مصائب ،حوادث اورامراض برےاعمال کےاثرات

مصائب ،حوادث ،آفات اورامراض برےاعمال کے اثرات: حضرت مولانامفتی محمدشفیع عثمانی رحمہ اللہ

محترم قائین کرام !اس وقت ہم تاریخ کے بدترین تاریک دورسے گزررہے ہیں،ہرسو ظالم ،جابرخائن مفادپرست حکام کا تسلط،ظلم واستبدادکا کاطوفان ، حق تلفی و نا انصافی کا دوردورہ ،اسلامی شعائر کی توہین ،بے کسی وپس ماندگی،مزیدبراں حوادث ،آفات ،مصائب ،جدید ،لاعلاج اور وبائی امراض اورکثرت اموات۔۔۔

سورۃ الانعام کی مذکورہ آیات ان ہی مضامین پر مشتمل ہیں جو ہمارےناگفتہ بہ حالات پر سوفیصد منطبق ہوتی ہیں ، حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی علیہ الرحمۃ نے بہت عمدہ ،مبسوط وچشم کشاتفسیرفرمائی ہے ، معارف القرآن ہی سے بعینہ تفسیر پیش کی جارہی ہے،پڑھئے ،مصائب وحوادث کے اسباب اوران کا قرآنی حل معلوم کیجئے اور اسلامی ہدایت پر عمل کرکے دنیا وآخرت کو سنوارنے کی فکرفرمایئے،ہمارے لئے اورپور ی امت کے لئے دعاکیجئے ۔

مصائب وآفات اورامراض گناہ اوراعمال بد کے اثرات ہیں ،جو لوگ گناہوں سے معصوم یا محفوظ ہیں ان کے لئے امراض اور آفات صبر استقلال کے امتحان اوردرجات کی بلندی اورعام مسلمانوں کے لئے ایک طرح کی رحمت ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعہ غافل انسانوں کو چونکایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے اعمال بد کا جائزہ لے کر باز آنے کی فکر میں لگ جائیں اور آخرت کی بڑی اور سخت سزا سے محفوظ رہیں،نیز ہر قسم کے حوادث اور آفات کا اصلی اور حقیقی علاج اللہ جل شانہ کی طرف رجوع ، گناہوں سے استغفار اور آئندہ ان سے پرہیز کرنے کا پختہ ارادہ اور اللہ تعالیٰ ہی سے رفع مصائب کی دعاء ہے۔

اللہُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم ،بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ۞ قُلِ اللہُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ ۞ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ ۞ الانعام۶۳تا۶۵)

آپ (ان لوگوں سے) کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات (یعنی شدائد) سے اس حالت میں نجات دے دیتا ہے کہ تم اس کو (نجات دینے کے لئے) پکارتے ہو (کبھی) تذلل ظاہر کرکے اور (کبھی) چپکے چپکے (اور یوں کہتے ہو) کہ (اے اللہ) اگر آپ ہم کو ان (ظلمات) سے (اب ) نجات دیدیں ،تو (پھر) ہم ضرور حق شناسی (پر قائم رہنے) والوں میں سے ہوجاویں (یعنی آپ کی توحید کے کہ بڑی حق شناسی ہے، قائل رہیں اور اس سوال کا جواب چونکہ متعین ہے اور وہ لوگ بھی کوئی دوسرا جواب نہیں دیں گے اس لئے)

آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے (جب کبھی نجات ملتی ہے) اور (ان ظلمات مذکورہ کی کیا تخصیص ہے؛ بلکہ) ہر غم سے (وہی نجات دیتا ہے؛ مگر) تم (ایسے ہو کہ) پھر بھی (بعد نجات پانے کے بدستور) شرک کرنے لگتے ہو (جو کہ اعلیٰ درجہ کی ناحق شناسی ہے اور وعدہ کیا تھا حق شناسی کا، غرض یہ کہ شدائد میں تمہارے اقرار سے توحید کا حق ہونا ثابت ہوجاتا ہے، پھر انکار کب قابلِ التفات ہے) ۔

