دشمن کی نظر سے مستور رہنے کا عمل

دشمن کی نظر سے مستور رہنے کا عمل :حضرت مولانامفتی شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ

وَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ جَعَلۡنَا بَيۡنَكَ وَبَيۡنَ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسۡتُوۡرًا ۞ وَّجَعَلۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اَكِنَّةً اَنۡ يَّفۡقَهُوۡهُ وَفِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرًا‌ ؕ وَاِذَا ذَكَرۡتَ رَبَّكَ فِى الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَهٗ وَلَّوۡا عَلٰٓى اَدۡبَارِهِمۡ نُفُوۡرًا‏ ۞

جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، ایک نظر نہ آنے والا پردہ ڈال دیتے ہیں اور ( وہ اس طرح کہ )ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دیتے ہیں ؛ تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھ سکیں اور ان کے کان میں بوجھ ڈال دیتے ہیں اور جب آپ قرآن میں صرف اپنے پروردگار کا ذکر کرتے ہیں تو وہ پشت پھیر کرنفرت کرتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں ،

آیت کا شا ن ِنزول

آیات مذکورہ کا ایک خاص شان نزول ہے جومفسرقرآن علامہ قرطبی نے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ جب قرآن میں سورة تبت یدا ابی لہب نازل ہوئی جس میں دشمن خد ابولہب کی بیوی کی بھی مذمت مذکور ہے، تو اس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں گئی، اس وقت صدیق اکبر مجلس میں موجود تھے، اس کو دور سے دیکھ کر آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ یہاں سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے؛ کیوں کہ یہ عورت بڑی بدزبان ہے ،یہ ایسی باتیں کہے گی جس سے آپ کو تکلیف پہنچنے گی ،آپ نے فرمایا نہیں، اس کے اور میرے درمیان اللہ تعالیٰ پردہ حائل کردیں گے ۔

چناچہ وہ مجلس میں پہنچی؛ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھ سکی، صدیق اکبر سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ آپ کے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے، صدیق اکبر نے فرمایا :واللہ وہ تو کوئی شعر ہی نہیں کہتے جس میں عادۃً ہجو کی جاتی ہے ،تو وہ یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ تم بھی ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو، اس کے چلے جانے کے بعد صدیق اکبر نے عرض کیا : کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا؟ آپ نے فرمایا کہ جب تک وہ یہاں رہی ایک فرشتہ میرے اور اس کے درمیان پردہ کرتا رہا۔

دشمن کی نظر سے مستور رہنے کاعمل

حضرت کعب فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مشرکین کی آنکھوں سے مستور ہونا چاہتے ،تو قرآن کی تین آیتیں پڑھ لیتے تھے، اس کے اثر سے کفار آپ کو نہیں دیکھ سکتے تھے ،وہ تین آیتیں یہ ہیں

إِنَّا جَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا(الکہف:٥٧) أُولَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (النحل:١٠٨) أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً۔(الجاثیۃ:٢٣)

حضرت کعب فرماتے ہیں :رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معاملہ میں نے ملک شام کے ایک شخص سے بیان کیا ،اس کو کسی ضرورت سے رومیوں کے ملک میں جانا تھا، وہاں گیا اور ایک زمانے تک مقیم رہا ،پھر رومی کفار نے اس کو ستایا ،تو وہ وہاں سے بھاگ نکلا، ان لوگوں نے اس کا تعاقب کی ،اس شخص کو وہ روایت یاد آگئی، اور مذکورہ تین آیتیں پڑھیں، قدرت نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا کہ جس راستے پر یہ چل رہے تھے، اسی راستے پر دشمن گذر رہے تھے؛ مگر وہ ان کو نہ دیکھ سکتے تھے۔

امام ثعلبی کہتے ہیں

امام ثعلبی کہتے ہیں کہ حضرت کعب سے جو روایت نقل کی گئی ہے، میں رئے کے رہنے والے ایک شخص کو بتلائی اتفاق سے ’’ویلم‘‘ کے کفار نے اس کو گفتار کرلیا، کچھ عرصہ ان کی قید میں رہا، پھر ایک روز موقع پا کر بھاگ کھڑا ہوا ،یہ لوگ اس کے تعاقب میں نکلے؛ مگر اس شخص نے بھی یہ تین آیتیں پڑھ لیں، اس کا یہ اثر ہوا کہ اللہ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ وہ اس کو نہ دیکھ سکے؛ حالاں کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور ان کے کپڑے ان کے کپڑوں سے چھو جاتے تھے۔

ہجرت کے وقت رسول اللہﷺ نےسورہ یسین کی آیات پڑھی تھیں

امام قرطبی کہتے ہیں کہ ان تینوں کے ساتھ وہ آیات سورة یسین کی بھی ملالی جائیں جن کو آ ں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے وقت پڑھا تھا جب کہ مشرکین مکہ نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا، آپ نے یہ آیات پڑھیں اور ان کے درمیان سے نکلتے ہوئے چلے گئے ؛بلکہ ان کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے گئے ،ان میں سے کسی کو خبر نہیں ہوئی وہ آیات سورة یسین کی یہ ہیں

يٰسۗ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ ۞اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ ۞تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْم ۞لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤ ُ هُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ۞ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓي اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ۞ اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ۞ وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ۞

امام قرطبی فرماتے ہیں : مجھے خود اپنے ملک اندلس میں’’ قرطبہ ‘‘کے قریب قلعہ ’’منثور ‘‘میں یہ واقعہ پیش آیا کہ میں دشمن کے سامنے بھاگا اور ایک گوشے میں بیٹھ گیا، دشمن نے دو گھوڑ سوار میرے تعاقب میں بھیجے اور میں بالکل کھلے میدان میں تھا کوئی چیز پردہ کرنے والی نہ تھی ؛مگر میں سورة یسین کی یہ آیتیں پڑھ رہا تھا،یہ دونوں سوار میری برابر سے گذرے پھر جہاں سے آئے تھے یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ یہ شخص کوئی شیطان ہے؛ کیوں کہ وہ مجھے دیکھ نہیں سکے، اللہ تعالیٰ نے ان کو مجھ سے اندھا کردیا تھا (اور دشمن کی نظر سے مستور رہنے کا عمل) (معارف القرآن سورۃ بنی اسرائیل۴۹۱/۵)

درس قرآن، درس حدیث ،فقہ وفتاوی ،اصلاحی ،فکری اورعلمی وتحقیقی مضامین ومقالات کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.comکی طرف رجوع کریں اوردوست واحباب کو شئیربھی کریں ۔