روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

حجرئے عائشہ ؓ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماہیں،جو اس وقت مسجدنبوی کا اندورنی حصہ ہے،آپ کے ساتھ آپ کے رفقاءحضرات شیخین آرام فرماہیں،قربِ قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوة والسلام بھی اسی حجرہ میں آرام فرمائیں گے، روضہ رسول کاوہ حصہ جوآپ کے جسد اطہر اور اعضاءمبارکہ سے مس کئے ہوئے ہے، ساری روئے زمین میں افضل ترین حصہ ہے؛ بلکہ قاضی عیاض مالکی ؒنے اس پر اجماع نقل کیاہے کہ یہ حصہ کعبہ سے بھی اشرف وافضل ہے۔

روضہ رسول کی زیارت کے فضائل

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

من جاءنی زائرالاتھمہ حاجة الازیارتی ،کان حقا علی ان اکون شفیعایوم القیامة ۔(قا :العلامة السمہودی:روی الحافظ ابن الساکن فی صحیحہ عن ابن عمر ولھذانقلہ عنہ جماعة، منھم الحافظ زین الدین العراقی،وقال السبکی: صحیح ،وروی الطبرانی فی الکبیر والاوسط(واخرجہ الھیثمی فی التلخیص الحبیروذکرمالہ وماعلیہ، فاحسن ،واجاد) ۔(وفاءالوفاملخصا۱۷۱/۴)

جوشخص بطورخاص میری زیارت کے لیے آئے ،کوئی اورضروت اس کے پیش نظرنہ ہو، تو مجھ پرلازم ہے کہ میں اس کے لیے قیامت کے دن شفارشی بنوں۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

لہذا جوشخص مدینہ پاک حاضرہو ،اس کو چاہئے کہ وہ روضہ پاک کی حاضری ہی کی نیت کرے ، اس خصوصی نیت کے ساتھ روضہ اقدس پرحاضری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت لاز م ہوجائے گی ، جب شفاعت واجب اورلاز م ہوگی ،تو دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصتی بھی ہوگی ، ا س لیے کہ آخرت میں ایمان والے ہی آپ کی اُس شفاعت کے مستحق ہوں گے جودخول جنت کاذریعہ ہوگی ۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

من زارقبری، وجبت لہ شفاعتی ۔(روی العلامة السمہودی براویة ابن عمر عن دارقطنی والبیھقی ،وقال اقل درجات ھذاالحدیث الحسن ،وقال الذھبی: طرق ھذاالحدیث کلھا لینة ،یقوی بعضھا بعضا ۔(وفاءالوفاملخصا۱۶۹/۴)

جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔

روضہ کی زیارت سے شفاعت

علامہ سمہودی فرماتے ہیں:(۱)اس روایت میں شفاعت سے خاص شفاعت مرادہوسکتی ہے جو زائر کے لیے خاص درجہ کے حصول کا ذریعہ ہوگی جوغیر زائرکواعمال کی زیادتی اور کثرتِ فضائل کے باوجود میسر نہ ہوگا،(۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عام شفاعت ہی مرادہے ،جس سے ہر مسلمان کو نوازا جائے گا،؛البتہ اس روایت میں زائر کے لیے خصوصی اعزاز واکرام کی طرف اشارہ ہے (۳)زائر کے لیے اس روایت میں خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اس کاخاتمہ بالخیرہوگااور وہ دینِ اسلام پر مرے گا، جس کی وجہ سے ان لوگوں میں شامل ہوجائے گا جو رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفارش کے مستحق ہوںگے۔(وفاءالوفا۱۷۰/۴)

مولانا ظفر احمد تھانویؒ لکھتے ہیں: زائر کے لیے شفاعت کی جو بشارت ہے، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی فضیلت ہوسکتی ہے؟

ایُّ فضیلة اعلیٰ و اسنی من وجوب شفاعتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمن زارہ۔ (اعلاءالسنن:۵۴۴/۱۰)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