علم الہی اور قدرت مطلقہ کے کچھ مظاہر

پہلی آیت میں لفظ ظلمات، ظلمة کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں اندھیری، ظلمات البر والبحر کے معنی خشکی اور دریا کی اندھیریاں ہے،چونکہ اندھیری کی مختلف قسمیں ہیں رات کی اندھیری، گھٹا بادل کی اندھیری، گردوغبار کی اندھیری، ان تمام قسموں کو شامل کرنے کے لئے لفظ ظلمات جمع استعمال فرمایا گیا ہے۔

اگرچہ انسان کے سونے اور آرام کرنے کے لئے اندھیرا بھی ایک نعمت ہے؛ لیکن عام حالات میں انسان کا کام روشنی ہی سے چلتا ہے اور اندھیری سب کاموں سے معطل کرنے کے علاوہ بہت سے مصائب اور آفات کا سبب بن جاتی ہے، اس لئے عرب کے محاورہ میں لفظ ظلمات مصائب اورحوادث وآفات کے لئے بولاجاتاہے ،اس آیت مذکورہ میں بھی جمہورمفسرین یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔

آیت کا مطلب

اللہ جل شانہ نے مشرکین مکہ کو تنبیہ اور ان کی غلط کاری پر آگاہ کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان لوگوں سے یہ سوال کریں کہ برّی اور بحری سفروں میں جب بھی وہ کسی مصیبت میں گھر جاتے ہیں اور اس وقت تمام بتوں کو بھول کر صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں، کبھی علانیہ طور پر اپنی ذلت و عاجزی کا اعتراف کرتے ہیں اور کبھی دل دل میں اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اس مصیبت سے تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں بچا سکتا اور اس خیال کے ساتھ یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی ،تو ہم شکر و حق شناسی کو اپنا شیوہ بنالیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہی تمہیں اس مصیبت سے نجات دیں گے

یعنی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں گے، اسی کو اپنا کارساز سمجھیں گے، اس کے سوا کسی کو اس کا شریک نہیں سمجھیں گے ؛کیونکہ جب ہماری مصیبت میں کوئی کام نہیں آیا، تو ہم ان کی پوجا پاٹ کیوں کریں، اب آپ ان سے پوچھئے کہ ان حالات میں کون ان کو مصائب اور ہلاکت سے نجات دیتا ہے ؟

چونکہ ان کا جواب متعین اور معلوم تھا کہ وہ اس ہدایت کا انکار نہیں کرسکتے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی بت یا دیوتا اس حالت میں ان کے کام نہیں آیا، اس لئے دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے خود ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ آپ ہی کہہ دیجئے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تمہیں اس مصیبت سے نجات دیں گے؛ بلکہ تمہاری ہر تکلیف و پریشانی اور بےچینی کو وہی دور فرمائیں گے، مگر ان سب کھلی ہوئی نشانیوں کے باوجود پھر جب تم کو نجات اور آرام مل جاتا ہے، تو تم پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہواور بتوں کی پوجا پاٹ میں لگ جاتے ہو، یہ کیسی غداری اور مہلک قسم کی جہالت ہے۔

ہر قسم کی مصائب ووآفات کو دور کرنا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے

ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان بھی ہے کہ ہر انسان کو ہر مصیبت اور تکلیف سے نجات دینے پر اس کو پوری قدرت ہے، اور یہ بھی کہ ہر قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں اور پریشانیوں کو دور کرنا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔

عبرت

مشرکین کا یہ طرز عمل ان کی غداری کے اعتبار سے کتنا ہی بڑا جرم ہو؛مگر مصیبت پڑنے کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور حقیقت کا اعتراف ہم مسلمانوں کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے باوجود مصیبتوں کے وقت بھی خدا تعالیٰ کو یاد نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارا سارا دھیان مادّی سامانوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے، ہم اگرچہ مورتوں اور تصویری بتوں کو اپنا کارساز نہیں سمجھتے، مگر یہ مادّی سامان اور اسباب و آلات بھی ہمارے لئے بتوں سے کم نہیں، جن کی فکروں میں ہم ایسے گم ہیں کہ خدا تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی طرف کبھی دھیان نہیں ہوتا۔

