مؤذنین کا مقام ومرتبہ

اسلام کے عظیم شعار اذان دینے والے، اللہ کے منادی ،اس کے ترجمان اور اللہ تعالیٰ کے مُبلِّغ اورمؤذنین کا مقام ومرتبہ شریعت اسلامیہ میں بہت بلند ہے، احادیث شریفہ میں مؤذنین کے بڑ ے فضائل آئے ہیں ۔

حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :لایسمع مدی صوت المؤذن جن، ولا انس،ولاشیءالا شھد لہ یوم القیامة (رواہ البخاری،۸۶/۱)

جب مؤذن اذان دیتاہے اور اللہ تعا لیٰ کی عظمت ،کبریائی ،اس کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اعلان کرتاہے،تو مؤذن کی آواز انسان ،جنات اور دیگرمخلوقات جو بھی سنتے ہیں، قیامت کے دن اس کے لئے گواہی دیں گے، ،بلاشبہ مؤذنین کی یہ بڑی قابل رشک فضیلت ہے ۔

جہنم پر مؤذنین کے جسم حرام

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تلک لحوم حرمہا اللہ علی النار لحو م ا لمؤذنین۔ (کنز العمال عن عمر ؓ ۲۸۲/۷) اللہ تعالیٰ نے جہنم پر مؤذنین کے جسموں کو حرام قرار دیا ہے ۔

مؤذنین کے لئے آخرت میں بھی اذان عزت ،سعادت ،اعزاز واکرام اورسر بلندی وسرخروئی کاسبب ہوگی ۔ حضرت معاویہ ؓسے روایت ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : المؤذنون اطول الناس اعناقا یوم القیامة ۔(رواہ مسلم باب فضل الاذان۱۶۷/۱) مؤذنین قیامت کے دن تمام لوگوں میں سب سے زیادہ لمبی گردن (عزت وسربلندی) والے ہوں گے۔

مؤذنین مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے

ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

ثلثة علی کثبان المسک یوم القیامة ،عبد ادی حق اللّٰہ ،وحق مولاہ ،ورجل ام قوما ،وھم بہ راضون ،ورجل ینادی بالصلوة الخمس کل یوم ولیلة،۔( رواہ الترمذی باب ماجاءفی المملوک الصالح۱۹/۲)

قیامت کے دن تین قسم کے لو گ مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے ،ایک وہ نیک غلام جس نے دنیا میں اللہ کا حق بھی ادا کیا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کیاہو، دوسرا وہ آدمی جو کسی جماعت کا امام بنا اور اس کی عملی اور پاکیزہ سیرت کی وجہ سے مقتدی حضرات خوش ہوں ،تیسرا وہ شخص جو دن رات کی پانچ نمازوں کے لئے روزانہ اذان دیا کرتاتھا ۔

مؤذنین کے لئے خصوصی دعا

رسول اللہ ﷺ نے مؤذنین کے لئے مغفرت کی خصوصی دعا فرمائی ہے ۔اللھم اغفر للمؤذنین (رواہ الترمذی باب الا ما م ضامن والموذن موتمن۵۱/۱) اے اللہ ! مؤ ذنین کی مغفرت فرما ۔ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من اذن محتسبا سبع سنین ،کتب لہ براءة من النار ۔(رواہ ابن ماجةعن ابن عباس ؓباب فضل الااذان ۵۳) جو شخص سات سال ثواب کی نیت سے اذان دیتا رہے گا ،اس کے لئے جہنم سے خلاصی کا پروانہ لکھ دیا جاتاہے

ایک دوسری روایت میں آیاہے :من اذن ثنتی عشرة سنة ،وجبت لہ الجنة ،وکتب لہ بتاذینہ فی کل یوم ستو ن حسنة ،ولکل اقامة ثلثو ن حسنة ۔(رواہ ابن ماجہ عن ان عمر باب فضل الاذان: ۵۳)

جو شخص بارہ سال تک اذان دیتا رہے ،اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے اور اس کی اذان کے بدلے ہر دن ساٹھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اقامت کے بدلے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں،مذکورہ احادیث سے مؤذنین کا مقام ومرتبہ واضح ہوتاہے ۔

