رشتہءنکاح میں لڑکے اورلڑکی کی رائےکالحاظ

رشتہءنکاح میں لڑکے کی رائے کا بھی لحاظ:رشتہءنکاح میں جس طرح لڑکے کو اپنے بزرگوں کا احترام اوران کے تجربات سے استفادہ اوران کے انتخاب پرراضی رہنا چاہئے ،اسی طرح والدین اورخاندانی بزرگوں کو چاہئے کہ وہ رشتہ کے سلسلہ میں لڑکے کی رائے اورجذبات کا لحاظ کریں ۔

چونکہ موجودہ دورمیں اسکول ،کالج اوریونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم ہوتی ہے اورملازمت کی جگہوں میں مخلوط معاشرہ ہوتاہے ،اس ماحول میں لڑکوں کے اجنبی لڑکیوں سے تعلقات ہوجاتے ہیں اوروہ انہیں سے نکاح کاارادہ کرلیتے ہیں ،بسااوقات والدین لڑکے کے ان جذبات کالحاظ کئے بغیر اس کو مجبورکرکے اپنی پسنداور اس کی ناپسندکی جگہ نکاح کردیتے ہیں،لڑکا بادل ناخواستہ نکاح کرلیتاہے۔

چونکہ اس کی مرضی کا نہیں ہواہے، اس وجہ سے وہ بیوی سے محبت نہیں کرتا،اس کے حقوق کو ادانہیں کرتا،اس کی طرف بالکل توجہ بھی نہیں کرتااورکبھی والدین سے الجھتاہے اورکبھی بیوی سے ،بیوی کوطعنہ دیتاہے ،لوگوں کے سامنے اس کی برائیاں اوروالدین کی شکایت کرتے پھرتاہے اوراس کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے والدین کی خواہش اوران کی پسند کا حوالہ دے کر احسان جتلاتاہے اوربیوی ایک مظلومہ بن کر ساس و سسرکے رحم وکرم پرزندگی گزارنے پرمجبور ہوتی ہے، وہ خلع کا مطالبہ کرے گی یا شوہراس کواپنے نکاح سے جداکردے گا،یہ تمام پریشانیاں شوہربننے والے اورلڑکی کے ساتھ زندگی گزارنے والے لڑکے کی رائے اورخوشی کالحاظ نہ کرنے سے پیداہوتی ہیں۔

نکاح اورلڑکی کی رضامندی

لڑکیاں مردوں کے احوال وکوائف سے ناواقف اور اورامورِنکاح سے ناتجربہ کارہوتی ہیں ،اس لئے اسلام اس بات کی ترغیب دیتاہے کہ نکاح جیسے اہم معاملہ کو خودسے طے نہ کریں ؛بلکہ ان کا کوئی ولی و سرپرست اس کو انجام دے؛البتہ اولیاءوسرپرستان کے لئے ضروری ہے کہ جس لڑکے کو منتخب کریں اس کا نام اوراس کی شخصیت اس طرح بیان کریں کہ وہ لڑکے کو اچھی طرح پہچان لے ،اس کے بعد لڑکی کو اختیارہے کہ وہ رشتہءنکاح کو قبول کرے یا رد کردے۔

اگرلڑکی کی رضامندی معلوم کئے بغیر نکاح کردیاگیا ،تو تفصیلات معلوم ہونے کے بعدنکاح کو باقی رکھنے اورختم کرنے کا لڑکی کواختیارحاصل ہوگا ۔

اگرلڑکی کی رضامندی وخوشی کے بغیرنکاح کردیاجائے ،توہ نکاح پائدارنہیں رہ سکتاہے ،نیز لڑکی پرزیادتی اوراوراس کے جائز حق کی حق تلفی ہوگی ۔