من حج ،فزارقبری بعدموتی،کان کمن زارنی فی حیاتی۔ (قال السمہودی:روی ابن الجوزی فی ”مثیرالغرام الساکن“وابویعلی،والطبرانی فی الکبیر والاوسط۔(وفاءالوفاملخصا۱۷۱/۴)

جس نے حج کیا اور حج کے بعد میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی، تو وہ (زیارت کی سعادت حاصل کرنے میں) انہیں لوگوں کی طرح ہے، جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی۔

مولانا منظور نعمانیؒ کی تشریح

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں؛ بلکہ تمام انبیاءعلیہم السلام کا اپنی منور قبور میں زندہ ہونا جمہورِ امت کے مسلّمات میں سے ہے، اگرچہ حیات کی نوعیت میں اختلاف ہے،روایات اور خواصِ امت کے تجربات سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو امتی قبر پر حاضر ہوکر سلام عرض کرتے ہیں، آپ ان کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں، ایسی صورت میں بعدِوفات آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور سلام عرض کرنا ایک طرح سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور بالمشافہ سلام کا شرف حاصل کرنے ہی کی ایک صورت ہے اور بلاشبہ ایسی سعادت ہے کہ اہل ایمان ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔(معارف الحدیث۲۹۴/۴)

زیارت رسول اللہ کے ساتھ محبت میں اضافہ اور دینی ترقی کا وسیلہ

نیز مولانانعمانیؒ زیارت ِرسول اورروضہءپاک کی حاضری پر خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے جن منافع، برکات اور مصالح کا اوپر ذکر کیاگیا ہے، اگر اس کو پیش نظر رکھ کے ان احادیث پر غور کیا جائے جو اس زیارت کی ترغیب میں مروی ہیں،خواہ سند کے لحاظ سے ان پر کلام کیا جاسکے؛ لیکن معنوی لحاظ سے وہ دین کے پورے فکری اور عملی نظام کے ساتھ بالکل مرتبط اور ہم آہنگ نظر آئیں گی اور ذہنِ سلیم اس پر مطمئن ہوجائے گا کہ قبر مبارک کی یہ زیارت صاحبِ قبر کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ایمانی تعلق،محبت و توقیر میں اضافہ اور دینی ترقی کا خاص وسیلہ ہے، یقین ہے کہ ہر خوش نصیب، صاحبِ ایمان بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے زیارت کی سعادت سے بہرہ ور فرمایا ہے، اس کی شہادت دے سکے گا۔ (معارف الحدیث۲۹۶/۴)

روضہ رسول کی زیارت کا حکم

الانبیاءاحیاءفی قبورہم ۔(مسند ابی یعلی:۵۲۴۳)

قد اختلف فیہا اقوال اہل العلم، فذہب الجمہور الی انہا مندوبة، وذہب بعض المالکیة، وبعض الظاہریة الی انہا واجبة وقالت الحنیفة: انہا قریبة من الواجبات، و ذہب ابن تیمیة الحنبلی، الی انہا غیر مشروعة۔ ( علاءالسنن ۵۴۴/۱۰)

انبیاءعلیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں، موت ان کے لیے مُزِیلِ حیات نہیں؛ بلکہ ساتر ِحیات ہوتی ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی قبر اطہر میں باحیات ہیں؛اسی لیے زیارت قبر اطہر کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، انہیں روایات کے پیش نظر احناف کے یہاں زیارت روضہءاقدس کا حکم قریب بہ واجب ہے، ، جمہور کے نزدیک مستحب ہے، بعض مالکیہ اوربعض ظاہریہ کے نزدیک واجب ہے۔

ملا علی قاریؒ نے شرح الشفاءمیں قاضی عیاض مالکی ؒکے حوالے سے لکھا ہے

زیارة قبرہ علیہ السلام سنة من سنن المسلمین مجمع علیہا ای مجمع علی کونہا سنة و فضیلة مرغب فیہا·(شرح الشفاء۱۴۹/۲)

قبر اطہر کی زیارت مسلمانوں کی متفق علیہ سنت ہے اور اس کی ایسی فضیلت ہے کہ ہر مسلمان کے اندراس کو حاصل کرنے کا شوق ہونا چاہئے۔

