا، تو اس تعریف کے علاوہ دوسری تعریف نہیں پائی کہ عمل کرنے والے کی حرکت اور اس کا سکون خلوت و جلوت میں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو، اس میں نفس ،نفسانی خواہش اور دنیا کی کسی بھی طرح کی آمیز ش نہ ہو ۔

سری رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے : کسی عمل کو لوگوں کے لئے نہ کرواو ر لوگوں کی وجہ سے کسی عمل کونہ چھوڑو،لوگوں سے کسی عمل پر پردہ نہ ڈالو اور لوگوں کے سامنے کسی عمل کو واضح نہ کرو۔

بہترین صدق خلوت وجلوت کا برابر ہونا

قشیری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : بہترین صدق خلوت وجلوت کا برابر ہونا ہے ۔ حارث محاسبی رحمة اللہ علیہ سے نقل کیا گیاہے : صادق وہ ہے جو اپنے نفس کی اصلاح کی خاطرکسی چیزکی پرواہ نہ کرے، اگرچہ لوگوں کے دلوں میں اس کی جو عظمت ومحبت ہے ا،س سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور اپنے اچھے عمل پر ذرہ برابر بھی لوگوں کے واقف ہونے کی خواہش نہ کرے اور اپنے برے عمل پر لوگوں کے مطلع ہونے کو نا پسند نہ کرے، اس لئے کہ اس کاناپسند کرنا، اس بات کی دلیل ہے ،وہ لوگوں کے نزدیک قدروقیمت چاہتاہے ،یہ صدیقین کا شیوہ نہیں ہے ۔

بعض اللہ والوں سے منقول ہے : جب تم اللہ تعالیٰ سے صدق طلب کرو ،تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایک آئینہ دیں گے جس میں تم دنیا وآخرت کے تمام عجائبات دیکھ سکو گے ۔حاملین قرآن۲۹تا۳۲