مصائب وحوادث کا اصلی علاج

ہم ہر بیماری میں صرف ڈاکٹروں اور دواؤں کو اور ہر طوفان اور سیلاب کے وقت صرف مادّی سامان کو اپنا کارساز سمجھ کر اسی کی فکر میں ایسے گم ہوجاتے ہیں کہ مالک کائنات کی طرف دھیان تک نہیں جاتا؛ حالانکہ قرآن کریم نے بار بار واضح الفاظ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ دنیا کے مصائب اور حوادث عموماً انسانوں کے اعمالِ بد کے نتائج اور آخرت کی سزا کا ہلکا سا نمونہ ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ مصائب مسلمانوں کے لئے ایک طرح کی رحمت ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعہ غافل انسانوں کو چونکایا جاتا ہے، تاکہ وہ اب بھی اپنے اعمال بد کا جائزہ لے کر ان سے باز آنے کی فکر میں لگ جائیں اور آخرت کی بڑی اور سخت سزا سے محفوظ رہیں، اسی مضمون کے لئے قرآن کریم کا ارشاد ہے۔

ولنذیقنھم من العذاب الادنی یعنی ہم لوگوں کو تھوڑا سا عذاب قریب دنیا میں چکھا دیتے ہیں آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ اپنی غفلت اور برائیوں سے باز آجائیں ۔

قرآن کریم کی ایک آیت میں ارشاد ہےوما اصابکم من مصیبة (شوری) یعنی جو مصیبت تم کو پہنچی ہے وہ تمہارے اعمال بد کا نتیجہ ہے اور بہت سے برے اعمال کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں ۔

لکڑی سے خراش لگنا یا قدم کا لغزش کھانا ہےیہ بھی گناہ کا اثر ہوتا ہے

اس آیت کے بیان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کسی انسان کو جو کسی لکڑی سے معمولی خراش لگتی ہے، یا قدم کو کہیں لغزش ہوجاتی ہے، یا کسی رگ میں خلش ہوتی ہے ،یہ سب کسی گناہ کا اثر ہوتا ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں وہ بہت ہیں ۔

بیضاوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ مجرموں اور گناہگاروں کو جو امراض اور آفات پیش آتے ہیں، وہ سب گناہوں کے آثار ہوتے ہیں اور جو لوگ گناہوں سے معصوم یا محفوظ ہیں ان کے امراض اور آفات ان کے صبر استقلال کے امتحان اور جنت کے بلند درجات عطا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ عام انسان جو گناہوں سے خالی نہیں ان کو جو بھی بیماریاں اور حوادث و مصائب یا تکلیف اور پریشانی پیش آتی ہے، وہ سب گناہوں کے نتائج اور آثار ہیں۔

اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تمام مصائب اور پریشانیوں کا اور ہر قسم کے حوادث اور آفات کا اصلی اور حقیقی علاج یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی طرف رجوع کیا جائے، پچھلے گناہوں سے استغفار اور آئندہ ان سے پرہیز کرنے کا پختہ ارادہ کریں اور اللہ تعالیٰ ہی سے رفع مصائب کی دعاء کریں۔

ظاہری تدابیرکو اختیارکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ہی کارساز سمجھنا

اس کے یہ معنی نہیں کہ مادّی اسباب دواء، علاج اور مصائب سے بچنے کی مادّی تدبیریں بےکار ہیں؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل کارساز حق تعالیٰ کو سمجھیں اور مادّی اسباب کو بھی اسی کا انعام سمجھ کر استعمال کریں کہ سب اسباب اور آلات اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اسی کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، اور اسی کے حکم اور مشیت کے تابع انسان کی خدمت کرتے ہیں، آگ، ہوا، پانی، مٹی اور دنیا کی تمام طاقتیں سب اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہیں، بغیر اس کے ارادہ کے نہ آگ جلا سکتی ہے، نہ پانی بجھا سکتا ہے، نہ کوئی دوا نفع دے سکتی ہے نہ کوئی غذا نقصان پہنچا سکتی ہے-

مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا
خاک و باد و آب و آتش بندہ اند
بامن و تو مردہ، با حق زندہ اند
تجربہ شاہد ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر صرف مادّی سامانوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تو جوں جوں یہ سامان بڑھتے ہیں، پریشانیاں اور مصائب اور بڑھتے ہیں* مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

آلات اور سامان کی بہتات مصیبت سے نہیں بچاتی۔

شخصی طور پر کسی دوا یا انجکشن کا کسی وقت مفید ثابت ہونا یا کسی مادّی تدبیر کا کامیاب ہوجانا غفلت و معصیت کے ساتھ بھی ممکن ہے؛ لیکن جب مجموعی حیثیت سے پوری خلق خدا کے حالات کا جائزہ لیا جائے ،تو یہ سب چیزیں ناکام نظر آتی ہیں، موجودہ زمانہ میں انسان کو راحت پہنچانے اور اس کی ہر تکلیف کو دور کرنے کے لئے کیسے کیسے آلات اور سامان ایجاد کئے گئے ہیں اور کئے جا رہے ہیں کہ اب سب پچاس سال پہلے کے انسان کو ان کا وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا۔

امراض کے علاج کے لئے نئی نئی زوداثر دوائیں اور طرح طرح کے انجکشن اور بڑے بڑے ماہر ڈاکٹر اور ان کے لئے جابجا شفا خانوں کی بہتات کون نہیں جانتا کہ اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کا انسان ان سب سے محروم تھا؛ لیکن مجموعی حالات کا جائزہ لیا جائے ،تو ان آلات و سامان سے محروم انسان اتنا بیمار اور کمزور نہ تھا، جتنا آج کا انسان بیماریوں کا شکار ہے۔

اسی طرح آج عام وباؤں کے لئے طرح طرح کے ٹیکے موجود ہیں، حوادث سے انسان کو بچانے کے لئے آگ بجھانے والے انجن اور مصیبت کے وقت فوری اطلاع اور فوری امداد کے ذرائع اور سامان کی فراوانی ہے؛ لیکن جتنا جتنا یہ مادی سامان بڑھتا جاتا ہے، انسان حوادث اور آفات کا شکار پہلے سے زائد ہوتا جاتا ہے، وجہ اس کے سوا نہیں کہ پچھلے دور میں خالق کائنات سے غفلت اور کھلی نافرمانی اتنی نہ تھی جتنی اب ہے، وہ سامان راحت کو خدا تعالیٰ کا عطیہ سمجھ کر شکر گزاری کے ساتھ استعمال کرتے تھے اور آج کا انسان بغاوت کے ساتھ استعمال کرنا چاہتا ہے، اس لئے آلات اور سامان کی بہتات اس کو مصیبت سے نہیں بچاتی۔

مصائب اور تکلیفوں کے ازالہ کے لئے مادی سامان اور تدبیروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے

خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو مشرکین کے اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ مصیبت کے وقت وہ بھی خدا ہی کو دیا کرتے تھے، مومن کا کام یہ ہے کہ اپنے تمام مصائب اور تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے مادی سامان اور تدبیروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے، ورنہ انجام وہی ہوگا جو روز مشاہدہ میں آرہا ہے، کہ ہر تدبیر مجموعی حیثیت سے الٹی پڑتی ہے، سیلابوں کو روکنے اور ان کے نقصانات سے بچنے کی ہزار تدبیریں کی جاتی ہیں؛ مگر وہ آتے ہیں اور بار بار آتے ہیں۔

