صاحبِ اذان حضرت عبداللہ ؓبن زید بن عبد ربہ

عبداللہ ؓبن زید آپ کانام نامی اسم گرامی حضرت عبداللہ ؓبن زید بن عبد ربہ بن ثعلبہ بن زید بن الحارث بن الخزرج ہے ،ابومحمد کنیت ہے ۔(مستدرک ۳۷۸/۳) آپ کی والدہ کا نام سعدة بنت کلیب ہے اور آپ کی نانی کاتعلق یمن سے ہے

محمد بن عبداللہ ؓبن زیدفرماتے ہیں : حضرت عبداللہؓ بن زید بن عبدربہ میانہ قد آدمی تھے نہ پست قد تھے نہ لمبے قدوالے ،حضرت عبداللہ ؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی سے لکھناپڑھنا جانتے تھے ؛حالانکہ عربوں میں لکھے پڑھے لوگ کم یاب تھے۔ (طبقات ۵۳۶/۳)

ایک مرتبہ حضرت عبداللہؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں اپنا باغ صدقہ کرکے حاضرہوئے ،ان کے پیچھے ان کے والدین بھی آگئے اور شکایت کی کہ یارسول اللہ !عبداللہ کے لئے اس مال کے علاوہ کوئی دوسرامال نہیں ہے، اسی پر ہمارا گذر وبسر ہے ،اللہ کے نبی ﷺنے اس باغ کو ان کے والدین کے حوالہ کردیا ،پھر یہی باغ حضرت عبداللہ ؓ کو والدین کے انتقال کے بعد وراثت میں ملا۔(اتحاف الخبرة بزائدالعشرة بحوالہ سنن نسائی کبری۱۳۸/۳)

فضائل

حضرت عبداللہ ؓبن زید بن عبد ربہ کی سب سے بڑی سعادت مندی وفضیلت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اذان کی مشروعیت کا سبب بنایا ، اذان کا مبارک خواب دکھا یا،حضرت عمرؓ کلماتِ اذان والا خواب تقریبًا بیس دن پہلے دیکھ چکے تھے ،اس کے باوجودوہ خواب بھلادیاگیاتھا۔میں اللہ کی عظمت واحسان والی ذات کی بے انتہاءتعریف وبڑائی بیان کرتاہوں اذان کے سلسلہ میں۔

جب حضرت عبداللہؓ نے اذان کا مبارک خواب دیکھا ،تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی تائید فرماتے ہوئے اس کو مشروع فرمایا، تو حضرت عبداللہ ؓ نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے

احمد اللّٰہ ذالجلال،والا٭کرام،حمدًاعلی الاذان کثیرًا اذاتانی بہ البشیر من اللّٰہ٭فالم بہ لدی بشیرًا فی لیالی ،والی بھن ثلا٭ث ،کلما جاءزادنی توقیرًا (رواہ ابن ماجة باب بداالاذان :۵۱)

جب کہ میرے پاس اللہ کی طرف سے خوش خبری سنانے والا(فرشتہ )آیا اوروہ خوش خبری لے کرمیرے پاس تین دن مسلسل نازل ہوا ، جب جب بھی وہ میرے پاس آیا، میری عظمت وعزت میں اضافہ کیا ۔ (قال ابن کثیر ھذالشعر غریب ،وھو یقتضی انہ رای ثلاث لیال حتی اخبربہ رسول اللہ ﷺ ،فاللّٰہ اعلم (السیرة النبویة۳۳۶/۲)

قدیم الاسلام انصاری صحابی

آپ قدیم الاسلام انصاری صحابی ہیں، انصار کی جس جماعت نے رسول اللہ ﷺ سے منیٰ میں ملاقات کی،مدینہ منورہ ہجرت کرنے کی دعوت دی اور ہرطرح سے تعاون کرنے کا وعدہ کیا، اس خوش نصیب جماعت میں حضرت عبداللہ ؓبھی شامل تھے –

نیز آپ بدری صحابی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے اور فتح مکہ کے موقع پر آپ کے ہاتھ میں بنو الحارث کا جھنڈا تھا۔(مستدرک ۳۷۸/۳،سیر۳۷۸/۲،تھذیب الکمال۵۴۰/۱۴)

حضرت عبداللہ ؓبن زیدکے بیٹے حضرت محمد بن عبداللہ فرماتے ہیں: حضرت عبداللہ ؓ منیٰ میں اونٹ ذبح کرنے کی جگہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک انصاری صحابی کے ہمراہ حاضر ہوئے ،رسول اللہ ﷺ قربانی کا گوشت تقسیم فرماہے تھے ،حضرت عبد اللہؓ اور اس انصاری صحابی کو کچھ نہیں ملا ،تورسول اللہ ﷺنے اپنے سرکے بال صاف فرماکران بالوں کو چند افراد میں تقسیم فرمایا ،اس میں سے حضرت عبداللہ ؓ اور اس انصاری صحابی کو بھی مرحمت فرمایا ،محمد بن عبداللہ بن زید کہتے ہیں:وہ بال مہندی اور کتم میں رنگے ہوئے ہمارے پاس موجود ہیں۔(طبقات ۵۳۷/۳،التاریخ الکبیر للبخاری

عبدا للہؓ بن زید سے روایت کرنے والے حضرات

آپ سے آپ کے بیٹے محمد بن عبدا للہ ،حضرت سعید بن المسیب نے روایت کی ہے ،آپ کے پوتے عبداللہ بن محمدبن عبداللہ کے روایت کرنے کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔(مستدرک ۳۷۸/۳،تھذیب التھذیب ۵۴۰/۱۴)

آپ کی مرویات ابوداؤد ،جامع ترمذی ،ابن ماجہ اور سنن نسائی وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہیں۔ (شرح ابی داود للعینی ۴۲۱/۲)

امام بخاری ؒنے آپ کی روایت کو ”افعال العباد“میں ذکرفرمایاہے اور مسلم کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی آپ کی روایات ذکرکی ہیں ۔

حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :ابن عدی اورامام ترمذی نے ؒ امام بخاری سے نقل کیا ہے” لانعرف لہ الا حدیث الاذان “اسی طرح سے بعض دیگرحضرات نے بھی ذکرکیا ہے؛ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے،صحیح بات یہ ہے کے حضرت عبداللہ ؓ سے چھ یا سات روایات آئی ہیں جن کومیں نے مستقل رسالہ میں جمع کیا ہے۔ ( الاصابة فی معرفة الصحابة۱۲۹/۲)

وفات

حضرت عبداللہ ؓبن زید بن عبد ربہ کی وفات ۳۲ھ میں حضرت عثمان ؓبن عفان کے دورِخلافت میں چونسٹھ سال(۶۴) کی عمر میں ہوئی ، حضرت عثمانؓ ہی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔(تھذیب الکمال ۵۴۱/۱۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۸۹/۴) ابن سعد لکھتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں حضرت عبداللہ ؓ کی نسل موجودہے ؛لیکن بہت کم ہے۔ ((طبقات۵۳۶/۳)

اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائے، دین کی شان وعظمت بلندکرنے میں آپ کی طرح ہمیںبھی قبول فرمائے ۔آمین یارب العلمین( اذان ومؤذنین رسول اللہ ﷺ صف۹۱تا۹۴ مؤلفہ عبداللطیف قاسمی )