جورشتہ منظورنہیں،اس میں زبردستی نہیں

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں

ایک نوجوان لڑکی میرے پاس آئی اوراس نے کہا: میرے ابانے اپنے بھتیجے سے میرانکاح کردیاہے تاکہ اس کی کم حیثیتی کو د ورکردے؛ حالانکہ مجھے یہ رشتہ منظورنہیں تھا ،حضرت عائشہ ؓنے فرمایا : انتظارکروآپ علیہ السلام تشریف لائیں گے۔

جب آپ علیہ السلام تشریف لائے، تو اس لڑکی نے ساراواقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ،آپ علیہ السلام نے اس کے والد کو بلابھیجا اورلڑکی کو اختیاردیا : تم چاہو،تو نکا ح کو فسخ کرسکتی ہو،چاہوتو والدکے کئے ہوئے نکاح کو باقی رکھ سکتی ہو۔

لڑکی نے عرض کیا : میں اپنے والد کے کئے ہوئے نکاح کو باقی رکھوں گی ؛لیکن میں نے چاہا کہ عورتوں کو بتادوں کہ ہمارا حق کیاہے؟اور ہمارے متعلق ہمارے آباءکو کس قدراختیار حاصل ہے ؟(جورشتہءنکاح ہمیں منظورنہیں اس کے متعلق زبردستی نہیں کرسکتے )(السنن الکبری للنسائی باب البکریزوجھا ابوھا وھی کارہة۶۴/۲رقم: ۵۳۶۹، ابن ماجہ باب من زوجہ ابنتہ وھی کارھة :۱۳۵رقم: ۱۸۷۴)

والدین اولادکی ناپسندجگہ میں نکاح نہیں کرسکتے

حضرت ابوسلمة ؓ فرماتے ہیں

ایک عورت (جس کے شوہرکی شہادت ہوچکی تھی) وہ اپنے دیورسے نکاح کرنا چاہتی تھی،اس عورت کے والد نے ایک اچھے اوربھلے آدمی سے اس کا نکاح کردیاتھا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں اپنے بچوں کے چچاسے نکاح کرنا چاہتی تھی تاکہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہوں؛لیکن میرے والدنے دوسری جگہ میرانکاح کردیاہے۔

آپ علیہ السلام نے اس کے والد کو بلایا اوردریافت فرمایا: کیا تم نے اپنی بچی کی مرضی کے بغیرنکاح کردیا ہے ؟انہوں نے کہا :جی یارسول اللہ !آپ علیہ السلام نے (نکاح فسخ فرمادیا ) اور فرمایا: جؤ جہاں چاہو،وہاں نکاح کرلو۔(مصنف عبدالرزاق ،باب مایکرہ من النکاح فلایجوز۱۱۷/۶رقم: ۱۰۳۰۳دارالکتب العلمیہ)

ان دونو ں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ بالغہ لڑکی ان بیاہی ہویا بیاہی والدین اس کی مرضی کے بغیر اس کی ناپسند کی جگہ نکاح نہیں کرسکتے ۔

لہذا موجودہ زمانہ میں بے پردگی ،مخلوط تعلیم اوراخلاقی بگا ڑکی بناپر بہت ساری لڑکیوں کی اپنی پسند ہوتی ہے ،اگران کی پسند کی جگہ مناسب وموزوں ہو،تو اسی جگہ ان کا نکاح کردینا بہترہے تاکہ نکاح پائدارر ہ سکے ۔

اگرمناسب نہ ہو،تو ان کوسمجھایاجائے ،نقصانات بتائے جائیں اورذہن سازی کی جائے ؛مگرزبردستی نکاح کردینا مناسب نہیں ہے ،زبردستی نکاح کردینے کی صورت میں نکاح کے بعد لڑکیوں سے بہت سارے بداخلاقی کے واقعات ہمارے معاشرہ میں پیش آتے رہتے ہیں ۔

والدین کے لئے رشتہءنکاح میں جس طرح لڑکے اورلڑکی کی رائے کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ،اسی طرح اولادکے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی ٰرشتہءنکاح میں اپنے والدین کی رائے کا احترام کریں ، اس موضوع کو پڑھنے کے لئے اسی سطرپر کلک کریں۔