امراض کے علاج کی نئی نئی تدبیریں کی جاتی ہیں، مگر امراض روز بروز بڑھتے جاتے ہیں، اشیاء کی گرانی رفع کرنے کے لئے ہزاروں تدبیریں کی جاتی ہیں اور وہ سطحی طور پر مؤ ثر بھی معلوم ہوتی ہیں؛ لیکن مجموعی حیثیت سے نتیجہ یہ ہے کہ گرانی روز بروز بڑھتی جاتی ہے، چوری، ڈکیتی، اغواء، رشوت ستانی، چور بازاری کو روکنے کے لئے کتنی مادّی تدبیریں آج ہر حکومت استعمال کر رہی ہے، مگر حساب لگائیے ،تو ہر روز ان جرائم میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔

کاش آج کا انسان صرف شخصی اور سطحی اور سرسری نفع نقصان کی سطح سے ذرا بلند ہو کر حالات کا جائزہ لے ،تو اس کو ثابت ہوگا کہ مجموعی حیثیت سے ہماری مادّی تدبیریں سب ناکام ہیں؛ بلکہ ہمارے مصائب میں اضافہ کر رہی ہیں، پھر اس قرآنی علاج پر نظر کرے کہ مصائب سے بچنے کی صرف ایک ہی راہ ہےکہ خالق کائنات کی طرف رجوع کیا جائے، مادّی تدبیروں کو بھی اسی کی عطا کی ہوئی نعمت کے طور استعمال کیا جائے، اس کے سوا سلامتی کی کوئی صورت نہیں۔

سورۃ الانعام آیت نمبر۴۵

قُلۡ هُوَ الۡقَادِرُ عَلٰٓى اَنۡ يَّبۡعَثَ عَلَيۡكُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِكُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِكُمۡ اَوۡ يَلۡبِسَكُمۡ شِيَـعًا وَّيُذِيۡقَ بَعۡضَكُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ‌ؕ اُنْظُرۡ كَيۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَفۡقَهُوۡنَ ۞

(اے محمد) آپ کہئے کہ (جس طرح وہ نجات دینے پر قادر ہے اسی طرح) اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر (تمہارے کفر و شرک کی وجہ سے) کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے (جیسے پتھر یا ہوا یا بارش طوفانی) یا تمہارے پاوں تلے (جو زمین ہے اس) سے (ظاہر کر دے، جیسے زلزلہ یا غرق ہوجانا اور ان عذابوں کے اسباب قریبہ تو اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں۔

کبھی نہ کبھی ایسا ہوگا خواہ دنیا میں یا آخرت میں) یا کہ تم کو (اغراض کے اختلاف سے مختلف) گروہ گروہ کرکے سب کو (آپس میں) بھڑا دے (یعنی لڑوا دے) اور تمہارے ایک کو دوسری کی لڑائی (کے ذریعے مزہ) چکھا دے (اور اس کا سبب قریب فعل اختیاری ہے، اور یا سب آفتیں جمع کر دے، غرض نجات دینا اور عذاب میں مبتلا کرنا دونوں اسی کے قدرت میں ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھئے تو سہی ہم کس (کس) طرح دلائل (توحید) کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وہ (لوگ) سمجھ جاویں ۔

معارف ومسائل

پچھلی آیتوں میں اللہ جل شانہ کے وسیع علم اور بےمثال قدرت کا یہ اثر مذکور تھا کہ ہر انسان کی ہر مصیبت کو وہی دور کرسکتا ہےاور مصیبت کے وقت جو اس کو پکارتا ہے اللہ تعالیٰ کی امداد اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے؛ کیونکہ اس کو تمام کائنات پر قدرت بھی کامل ہے اور تمام مخلوق پر رحمت بھی کامل، اس کے سوا نہ کسی کو قدرت کاملہ حاصل ہے اور نہ تمام مخلوق پر رحمت و شفقت۔