لہٰذا ہر صاحب استطاعت کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ اسے جب بھی موقع ملے گا،وہ روضہ اقدس کی زیارت کرے گا اور جو لوگ حج کرنے جاتے ہیں، انہیں روضہءاقدس کی زیارت بھی کرنی چاہیے، اگرچہ روضہءاقدس کی زیارت حج کا رکن یا جز نہیں ہے؛ لیکن امت کا تعامل ہے بطورخاص دور دراز علاقوں کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں، تو روضہ پاک کی زیارت اور وہاں درود و سلام کی سعادت ضرور حاصل کرتے ہیں اور کسی سے اس کا انکار منقول نہیں ہے، یہ اجماع کے درجہ میں ہے۔

زیارت روضہ اقدس قریب بہ واجب

مولاناظفراحمد تھانویؒ تحریرفرماتے ہیں

لم یزل داب المسلمین القاصدین للحج فی جمیع الازمان علی تباین الدیار، و اختلاف المذاہب، الوصول الی المدینة المشرفة لقصد زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم ویُعَدُّ انَّ ذلک من افضل الاعمال، و لم ینقل ان احدا، انکر علیہم ذلک ،فکان جماعاً۔(اعلاءالسنن ۵۴۵/۱۰)

البتہ حاجیوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے حج مکمل کرلیں، پھر زیارت کے لیے مدینہ منوّرہ جائیں؛ کیونکہ حج فرض ہے اور زیارت روضہ اقدس قریب بہ واجب ہے ، اگر حج نفل ہو، تو حاجی کو اختیار ہے، چاہے تو پہلے حج کرے، پھر مدینہ کی زیارت کرے،یااولامدینہ منورہ حاضرہوجائے ،پھرمکہ مکرمہ جائے۔(مستفاد:از فتح القدیر،کتاب الحج ،مسائل منثورہ ۱۶۷/۳ )

روضہ اقدس کی زیارت کے لیے سفر کا شرعی حکم

ابن تیمیہ رحمہ اللہ ؒفرماتے ہیں: کہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی نیت سے سفر کرے،پھر روضہ اقدس کی زیارت کرے، مستقل طور سے روضہ ءاقدس کی نیت سے سفر نہ کرے،جمہور امت کے نزدیک قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر کرنا نہ صرف جائز ہے؛بلکہ اہم عبادات میں سے ہے، روضہ ءاقدس کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایات بہ کثرت وارد ہیں۔

دوسری بات یہ کہ امت کا تعامل چلا آرہا ہے کہ ہر حاجی مکہ کی ایک لاکھ نمازوں کا ثواب چھوڑ کر چار سو میل طویل سفر کرکے مدینہ جاتا ہے، ظاہر ہے کہ حجاج صرف مسجد نبوی کی زیارت کے لیے نہیں جاتے؛بلکہ ان کا مقصود روضہ اقدس پر حاضری ہوتی ہے۔

چنانچہ علامہ ابن ہمام ؒ تحریرفرماتے ہیں:

الاولی فیما یقع عند العبد الضیعف تجرید النیة لزیارة قبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم و یوافق ظاہر ما ذکرناہ من قولہ علیہ الصلوٰة والسلام، لا تعملہ حاجة الا زیارتی۔ (فتح القدیر۱۶۸/۳)

میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ خالص زیارت کی نیت کرے؛کیونکہ حدیث لا تعملہ حاجة الا زیارتی (کہ میری زیارت کے سوا کوئی حاجت اس کو نہ لائی ہو) کے ظاہر ی الفاظ کے موافق ہے۔

علماءدیوبند کا مذہب

حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے اسی قول کو علماءدیوبند کا مذہب قراردیا ہے

عندنا و عند مشائخنا زیارة قبر سید المرسلین (روحی فداہ) من اعظم القربات و اہم المثوبات و انجح لنیل الدرجات بل قریبة من الواجبات، وان کان حصولہ بشدّ الرحال و بذل المہج و الاموال و ینوی وقت الارتحال زیارة علیہ الف الف تحیة و سلام و ینوی معہا زیارة مسجدہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(المہند علی المفند: ۳۸)

