مسجدکی خدمت کرنے والوں کے لئے ضروری باتیں

مسجدکی خدمت کرنے والوں کے لئے کچھ ضروری باتیں:اخلاص اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

انما یعمرمساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الآخر،واقام الصلوة ،وٰاتی الزکوة۔ (التوبة :۱۸)

مساجد کی تعمیر صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ،نمازپڑھتے ہیں اور زکوة اداکرتے ہیں ۔

علماءنے فرمایا : مسجد کی ظاہری تعمیر :یعنی مسجد کے لئے زمین وقف کرنا ،تعمیر ی اشیاءفراہم کرنا اور اس کی تعمیرکرنا ، مسجد کی ضرریات کی تکمیل کرنا اورمسجد کی مرمت کرنا یہ ظاہری تعمیر ہے ۔

مسجد کی معنوی تعمیر :نما ز،ذکر ،تلاوت ،حصول علم وغیرہ اعمال کے ذریعہ مسجد کو آباد کرنا اور مسجد کی آبادی کے لئے لوگوں کو ایمان اور نماز کی دعوت دینا تاکہ لوگ مسجد میں حاضرہوکر اللہ کی عبادت کریں یہ بھی مسجد کی تعمیر وآبادی ہے ۔

مذکورہ آیت کا مفہوم

مسجد کی حفاظت کرنا ،اس کی پاکی صفائی کرنا ،اس کی ضرویات کی تکمیل کرنا ،مسجد کے انتظام کو سنبھالنا ،امامت کرنا اوراذان دینا یہ بھی مسجد کی آبادی وتعمیر میں داخل ہے اورمذکور آیت کے مفہوم میں شامل ہے ۔(مستفاد از معارف القرآن۳۲۹/۴)

بہر حال مسجد کی آبادی مذکورہ تینوں معنی کے اعتبار سے بہت بڑی عبادت ہے ،مؤمن کی پہچان ہے ؛لیکن عبادت اگر ریائی کاری ،شہرت یا محض اجرت کے لیے ہو،تو اللہ کے نزیک ہمارے مذکورہ اعمال کی کوئی قدر قیمت نہیں ہوگی ۔

سب سے پہلی بات جو مسجدکی خدمت کرنے والوں کے لئےضروری ہے، وہ یہ کہ مسجدکی خدمت کے ذریعہ اللہ کی رضامندی وخوشنودی کی نیت کی جائے،ریائی کاری ،شہرت اوراحسان جتلانا کے خاطرہرگزنہ کی جائے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:وماامروا الالیعبدوااللہ مخلصین لہ الدین حنفاء،ویقیمواالصلوة ،ویوتوا الزکوة ،وذالک دین القیمة۔ (البینة:۵)

ان کویہی حکم ہوا کہ ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی راہ پرخالص کرکے اللہ ہی کی بندگی کریں ، نماز کو قائم کریںاور زکوة دیں،یہی ہے مضبوط لوگوں کا راستہ ۔

بخاری ومسلم میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کا ارشاد ہے انما الاعمال بالنیات ،وانما لکل امرأ مانوی اعمال کا دارومدار نیتوں پرہے ،اور ہرآدمی کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے ۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ارشادفرمایا انمایعطی الرجل علی قدرنیتہ۔ ہر شخص کو اس کی نیت کے بقدر دیاجاتاہے ۔

ایک صحابہ سے مروی ہے انما یعطی الناس علی قدر نیاتھم لوگوں کو ان کی نیتوں کے بقدر دیاجاتاہے ۔

اخلاص کی تین علامتیں

ذوالنون مصری رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا اخلاص کی تین علامتیں ہیں : عام لوگوں کی تعریف وتنقیص عمل کرنے والے کے نزدیک دونوں برابر ہو ں(۲)اعمال میں دیکھنے کے عمل کو بھول جانا (کتنا کیا ،کیا کیا ،عمل کرے اور چھوڑدے )(۳)عمل کا ثواب آخرت میں طلب کرنا ۔

