مساجد میں منبرکی ابتداء

ابتدائے اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لئے کھڑے ہوتے تھے ،توکھجور کے تنے کا سہارلیاکرتے تھے جواس جگہ نصب تھا ،جب لمبی گفتگوہوتی ،توآپ تھک جاتے تھے، اس لیے ایک انصاری عورت نے جس کا نام عائشہؓ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ یارسول اللہ ! میراغلام بڑھئی ہے ، وہ آپ کے لیے منبر تیارکرے گا؛تاکہ جب آپ لوگوں سے خطاب کریں ،تواس پر بیٹھ کر خطاب فرمائیں ،آپ کوتھکان نہیں ہوگی ،( شایدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا)

چند دن بعدحضرت سہل بن سعدؓکے ذریعے انصاریہ عورت کو خدمت اقدس میں بلابھیجا اورفرمایا: تمہارے غلام سے کہو کہ میرے لیے منبربنائے ،جب لوگوں سے گفتگوکروں ،تو اس پر بیٹھاکروں،چنانچہ وہ انصاری لڑکا جس کانام راجح قول کے مطابق میمون ہے ،مدینہ کے قریب غابہ نامی علاقہ سے جھاؤ کی لکڑی لے آیا ، منبرتیارکیا اوراس منبر میں تین سیڑھیاں تھیں۔(رواہ البخاری عن سہل بن سعد:باب الاستعانة بالنجاروالصناع:۴۴۸مسلم کتاب الصلوة ،باب جواز الخطوة والخطوتین:۵۴۴،فتح الباری۶۸۳/۱)

تمیم داریؓ نے منبربنانے کی درخواست کی

حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بھاری ہوگیا ،توحضرت تمیم داریؓ نے عرض کیا ،یارسول اللہ !ہم آپ کے لیے منبربنائیں؟جس پر آپ خطبے کے وقت تشریف فرماہوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بقول ابن سعدمسلمانوں سے مشورہ کرنے کے بعد )فرمایا: ضروربنائیے۔(ابوداؤد،کتاب الصلوة ،باب اتخاذالمنبر:۱۵۵۱،فتح الباری۴۹۰/۲)

بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ تمیم داری ؓنے اس انصاری لڑکے کو منبربنانے کا ڈیزائن اورطریقہ بتایاہے ،لہذا تمیم داری کی جانب منبربنانے کی نسبت مجازی ہے ،منبر جھاؤ کی لکڑی سے تیارکیاگیا،اسی وقت سے مساجد میں منبرتیارکیاجانے لگا ہے ،باتفاق مسلمین جمعہ وعیدین کے خطبات منبرپردینا مستحب ہے ۔

عن سلمة بن الاکوع ؓقال کان بین منبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وبین الحائط کقدرممرالشاة ۔(مسلم کتاب الصلوة باب الدنومن السترة :۹۰۵،۱۷۹۱،ابوداؤد،کتاب الصلوة ،باب موضع المنبر:۱۵۵۱)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اورقبلہ والی دیوارکے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے برابرفاصلہ تھا۔

رسول اللہ ﷺ کے منبر میں تین سیڑھیاں تھیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر میں تین سیڑھیاں تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھتے اور تیسری سیڑھی پر تشریف فرماہوتے ،یہی تین سیڑھیوں والامنبرمسجد میں نبوی میں رکھاگیاتھا؛یہاں تک حضرت معاویہؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں مدینہ کے حاکم مروان بن حکم کے پاس حکم بھیجاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر میرے پاس بھیجو ،مروان بن حکم نے ایک بڑھئی کو بلاکر منبرکو اس کی جگہ سے نکال لیا ،تو پورے مدینے میں اچانک تاریکی چھاگئی۔

زبیر بن بکارکہتے ہیں ہم نے دن میں ستارے دیکھے ، مروان نے فورًا بیان شروع کیا اورکہا :میں نے حضرت معاویہؓ کے حکم سے منبررسول اللہ کو اس لئے نکالاتاکہ اس کو بلندکرو ں ؛تاکہ خطیب کو تمام حاضرین دیکھ سکیں ،چنانچہ نے مروان نے منبررسو ل اللہ میں مزیدچھ سیڑھیوں کا اضافہ کردیا ،کل نو سیڑھیاں ہوگئیں،یہ اضافہ شدہ منبر ترمیمات کے ساتھ مسجد نبوی چھ سو چون ہجری (۶۵۴ھ)تک رہا ،پھرایک حادثہ میں جل گیا ۔(فتح الباری کتاب الجمعة،باب الخطبة علی المنبر۴۹۱/۲)