ہمار ے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک زیارت قبر سید المرسلین (ہماری جان آپ پر قربان) اعلیٰ درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سبب حصولِ درجات ہے؛بلکہ واجب کے قریب ہے، گو شدِّ ِرحال اور بذلِ جان و مال سے نصیب ہو،سفر کے وقت آپ کی زیارت کی نیت کرے اور ساتھ میں مسجد نبوی وغیرہ کی نیت کرے۔

روضہ اقدس پر دعائے مغفرت کی درخواست

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں باحیات ہیں؛اس لیے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا، سفارش کی درخواست کرنا جائز تھا، ویسے ہی دنیا سے رخصت فرما جانے کے بعد بھی روضہ اقدس پر حاضر ہوکر درخواست کرنا جائز ہے؛ لہٰذا روضہ اقدس پر حاضری دینے والے یہ درخواست کرسکتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سراپا گنہگار ہیں، آپ بارگاہِ خداوندی میں ہماری مغفرت کے لیے دعا فرما دیں۔

حضرت مولانا مفتی محمدشفیع عثمانی صاحبؒ نے آیت: و لو انہم اذ ظلموا انفسہم جاءوک فاستغفروا اللّٰہ واستغفر لہم الرسول ،لوجدوا اللّٰہ توّابا رحیما (النساء:۶۴)کے ذریعہ اس مسئلہ کے جواز پر استدلال کیا ہے،یہ آیت اگرچہ بطورخاص منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے؛ لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے ، آپ اس کے لیے دعائے مغفرت کردیں، اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی، اسی طرح آج بھی روضہ ءاقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے۔ (معارف القرآن۴۵۹/۲)

ایک دیہاتی کا دل چسپ واقعہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے فارغ ہوئے، تین روز بعد ایک گاؤں والا آیا اور قبر شریف کے پاس آکر گرگیا،درد بھرے چنداشعارپڑھا(جن کو محدثین ومفسرین نے نقل فرمایاہے )اور روتے ہوئے یہ آیت: ولو انہم اذ ظلموا انفسہم الخ کا حوالہ دے کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر گنہگار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے دعائے مغفرت کردیں،تو اس کی مغفرت ہوجائے گی۔

اس لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ؛تاکہ آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں، اس وقت جو لوگ حاضر تھے، ان کا بیان ہے کہ اس کے جواب میں روضہءاقدس کے اندر سے آواز آئی: ”قد غفرلک“ یعنی تیری مغفرت کردی گئی۔ (معارف القرآن۴۶۰/۲،شعب الایمان،ابن کثیراورابوحیان اندلسی وغیرہ نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو نقل کیاہے)

روضہ پردرود وسلام

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوشخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر واپس کردیتے ہیں، یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دیتا ہوں۔(ابودؤد،کتاب الحج باب زیارة القبور:۲۰۴۱)

حضرت ابوہریرة ؓ سے مروی ہے :جوشخص میری قبرکے پاس مجھ پردرود پڑھتاہے ، میں خوداس کو سنتاہوں،جودورسے مجھ پردرود بھیجتاہے ،وہ مجھ کو پہنچادیاجاتاہے۔( رواہ البیہقی فی شعب الایمان وبسط السخاوی فی تخریجہ ،فضائل درود:۸ص۲۲)

جوشخص قبراطہرکے قریب درود پڑھے ،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس خود سنتے ہیں ،بہت قابل فخر،قابل عزت اورقابل لذت چیزہے ۔

ملاعلی قاری ؒفرماتے ہیں:اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قبراطہر کے قریب درود پڑھنا دورسے درووپڑھنے افضل ہے ؛کیونکہ قرب میں جوخشوع ،خضوع اورحضورِقلب حاصل ہوتاہے ،وہ دورسے درود پڑھنے میں حاصل نہیں ہوتاہے ۔(ملخص :ازفضائل درود:رقم۸ص۹۱)