حضرت فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے

ترک العمل لاجل الناس ریاء،والعمل لاجل الناس شرک ،والاخلاص ان یعافیک اللہ منھما۔

لوگوں کی وجہ سے عمل کو چھو ڑناریاکاری ہے ، لوگوں کے لئے ( دکھانے کے لئے )عمل کرنا شرک ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دونوں سے محفوظ رکھے ۔

اس لئے ضروری ہے کہ ہم مسجدکی خدمت جس اعتبار سے بھی خدمت کریں :انتظامی ذمہ داری ،امامت کی ذمہ داری ،اذان دینے کی ذمہ داری ، مسجد کی صفائی کی ذمہ داری یا مالی اعتبار سے ہم مسجد کی خدمت کررہے ہوں ،ہم میں سے ہر ایک کے لئے اپنی نیت کی اصلاح کرنی ضروری ہے کہ ہم ان خدمات سے اللہ کی خوشنود ی ورضامندی طلب کریں ۔

اگر ہم اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے اگر چہ خدمت کے بدلہ میں کچھ معاوضہ لیں؛ لیکن ہماری نیت مسجد کی آبادی کی ہو،تو ۔ان شاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہم اجرجزیل او رانعام عظیم پائیں گے ،ورنہ ہماری یہ خدمات ضائع ہوجائیں گی ۔

مصلیوں کے ساتھ حسن سلوک

مسجدکی خدمت کرنے والوں کے لئے (متولی ،امام ،مؤذن وغیرہ ) ضروری ہے کہ وہ وسیع الظرف ہوں،خوش اخلاق ہوں،اگرکسی مصلی سے بے اصولی ہوجائے ،تو اس پرغصہ نہیں کرناچاہئے ؛بلکہ اس کو محبت سے سمجھانا چاہئے ۔

حضرت ابوہریرة ؓ فرماتے ہیں ایک دیہاتی مسجد میں آیا اور اس نے مسجد ہی میں پیشاب کرناشروع کردیا ،لوگ تیزی سے اس کی طرف لپکے تاکہ اس کوپیشاب کرنے سے روکیں ،برا بھلا کہیں ، آپ علیہ السلام نے حضرات صحابہ سے فرمایا: اس کو چھوڑو، پیشاب کو روکنے پر مجبورنہ کرو (اس لئے کہ بعض اوقات پیشاب کو روکنے کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوجاتاہے )

جب وہ دیہاتی پیشاب سے فارغ ہوا، توآپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا : اس کے پیشاب کرنے کی جگہ پر ایک ڈول پانی بہادواور حضرات صحابہ ؓ سے فرمایا :انما بعثتم میسرین ولم تبعثوامعسرین تم کو آسانی وسہولت پیداکرنے والابناکر بھیجاگیا ہے ،تم کولوگوں کے لئے تنگی اورپریشانی میں مبتلاکرنے والا بناکربھیجانہیں گیاہے ۔ (بخاری :۶۱۲۸،۹۰۵/۲)

حضور جیسا معلم نہ آپ سے پہلے دیکھا ،نہ آپ کے بعد

حضرت معاویہ بن حکم ؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءمیں نماز پڑھ رہاتھا ،ایک مقتدی کو چھینک آگئی ،(چونکہ میں چند دن پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا ،مسئلہ معلوم نہیں تھا کہ نماز میں چھینک کا جواب دینا درست نہیں ہے )میں نے یرحمک اللہ کہا ،دیگر مقتدی میری طرف گھورگھوکر دیکھنے لگے ۔

