رسول اللہ ﷺ نے بنفس نفیس اذان دی ہے؟

رسول اللہ نے اذان دی ہے؟اس سلسلہ میں حضرات محدثین کے درمیان اختلاف ہے

امام ترمذی ؒنے روایت کی ہے :حدثنا یحی بن موسی نا شبابة بن سوارناعمر بن الرماح عن کثیر بن زیاد عن عمرو بن عثمان بن یعلی بن مرة عن ابیہ عن جدہ انھم کانوامع النبی ﷺ فی سفر، فانتھواالی مضیق ،فحضر ت الصلوة،فمطروا،السماءمن فوقھم ،والبلة من اسفلھم –

فاذن رسول اللہ ﷺ ،وھو علی راحلتہ ،واقام ،فتقدم علی راحلتہ ،فصلی بھم یومی ایماء ا ،یجعل السجود اخفض من الرکوع ۔قال ابو عیسیٰ ھذا حدیث غریب تفرد بہ عمر بن الرماح البلخی لایعرف الا من حدیثہ(الجامع الترمذی باب ماجاءفی الصلوة علی الراحلة فی الطین والمطر۹۴/۱)

رسول ﷺ ایک سفر میں رفقاءکے ساتھ ایک تنگ راستہ (پہاڑیوں کے درمیان کا درہ )سے گزررہے تھے کہ اچانک آسمان سے بارش ہوئی اور نیچے گیلاپن وکیچڑ تھا، اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا ، رسول اللہ ﷺ نے اذان دی ہے اور اقامت کہی،پھراپنی سواری پرآگے بڑھے اور لوگوں کو اشارہ سے نماز پڑھائی،سجدہ کے اشارہ کو رکوع کے اشارہ سے زیادہ جھکا ہوافرمایا۔

علامہ نووی ،علامہ سیوطی،علامہ سبکی اور حافظ زین الدین عراقی رحمھم اللہ نے لفظ”فاذن رسول اللہ “ ﷺ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ ر رسول اللہ ﷺ نے اذان دی ہے ،علامہ نووی ؒ شرح مہذب میں تحریر فرماتے ہیں : ترمذی کی روایت جید الاسناد ہے اور” روضہ“ میں حدیث کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیاگیا ہے اور خلاصہ میں لکھا ہے :یہ حدیث صحیح ہے ۔ علامہ ابن رفعہ ”کفایہ“میں اورعلامہ سبکی ؒ نے”شرح منھاج “ میں علامہ نووی کی موافقت کی ہے ۔

حضرت ابن ملیکہ کی روایت

علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں : مجھے سنن سعید بن منصورمیں صحیح سند کے ساتھ ایک صریح روایت ملی ہے ،جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔

عن ابن ملیکة قال اذن رسول اللہ مرة ،فقال حی علی الفلاح ۔( تنویرالحوالک شرح موطا امام مالک للسیوطی ،صلوة الضحی۱۶۶/۱،اعلاءالسنن۱۲۹/۲)

حضرت ابن ملیکہ سے مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اذان دی ہے اور فرمایا حی علی لفلاح ۔

محمد بن یوسف شامی صاحب سبل الھدی والرشادلکھتے ہیں:ہمارے شیخ نے ترمذی کی شرح میں لکھا ہے ،جو آدمی یوں کہتاہے :وہ کونسی سنت ہے؟رسول اللہ ﷺ نے جس کی ترغیب دی ہو اورخود آپ علیہ السلام نے اس کو انجام نہ دیاہو ؟تووہ شخص غافل ہے اور حقیقت سے ناواقف ہے ۔(سبل الھدی والرشاد،الباب الرابع فی سیرتہ ،۸۶/۸)

حافظ ابن حجر وغیر ہ محدثین ؒ فرماتے ہیں :ترمذی کی مذکورہ بالاروایت مجمل ومختصر ہے بعینہ یہ روایت سنن دار قطنی میں اسی سند کے ساتھ آئی ہے۔

عن جدہ یعلی بن مرة صاحب رسول اللہ ﷺ قال :انتھینا مع النبی ﷺ الی مضیق ،السماءفوقنا،والبلة من اسلفنا ،وحضرت الصلوة،فامر الموذن،فاذن،واقام،اواقام بغیر اذان ،ثم تقدم النبی ﷺفصلی بنا علی راحلتہ ،الخ(سنن دارا قطنی ،باب صلوة المریض،لایستطیع القیام ،والفریضةعلی الراحلة،۳۶۹/۱)

یہ روایت مفسر ومفصل ہے اوراس میں تصریح ہے کہ اذان واقامت کا عمل بذات خود رسول اللہ ﷺنے انجام نہیں دیا؛ بلکہ آپ ﷺ کے حکم سے مؤذن نے یہ خدمت انجام دی ہے۔

لہذا مجمل روایت کو مفسر ومفصل روایت پر محمول کریں گے ،پس ترمذی کی روایت میں ”فاذن“ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف اذان کی نسبت مجازی ہے نہ کہ حقیقی ۔علامہ بدر الدین عینی ؒاور علامہ یوسف بنوری ؒ نے اختلاف کو ذکر فرمایاہے ؛لیکن کسی ایک قول کو ترجیح نہیں دی ہے ۔(عمدة القاری۱۵۱/۴،معارف السنن ۴۴/۴)

رسول اللہ ﷺ نےخوداذان دینے کا اہمتام کیوں نہیں فرمایا

علامہ عبد الحی لکھنوی ؒ فر ماتے ہیں: آ پ ﷺنے یقینی طور سے حضرات حسنین کے کانوں میں اذان دی ہے؛ لیکن نماز والی اذان کے سلسلہ میں ہم ترمذی اور سنن سعید بن منصور کی بالا روایت کی وجہ سے توقف کرتے ہیں ۔(السعایة ۴۴/۱)

اذان ایک عظیم عبادت ہے ،بکثرت اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں ،آپ علیہ السلام نے خود اذان دینے کاا ہتمام کیوں نہیں فرمایا ؟یا آپ اس کو انجام کیوں نہیں دیا ؟اس میں کیا حکمت ہے ؟ علامہ عبد الحی لکھنوی ؒ فرماتے ہیں :علماءنے اس سوال کے مختلف جوابات دئے ہیں،الف:چونکہ اذان میں رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی شہادت ہے:”اشھد ان محمد رسول اللہ “ اگر آپ بنفس نفیس اذان دیتے ،یابکثرت اذان دیتے ،تو اس بات کا وہم وغلط عقیدہ پیدا ہو سکتاتھا کہ” محمد رسو ل اللہ“ ﷺ ۔نعوذ با للہ۔ کوئی اور ہیں ۔

ب:علامہ لکھنوی ؒ فرماتے ہیں:بہتر جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ دین کے اہم امورتعلیم، جہاد وغیرہ میں مشغول تھے ،اذان کی مشغولی سے ان اہم امورمیں خلل واقع ہوسکتاہے ،خصوصًا آپ کے بعد آپ کے خلفاءکے لئے خلافت کی مشغولی کے ساتھ اذان کی ذمہ داری کوسنبھالنا پریشانی کا باعث بن سکتا تھا، اس لئے آپ علیہ الصلوة والسلام نے اذان دینے کا اہتمام نہیں فرمایا۔(السعایة فی کشف مافی شرح الوقایة ۴۱/۲)