حضرات صحابہ ؓ کی حاضری

جب حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کا سفرفرمایا،بیت المقدس والوں نے صلح کرلی اورحضرت کعب احبارجویہود کے بڑے عالم تھے ،انہوں نے اسلام قبول کرلیا ،حضر عمر ؓ کو بے انتہاءخوشی ہوئی ،حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے کعب! کیاآپ کو خواہش ہے کہ تم میرے ساتھ مدینہ پاک آؤ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی زیارت کرو؟ کعب احبارؒ فرمایا: ضرورامیرالمومنین آپ کے ساتھ مدینہ چلوں گا ،چنانچہ حضرت عمر ؓ انہیں مدینہ پاک لے آئے ،حضرت عمر ؓ سب سے پہلے مسجد میں داخل ہوئے اورروضہ پاک پرحاضرہوکرسلام پیش کیا ،(کعب احبار نے سلام پیش کیا ہوگا)۔وفاءلوفاء: ۱۸۴/۴)

عبداللہ بن دینارؒ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ دیکھا کہ وہ روضہ رسول پر کھڑے ہوتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکر اورحضرت عمر ؓ پر درود بھیجتے ۔(موطاامام مالک کتاب الصلوة ،باب ماجاءفی الصلوة علی النبی: ۵۷۴)حضرت نافع فرماتے ہیں: حضرت ابن عمرؓجب کہیں سفرسے واپس آتے ،تو روضہ پرحاضرہوتے اورعرض کرتے ،السلام علیک یا رسول اللہ !السلام علیک یاابابکر ،السلام علیک یاابتاہ ۔(رواہ عبدالرزاق کتاب الجنائز،باب السلام علی قبرالنبیﷺ: ۶۷۲۴)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا مشاہدہ

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے اپنی کتاب”حجة اللہ البالغہ “میں مذکورہ حدیث کے تحت گفتگو کی ہے، خلاصہ درج ذیل ہے:روح پاک جو مشاہدہ حق میں مشغول ہے اور جس کا کسی طرف التفاف باقی نہیں رہا، باذن الٰہی وہ سلام پیش کرنے والے کی طرف ملتفت ہوتی ہے اور جواب دیتی ہے، یعنی روح پاک سے سلام کرنے والے کو فیض پہنچتا ہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں: میں نے ۱۱۴۴ھ میں جب میرا قیام مدینہ منورہ میں تھا، اس بات کا بار بار مشاہدہ کیا ہے،یعنی روح نبوی سے فیض پایا ہے۔(رحمة اللہ الواسعہ ۴/۵۴)

روضہ پر صلوۃ افضل ہے یاسلام

علامہ باجی ؒکی رائے یہ ہے کہ درود افضل ہے، علامہ سخاوی ؒکہتے ہیں کہ روضہ اقدس کے پاس کھڑے ہوکر سلام پڑھنا افضل ہے؛ کیونکہ حدیث میں”مامن مسلم یسلم علیَّ عند قبری“وارد ہواہے۔

لیعلم انَّ السَّلام علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عند قبرہ افضل من الصلوٰة و قال الباجی یدعو بلفظ الصلوٰة والظاہر الاول ۔(القول البدیع ۲۱۶/۱)

شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا ؒصاحب لکھتے ہیں:اس ناکارہ کے نزدیک صلاة کا لفظ (یعنی درود) بھی کثرت سے روایات میں ذکرکیا گیا ہے؛اس لیے بندہ کے خیال میں اگر ہر جگہ درود و سلام دونوں کو جمع کیاجائے،تو زیادہ بہتر ہے، یعنی بجائے السلام علیک یا رسول اللہ، ”السلام علیک یا نبی اللہ“ کے الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ، الصلوٰة والسلام علیک یا نبی اللہ۔ اس صورت میں علامہ باجیؒ اور علامہ سخاویؒ دونو ں کے قول پر عمل ہوجائے گا۔(فضائل درود شریف: ۸ص۲۲)

اذان ،فضائل ،مسائل ،آداب اورموذنین رسول ﷺ پر مشتمل ایک جامع کتاب