علماءکرام فرماتے ہیں: ان روایات میں بظاہر جو تعارض نظر آرہا ہے ،حقیقة ً کوئی اختلاف نہیں ،اخلاص کی کمی وزیادتی اورکثرت اذان وقلت اذان کے اعتبا ر سے اس طرح کاتعارض ہوتاہے ، بعض علماءنے فرمایا: انسان کی زیادہ سے زیارہ عمر ایک سو بیس سال اور عمومًا ساٹھ وستر سال ہوتی ہے،لہذا ان احادیث سے یہ مراد ہے کہ اگر انسان اپنی عمر کا دسواں حصہ اذان دے تو یہ فضیلت حاصل ہوگی ۔(حاشیة ابن ماجة: ۵۳)

ایک لمحہ ءفکریہ برائے ذمہ داران مساجد

اذان اور مؤذنین کی جوغیر معمولی فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں ،ان کا راز یہی ہے کہ اذان ایمان واسلام کا شعار ہے ،اپنے معنی اور ترتیب کے اعتبار سے دین کی نہایت بلیغ دعوت وپکار ہے اور مؤذن اس کا داعی اورگویا اللہ تعالیٰ کا نقیب ومنادی ہے ۔

خیر القرون میں مؤذن کو کما حقہ عزت واحترام حاصل تھا اوریہ سراپاقابل رشک تھے ،حضرات صحابہ ؓ اذان دینے کاشرف حاصل کرنے کے متمنی وخواہش مند رہتے تھے۔ الغرض خیر القرون میں آپ ﷺ کی ترغیبی احادیث اور مؤذنین کے لئے خصوصی دعائے مغفرت اللھم اغفر للمؤذنین کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں مؤذن کو بڑی عزت وعظمت حاصل تھی ۔

افسوس !آج ہم مسلمانوں نے اس حقیقت کو بالکل بھلادیا اور اذان کہنا ایک حقیر سا پیشہ بن گیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث مکمل طور پر صادق آتی ہے ،جس میں آپ علیہ الصلو ة والسلام نے حضرات صحابہ ؓ سے فرمایا : ان بعدکم زمان سفلتھم مؤذنھم ۔( کنز العمال عن ابی ھریرة ۲۸۲/۷) تمہار ے زمانہ (خیر القرون )کے بعد ایسا زمانہ آئے گا جس میں قوم کے کم حیثیت اور بے قیمت لوگوں کو مؤذن بنایا جائے گا ۔

ایک زمان میں اذان کوکمزور لوگوں کے حوالہ کیاجائے گا

شبیل بن عوف ؒ کہتے : حضر ت عمر ؓ ہمارے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: من مؤذنکم الیوم ؟ہم نے کہا ،ہمارے غلام ،حضرت عمر ؓ نے فرمایا :ان ذالک بکم لنقص کثیر ،یہ تمہاری بہت بڑی کمزوری ہے ۔(رواہ عبد الرزاق ،باب فضل الاذان ۳۶۲/۱)

حضرت عمر ؓ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اذان اتنی بے قیمت نہیں ہے کہ اس کوغلاموں کے حوالہ کردیاجائے ؛بلکہ یہ تو اتنی اہم عبادت ہے کہ ہر آدمی امیر وغریب اورغلام ومالک اس کو انجام دینے کی کوشش کرے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سیاتی علی الناس زمان یترکو ن الاذان علی ضعفائھم،وتلک لحوم حرمھا اللہ علی النار لحوم المؤذنین (عن عمر ؓکنزالعمال۲۸۲/۷) لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں وہ اذان کو سماج ومعاشرہ میں کمزور لوگوں کے حوالہ کردیں گے ؛حالانکہ ان کے جسم ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ کوحرام قرار دیاہے ۔

قابل قدر قارئین کرام

قابل قدر قارئین کرام !س زمانہ میں ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں ،ہم دیکھ رہے ہیں کہ اذان دینا ایک حقیر کام بن چکا ہے ، پڑھے لکھے لوگ بھی اذان دینے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔

ہمارے سماج ومعاشرہ میں مؤذن اس شخص کو بنایاجاتاہے جو انتہائی پسماندہ ،دینی وعقلی اعتبار سے بے حد کمزور، بدنی اعتبار سے معذورا وردنیوی اعتبار سے مجبورولاچار ہو،چاہے وہ شخص دیندار ہویانہ ہو،چاہے وہ کلمات ِاذان کو صحیح ادا کرسکتاہویا ادانہ کرسکتاہو ؛حالانکہ ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی ترغیبی احادیث اور حضرات صحابہ ؓ کے اقوال اور اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر اورواقعات موجود ہیں ،ہمارا یہ عمل ایک عظیم شعار اسلام کے ساتھ بے حرمتی وناقدری نہیں ہے، تو اور کیا ہے ؟اللہ تعالیٰ ہمارے اس عظیم ترین اجتماعی گناہ کو معاف فرمائے اورتوبہ اوراصلاح کی ہمیں تو فیق عطا فرمائےاورہمیں مؤذنین کا مقام ومرتبہ کی قدرکرنے کی توفیق عطافرمائے ۔

معاشرہ وسماج میں اس کی نوبت کیوں پیش آئی

سوچنے اورسمجھنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرہ وسماج میں اس کی نوبت کیوں پیش آئی ؟اس کی ایک ظاہری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم مؤذنین حضرات کی عزت وتعظیم اور ان کے مقام کے شایان شان اکرام واحترام نہیں کرتے ؛بلکہ امام ومؤذن کو اپنے گھر کا غلام وخادم سمجھتے ہیں ،ان کی معمولی غلطی پر ان کی تحقیر وتذلیل کرتے ہیں ،محلہ کا ہر کس وناکس مسجد میں پہنچ کر ان سے الجھتاہے،ان وجوہ کی بنا پر لوگ اس عظیم ذمہ داری کو قبول کرنے سے بھاگتے ہیں،حقیقت میں مؤذنین حضرات دنیا وآخرت میں قابل تعظیم وتکریم اورلائق احترام ہیں ،ہم مؤذنین کا مقام ومرتبہ جانتے نہیں، جس کی وجہ سے ان کی قدربھی نہیں کرتے

رسو ل اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے،ان پر اگلے پچھلے تما م لوگ رشک کریں گے ،ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو دنیامیں صبح وشام پنج وقتہ نمازوں کے لے اذان دیاکرتاتھا۔ دوسری اہم وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم لو گ مؤذنین حضرات کے بنیادی دنیاوی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے ؛حالانکہ خیر القرون میں ان کی دنیاوی ضروریات کا خیال رکھا جاتاتھا اور ان کا مالی تعاون کیاجاتاتھا ۔

علامہ شبلی نعمانی ؒ ”الفاروق“میں لکھتے ہیں

حضرت عمر ؓ نے ہر شہر وقصبہ میں امام ومؤذن مقرر فرمایا اوربیت المال سے ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ (بحوالہ تعمیر حیات ج۴۷ش ۲۱۔۲۲)لہذا ہمیں چاہئے کہ مؤذنین حضرات کی بنیادی ضروریات کا خاطر خواہ خیال رکھیں ،تاکہ یہ حضرات شعار اسلام کی اس عظیم ذمہ داری کو بحسن وخوبی ا وریکسوئی کے ساتھ انجام دینے میں لگے رہیں۔

مؤذنین کے حقوق کی ا دائیگی اور ان کی حاجت براری دنیا میں خیر وبرکت کا باعث اورآخرت میں فلاح وسعادت کا ذریعہ ہے ،ان کی تذلیل وتحقیر اوران کی حق تلفی دنیا میں ذلت ورسوائی اور آخرت میں ناکامی ونامرادی کا سبب ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو مؤذنین کامقام ومرتبہ جاننے اوران کی صحیح قدر کرنے اور ان کے حقوق کی ادا ئیگی کی توفیق عطاءفرمائے ۔ آمین۔اذان ومؤذنین رسول اللہ ﷺ :۳۲تا۳۷)http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com