جیسے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ ہے کہ کوئی عذاب کوئی مصیبت اور کیسی ہی بڑی سے بڑی آفت ہو اس کو ٹال سکتا ہے اسی طرح اس کو اس پر بھی قدرت حاصل ہے کہ جب کسی فرد یا جماعت کو اس کی سرکشی کی سزا اور عذاب میں مبتلا کرنا چاہے، تو ہر قسم کا عذاب اس کے لئے آسان ہے، کسی مجرم کو سزا دینے کے لئے دنیا کے حکام کی طرح اس کو نہ کسی پولیس اور فوج کی حاجت ہے اور نہ کسی مددگار کی ضرورت۔

اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایاقُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ بھیج دے تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا تھیں مختلف پارٹیوں میں بانٹ کر آپس میں بھڑا دے اور ایک کو دوسرے کے ہاتھ سے عذاب میں ہلاک کر دے۔

عذاب الہی کی تین قسمیں

یہاں عذاب الہی کی تین قسموں کا ذکر ہے، ایک جو اوپر سے آئے، دوسرے جو نیچے سے آئے، تیسرے جو اپنے اندر سے پھوٹ پڑے، پھر لفظ عذابا کو اس جگہ تنوین کے ساتھ نکرہ لاکر عربی قواعد کے اعتبار سے اس پر بھی متنبہ کردیا کہ ان تینوں قسموں میں بھی مختلف قسمیں اور صورتیں ہوسکتی ہیں۔

حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اوپر سے عذاب آنے کی مثالیں پچھلی امتوں میں بہت سی گزر چکی ہیں، جیسے قوم نوح علیہ السلام پر بارش کا سخت سیلاب آیا اور قوم عاد پر ہوا کا طوفان مسلط ہوا اور قوم لوط پر اوپر سے پتھر برسائے گئے، آل فرعون پر خون اور مینڈک وغیرہ برسائے گئے، اصحاب فیل نے جب مکہ پر چڑھائی کی تو پرندوں کے ذریعہ ان پر ایسی کنکریں برسائی گئیں جس سے وہ سب کے سب کھائے ہوئے بھوسہ کی طرح ہو کر رہ گئے۔

اسی طرح نیچے سے آنے والے عذاب کی بھی پچھلی قوموں میں مختلف صورتیں گزر چکی ہیں، قوم نوح علیہ السلام پر تو اوپر کا عذاب طوفان، بارش کے ساتھ اور نیچے کا عذاب زمین کا پانی ابلنا شروع ہوگیا، غرض اوپر اور نیچے کے دونوں عذاب میں بیک وقت گرفتار ہوگئے اور قوم فرعون پاؤں تلے کے عذاب میں غرق کی گئی، قارون بھی مع اپنے خزانوں کے اسی عذاب میں گرفتار ہوا اور زمین کے اندر دھنس گیا۔

مذکورہ آیت کی ایک دوسری تفسیر

حضرت عبداللہ بن عباس ؓاورمجاہد ؒوغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایاکہ اوپر کے عذاب سے مرادیہ ہے کہ ظالم بادشاہ اوربے رحم حکام مسلط ہوجاویں اورنیچے کے عذاب سے مرادیہ ہے اپنے نوکر ،غلام اورخدمت گاریاماتحت ملازم بے وفا، غدار، کام چوراورخائن جمع ہوجائیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند ارشادات سے بھی حضرت عبداللہ بن عباس ؓکی اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے، مشکوة شریف میں بحوالہ شعب الایمان بیہقی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہےکما تکونون کذلک یؤ مر علیکم، یعنی جیسے تمہارے اعمال بھلے یا برے ہوں گے ،ویسے ہی حکام اور امراء تم پر مسلط کئے جائیں گے، اگر تم نیک اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوگے ،تو تمہارے حکام و امراء بھی رحم دل، انصاف پسند ہوں گےاور تم بدعمل ہوگے، تو تم پر حکام بھی بےرحم اور ظالم مسلط کردیئے جائیں گے، مشہور مقولہ اعمالکم عمالکم کا یہی مفہوم ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اپنے عمل کی اصلاح کی فکر میں لگ جاؤ

