طلبہ کے ساتھ شفقت اورنرمی

طلبہ کے ساتھ شفقت اورنرمی :استاذ کو چاہئے کہ اپنےطلبہ کے ساتھ شفقت اورنرمی کا معاملہ کرے ،ان کی خوش آمدکرے اور اپنی وسعت کے بقدر ان کے ساتھ احسان کرے-

ہارون عبدری ؒ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم لوگ حضرت ابو سعید خدریؓ کی خدمت حاضرہوتے، تو آپؓ فرماتے : رسول اللہ ﷺ کی وصیت تمہیں مبارک ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا

ان الناس تبع لکم ،وان رجالایاتونکم من اقطارالارض یتفقھون فی الدین ،فاذااتوکم ،فاستوصوابھم خیرا۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ وغیرھما ،ورویناہ نحوہ فی مسندالدارمی عن ابی الدرداءؓ)

لوگ تمہاری اتباع کریں گے اور کچھ لوگ عالَم کے چپہ چپہ سے تمہارے پاس دین کا علم حاصل کرنے کے لئے آئیں گے،جب وہ تمہارے پاس آئیں،توتم ان کے ساتے بھلائی کا معاملہ کرو۔

طلبہ کے ساتھ خیر خواہی

استاذ کو چاہئے کہ طلبہ کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے ،اس لئے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا

الدین النصیحة ،قلنا :لمن یارسول اللہ !قال للہ ،ولکتابہ،ولرسولہ ،ولائمة المسلمین ،وعامتھم ۔(رواہ مسلم )

دین سراسرخیرخواہی کانام ہے ،ہم نے عرض کیا ،خیر خواہی کس کے ساتھ کی جائے ؟ فرمایا: اللہ کے کے ساتھ ،اس کی کتاب ،اس کے رسول ،مسلمانوں کے ائمہ اورعام مسلمانوں کے ساتھ کی جائے –

اللہ اور اس کی کتاب کی خیرخواہی میں اس کی کتاب کے پڑھنے والے کا اکرام ،اس کی مصلحتوں کی جانب اس کی رہنمائی ورہبری ،اس کے ساتھ شفقت کامعاملہ ، اس کے حصولِ علم میں جو مدد ہوسکے کرنااور اس کے دل کوخوش کرنا بھی شامل ہے۔

استاذکوچاہئے کہ وہ طالبِ علم کی تعلیم کے سلسلہ میں کشادہ دل ،اس کے ساتھ مہربانی کرنے والا اور اس کی تعلیم کا شوقین ہو۔

استاذ کو چاہئے کہ طالبِ علم کو اس کی فضیلت یاد دلاتارہے تاکہ فضائل کا استحضار اس کے لئے نشاط اور حصول ِعلم کا شوق وجذبہ کا سبب ہو-

طالبِ علم کودنیا سے بے رغبت بنائے ،دنیاکی طرف مائل ہونے ، اس سے دھوکہ کھانے سے بچائے ،طالبِ علم کو قرآن پاک کی مشغولی اور دینی علوم میں لگنے کی فضیلت بتائے ،یہ اللہ کے نیک بندوں کا راستہ ہے اور انبیاءعلیھم الصلوة اولسلام کا شیوہ ہے ۔

طالبِ علم کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے

استاذ کو چاہئے کہ وہ طلبہ کے ساتھ شفقت اورنرمی کا معاملہ کرے ،اس کی ضروریات اور اس کی مصالح کی طرف اس طرح توجہ دے جیسے اپنے اولاد کی ضروریات اور اس کی مصالح کی جانب توجہ دیتاہے-

طلبہ کے ساتھ شفقت میں اپنے اولادکے قائم مقام سمجھے ،کبھی کبھی اس سے بدتمیزی ،گستاخی یابے ادبی ہوجائے ،تو اسے معذور سمجھے ،اس لئے کہ انسان نقائص میں مبتلارہتاہے ،خاص طور سے جبکہ وہ کم سن اور کم عمر ہو۔

استاذ کو چاہئے کہ طالبِ علم کے لئے وہی بھلائیاں وخوبیاں پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے اور طالبِ علم کے لئے ان عیوب ونقائص کو براسمجھے جن کو اپنے لئے براسمجھتاہے ۔