میں نے کہا :تمہاری ماں تم پر روئے،تمہیں کیا ہوگیا کہ میر ی طرف گھورگھورکر دیکھ رہو،تو ان حضرات نے اپنی رانوں پر اپنے ہاتھوں کو مارا ،تو میں نے سمجھاکہ یہ لوگ مجھے خاموش کرنا چاہتے ہیں ،تو میں خاموش ہوگیا ،جب آپ علیہ السلام نماز سے فارغ ہوئے ۔میرے ماں باپ آپ پرقربان ۔مارایت معلمًا قبلہ، ولابعدہ احسن تعلیمًامنہ۔میں نے آپ جیسا معلم نہ آپ سے پہلے دیکھا ،نہ آپ کے بعد،بہترین تعلیم دینے والے تھے ۔

فواللہ ماکھرنی، ولاضربنی، ولاشتمنی ،قال ان ھذہ الصلوة لا یصلح فیھا شی من کلام الناس، انما ھی التسبیح والتکبیر،وقراءة القرآن ،اوکما قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

خداکی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہ ڈانٹا ،نہ مارا، نہ ہی برابھلا کہا ،بس ارشاد فرمایا : نماز میں لوگوں کی بات چیت کی بالکل گنجائش نہیں ہے ،نماز تو صرف تسبیح ،تکبیراو رقراءت قرآن ہے ۔ (رواہ مسلم :۵۳۷،۳۰۲/۲)

مذکورہ بالا حدیثوں سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے مسجد میں بے اصولی کرنے والوں کے ساتھ کیسی شفقت ومہربانی اور حسن اخلاق کا مظاہرفرمایا اور حضرات صحابہ کوبھی تعلیم دی کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اورحسن اخلاق کا معاملہ کرو۔

بے اصولی کرنے والے کو شفقت سے سمجھائے

لہذا مسجدکی خدمت کرنے والوں کے لئے(متولی ،امام ،مؤذن یا عام خادم )کو سوچنا چاہئے کہ جب کوئی مسجد میں بے اصولی کرتاہے ،مثلًا برقی پھنکا چلادیا ،یا لائٹ جلادیا ،یا کوئی دروازہ کھولدیا ،یا مؤذن کی مخصوص جگہ پر کوئی کھڑاہو جائے ،توہماراان لوگوں کے ساتھ کیسارویہ ہوتاہے ؟اگر کوئی استنجاءخانہ یا وضوخانہ میں مصروف ہو،تو ہم اس کے ساتھ کیساسلکوک کرتے ہیں ؟

لہذاکسی آدمی سے مسجد میں کوئی بے اصولی وبے ضابطگی ہوجائے، تو اس کو نرمی وشفقت سے بات سمجھانا چاہئے ، اپنی بداخلاقی کا مظاہرنہیں کرنا چاہئے ،نیز خدامِ مسجد کوبھی آپس میں ایک دوسرا کا ادب واحترام،شفقت ومہربانی کا معاملہ کرنا چاہئے ۔

بعض مرتبہ ذمہ دارنِ مساجد وخادمینِ مساجد کے تلخ رویہ کی وجہ سے مصلی مسجد کو آنابند کردیتے ہیں ،یا وہ لوگ دوسری مساجد کا رخ کرتے ہیں یا گھروں میں بغیرجماعت کے نماز پڑھتے ہیں ،گویا ہم نے اپنے بداخلاقی سے لوگوں کو مسجد میں آنے سے روکا اور ہماری وجہ سے مسجد کی آبادی متاثرہوئی ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکرفیہ اسمہ،وسعی فی خرابھا۔ (البقرة : ۱۱۴)

اس سے بڑا ظالم کون ہے جو لوگوں کو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا نام لینے سے روکے اور مسجدوں کو ویران کرنے کی کوشش کرے ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم اپنی نادانی اور بد اخلاقی کی بناپر اس آیت کی وعید میں شامل ہوجائیں۔

آداب واحکام ،فقہ وفتاوی ،سیرت وسوانح اوردیگراصلاحی فکری اورعلمی وتحقیقی مضامین کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.comکا مطالعہ کریں اور دوست واحباب کو لنک شیئرکریں۔