ابوالزناد کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری سیڑھی پر بیٹھتے تھے ،دوسری سیڑھی پر پیررکھتے تھے، جب حضرت ابوبکرؓ خلیفة المسلمین ہوئے ،تو دوسری سیڑھی پر بیٹھتے تھے ،تیسری سیڑھی پر پیررکھتے تھے، جب حضرت عمر ؓ امیرالمؤمنین بنے ،تو تیسری سیڑھی بیٹھتے تھے اورپیرزمین پر رکھتے ،جب کھڑے ہوتے ،تب بھی تیسرسیڑھی پر کھڑے ہوتے تھے،جب حضرت عثمانؓ امیرالمؤمنین بنے ،توابتدائی چھ سالوں میں حضرت عمر ؓ کی ترتیب ہی کو اختیارفرمایا ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب کے موافق کرنے لگے ۔( وفاءالوفاءباخباردارالمصطفی،الباب الرابع، الفصل الرابع۱۰/۲ )
سب سے پہلے حضرت عثمان ؓ نے منبر پر چادربچھائی ،حضرت امیرمعاویہ ؓ اورحضرت عبداللہ بن زبیر ؓسے بھی منبروں پرچادربچھانامنقول ہے۔( وفاءالوفاءباخباردارالمصطفی،الباب الرابع، الفصل الرابع۲۰/۲ )

منبرسے متعلق مسائل

مسئلہ(۱) سنت متوارثہ یہی ہے کہ منبرتین سیڑھیوں والا ہو ،جانب قبلہ محراب کی داہنی طرف ہو یعنی خطیب مصلیوں کی طرف متوجہ ہو،تومنبرمحراب کی بائیں جانب ہو ۔(عمدة القاری باب الخطبة علی المنبر: ۷۵/۵)علامہ ابن عابدین شامی تحریرفرماتے ہیں:

مسئلہ(۲)جمعہ وعیدین کاخطبہ منبر پردینا مستحب ہے ، اگرمنبر موجودنہ ہو،توکسی بلند جگہ پرکھڑے ہوکرخطبہ دے ۔(عمدة القاری المؤذن الواحد یوم الجمعة۷۵/۵)

مسئلہ(۳)منبر پر چادر وغیر بچھانے کی شرعًاگنجائش ہے ۔ ( وفاءالوفاءباخباردارالمصطفی،الباب الرابع، الفصل الرابع۱۰/۲ )

من السنة ان یخطب علیہ اقتداءبہ صلی اللہ علیہ وسلم وان یکون علی یسارالمحراب ومنبرہ صلی اللہ علیہ وسلم کان ثلاث درج ۔(ردالمحتارکتاب الجمعة۳۹/۳)

نئے طریقے کے منبر

آج کل مسجدوں میں ایسے منبربنائے جارہے ہیں جوزمین سے خاصے اونچے ہوتے ہیں ،خطیب محراب میں داخل ہوکر منبرپرنمودارہوتاہے ،منبرپر محض ایک کرسی ہوتی ہے جس پرخطیب دوخطبوں کے درمیان بیٹھتاہے ،منبرکی یہ صورت خلافِ اولی اور خلافِ سنت متوارثہ ہے ۔(جدیدفقہی مسائل ۱۴۵/۱)

ایک قابل غوربات :منبر کا مقصد یہ ہے کہ مسجد میں موجود ہرشخص منبر پرخطبہ دینے والے شخص دیکھ سکے ؛لیکن موجودہ دورمیں مساجد میں اہتمام سے محراب بنائے جاتے ہیں ،محراب ہی میں ہی منبر بھی بنادیاجاتاہے ،جس کی وجہ سے مسجد کے ایک جانب (حتی الفلاح )کے لوگوں کو خطیب صاحب نظرآتے ہیں ،دوسری طرف والوں کو نظرنہیں آتے ،جس کی وجہ سے منبر کا مقصد حاصل نہیں ہوتاہے ،لہذا اس سلسلے ذمہ داران مساجد اور علمائے کرام کو توجہ دینی چاہئے ؛تاکہ منبر سنت کے مطابق بنائے جائیں ۔