مشکوة میں بحوالہ حلیہ ابی نعیم روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں سب بادشاہوں کا مالک اور بادشاہ ہوں، سب بادشاہوں کے قلوب میرے ہاتھ میں ہیں، جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں، تو میں ان کے بادشاہوں اور حکام کے قلوب میں ان کی شفقت و رحمت ڈال دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں، تو میں ان کے حکام کے دل ان پر سخت کردیتا ہوں، وہ ان کو ہر طرح کا برا عذاب چکھاتے ہیں، اس لئے تم حکام اور امراء کو برا کہنے میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اپنے عمل کی اصلاح کی فکر میں لگ جاؤ تاکہ تمہارے سب کاموں کو درست کر دے ۔

جب کوئی گناہ ہوتا ہے، تواس کا اثر اپنے نوکر ،اپنی سواری میں محسوس کرنے لگتا ہوں

اسی طرح ابوداؤداور نسائی میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی امیر اور حاکم کا بھلا چاہتے ہیں، تو اس کو اچھا وزیر اور اچھا نائب دیدتے ہیں کہ اگر امیر سے کچھ بھول ہوجائے ،تو وہ اس کو یاد دلادے اور جب امیر صحیح کام کرے، تو وہ اس کی مدد کرے، اور جب کسی حاکم و امیر کے لئے کوئی برائی مقدر ہوتی ہے ،تو برے آدمیوں کو اس کے وزراء اور ماتحت بنادیا جاتا ہے۔

ان روایات اور آیت مذکورہ کی متذکرہ تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو جو تکالیف اور مصائب اپنے حکام کے ہاتھوں پہنچتے ہیں، وہ اوپر سے آنے والا عذاب ہے اور جو اپنے ماتحتوں اور ملازمین کے ذریعہ پہنچتے ہیں، وہ نیچے سے آنے والا عذاب ہے، یہ سب کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوتے؛بلکہ ایک قانونِ الہی کے تحت انسان کے اعمال کی سزا ہوتے ہیں۔

حضرت سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے، تو میں اس کا اثر اپنے نوکر ،اپنی سواری کے گھوڑے اور باربرداری کے گدھے کے مزاج میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ یہ سب میری نافرمانی کرنے لگتے ہیں۔

مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا
خلق رابا تو چنیں بدخوکنند
تاترا ناچار رو آنسو کنند

یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں تمہارے بالا دست حکام یا ماتحت ملازمین کے ذریعہ تمہارے خلاف مزاج، تکلیف دہ معاملات کا ظاہری عذاب تم پر مسلط کرکے در حقیقت تمہارا رخ اپنی طرف پھیرنا چاہتے ہیں تاکہ تم ہوشیار ہوجاؤ اور اپنے اعمال کو درست کرکے آخرت کے عذاب اکبر سے بچ جاؤ۔

خلاصہء کلام

خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓکی تفسیر کے مطابق حکام کا ظلم وجور اوپر سے آنے والا عذاب ہے اور ماتحت ملازمین کی بےایمانی، کام چوری، غداری، نیچے سے آنے والا عذاب ہے ۔

دونوں کا علاج ایک ہی ہے کہ سب اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور بےراہ روی سے باز آجائیں، تو قدرت خود ایسے حالات پیدا کر دے گی کہ یہ مصیبت رفع ہو، ورنہ صرف مادّی تدبیروں کے ذریعہ ان کی اصلاح کی امید اپنے نفس کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں، جس کا تجربہ ہر وقت ہو رہا ہے ۔

خویش رادیدیم و رسوائی خویش* امتحان مامکن اے شاہ بیش

اوپر اور نیچے کے عذاب کی جو مختلف تفسیریں آپ نے ابھی سنی ہیں در حقیقت ان تمام تفسیروں میں کوئی اختلاف نہیں؛کیونکہ لفظ عذابا جو اس آیت میں آیا ہے درحقیقت ان تمام تفسروں پر حاوی ہے، آسمان سے برسنے والے پتھر، خون، آگ اور پانی کا سیلاب اور بالادست حکام کا ظلم وجور یہ سب اوپر سے آنے والے عذاب میں داخل ہیں، اور زمین شق ہو کر کسی قوم کا اس میں دھنس جانا، یا پانی زمین سے ابل کر غرق ہوجانا، یا ماتحت ملازمین کے ہاتھوں مصیبت میں مبتلا ہوجانا، یہ سب نیچے سے آنے والے عذاب ہیں۔