بخاری ومسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمنقول ہے

لایؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ۔

تم میں سے کوئی آدمی مومن کامل نہیں ہوسکتاجب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسندکرے جس کو اپنے لئے پسندکرتاہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس ؓسے منقول ہے کہ آپ ؓ نے فرمایا

اکرم الناس علیَّ جلیسی الذی یتخطی الناس حتی یجلس الی ،لو استطعت ان لایقع الذباب علی وجھہ لفعلت۔

طالب علم پر مکھی بیٹھ جائے ،تو مجھے تکلیف ہوتی ہے

میرے نزدیک معزز طالبِ علم وہ ہے جودوردراز مقام سے میرے پاس آئے تاکہ وہ میرے قریب بیٹھے ،اگراس کے چہرہ پر مکھی بیٹھ جائے اور میں اسے دور کرسکتاہوں ،تو ضرور دور کروںگا ،دوسری روایت میں ہے: اگر اس پر مکھی بیٹھ جائے ،تو مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔

استاذ کو چاہئے کہ اپنے آپ کو طلبہ کے بنسبت بڑانہ سمجھے؛ بلکہ ان کے ساتھ نرمی اختیارکرے اور ان کے ساتھ تواضع اختیار کرے ،عام لوگوں کے ساتھ تواضع اختیارکرنے کے سلسلہ میں بہت سارے فضائل آئے ہیں-

ان لوگوں کے ساتھ جو اس کی اولاد کی طرح ہیں،قرآن ِ پاک کی تعلیم میں مصروف ہیں اور اپنے ہی ساتھ رہتے ہیں بدرجہ اولیٰ ان کے ساتھ تواضع ونرمی کا معاملہ کرناچاہئے ۔

جن سے تم علم حاصل کرتے ہو،ان کے ساتھ نرمی کامعاملہ کرو

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا

لینوا لمن تعلمون ،ولمن تتعلمون منہ ۔

جو لوگ تم سے علم حاصل کرتے ہیں ان کے ساتھ اورجن سے تم علم حاصل کرتے ہوان کے ساتھ نرمی کامعاملہ کرو۔

ایوب سختیانی ؒ سے منقول ہے : عالم کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیارکرتے ہوئے اپنے سرپرخاک ڈالے ۔

طلبہ کو مسنون آداب اور اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا

استاذ وکو چاہئے کہ طالبِ علم کورفتہ رفتہ مسنون آداب ،عمدہ اخلاق سے آراستہ کرے ، طالبِ علم کو اس کے تمام امور ،خلوت وجلوت ،ظاہر وباطن میں محتاط رہنے کاعادی بنائے –

طالب ِعلم کو اپنے قول وعمل سے اخلاص ،صدق ،حسن نیت اور ہرآن اللہ تعالیٰ کے استحضار کی ترغیب دے اور طالبِ علم کو بتائے کہ اس کے ذریعہ اس پر انوار ومعارف کے دروازے کھلتے ہیں، شرح صدر کی نعمت حاصل ہوتی ہے،اس کے سینہ سے علم و حکمت کے چشمے پھوٹیں گے اور اس کے علم اور احوال میں ترقی نصیب ہوگی۔(حاملینِ قرآن ۳۵تا۳۸)

دینی تعلیم فرض ِ کفایہ

طلبہ کو علم ِدین سکھانا فرض ِ کفایہ ہے،اگراس کے لئے ایک ہی شخص قابل ہو، تو اس پر فرض عین ہوجاتاہے ،اگر بہت سارے قابل افراد ہوں؛ لیکن کوئی علم نہ سکھائے ،تو سب گنہگار ہوجائیں گے،اگر بعض افراد اس ذمہ داری کو سنبھالیں،توسب سے گناہ ساقط ہوجائے گا ،

اگر کسی پڑھانے والے سے تقاضاکیاگیا،اس نے انکار کردیا ، اس میں دوقول ہیں ،راجح قول یہ ہے کہ وہ گنہگار نہ ہوگا؛ لیکن بلاعذر اس کے لئے انکارکرنامکروہ ہوگا ۔ (حاملینِ قرآن ۳۵تا۳۸)