آپسی اختلافات

تیسری قسم عذاب کی جواس آیت میں ذکرکی گئی ہے ،وہ یہ اویلبسکم شیعا یعنی تمہاری مختلف پارٹیاں بن کرآپس میں بھڑجائیں اورباہم ایک دوسرے کے لئے عذاب بن جائیں،اس میں لفظ یلبسکم لبس کے مادہ سے بناہے جس کے اصلی معنی چھپالینے اورڈھانپ لینے کے ہیں ۔

اسی معنی سے لباس ان کپڑوں کو کہا جاتا ہے جو انسان کے بدن کو ڈھانپ لےاور اسی وجہ سے التباس بمعنی شبہ و اشتباہ استعمال ہوتا ہے جہاں کسی کلام کی مراد مستور ہو، صاف اور کھلی ہوئی نہ ہو۔

لفظ شیع شیعۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ،کسی کا پیرواورتابع ،قرآن مجید میں ہے وان من شیعتہ لابراھیم یعنی نوح علیہ السلام کے نقش قدم پرچلنے والے ہیں ابراہیم علیہ السلام ،اسی عرف ومحاورہ میں لفظ شیعہ ایسی جماعت کے لئے بولاجاتاہے جوکسی خاص غرض کےلئے جمع ہوں اور اس غرض میں ایک دوسرے کے لئے معاون ہوں ،جس کا بامحاروہ ترجمہ آج کل کی زبان میں فرقہ یا پارٹی ہے ۔

اسی لئے آیت کا ترجمہ یہ ہوگیا کہ عذاب کی ایک قسم یہ ہے کہ قوم مختلف پارٹیوں میں بٹ کر آپس میں بھڑ جائے، اسی لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا۔

لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض (اخرجہ ابن ابی حاتم عن ذید بن اسلم) مظہری۔

یعنی تم میرے بعد پھر کافروں جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ۔

میری امت آپس میں جنگ و جدل سے تباہ نہ ہو

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، ہمارا گزر مسجد بنی معاویہ پر ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی دو رکعت ادا کی۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا میں مشغول ہوگئے اور بہت دیر تک دعا کرتے رہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا، ایک یہ کہ میری امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی، دوسرے یہ کہ میری امت کو قحط اور بھوک کے ذریعہ ہلاک نہ کیا جائے ،یہ بھی قبول فرمالی، تیسری دعا یہ کہ میری امت آپس میں جنگ و جدل سے تباہ نہ ہو، مجھے اس دعا سے روک دیا گیا ۔(مظہری بحوالہ بغوی) ۔

اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے، جس میں تین دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے کہ میری امت پر کسی دشمن کو مسلط نہ فرما دے جو سب کو تباہ و برباد کردے، یہ دعا قبول ہوئی اور آپس میں نہ بھڑ جائیں اس دعا کو منع کردیا گیا۔

آپسی جنگ وجدل عذاب الہی

ان روایات سے ثابت ہوا کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام پر اس قسم کے عذاب تو نہ آئیں گے جیسے پچھلی امتوں پر آسمان یا زمین سے آئے جس سے ان کی پوری قوم تباہ و برباد ہوگئی ؛لیکن ایک عذاب دنیا میں اس امت پر بھی آتا رہے گا، وہ عذاب آپس کی جنگ و جدل، فرقوں اور پارٹیوں کا باہم تصادم ہے، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو فرقوں اور پارٹیوں میں منقسم ہو کر باہمی آویزش اور جنگ و جدل سے منع کرنے میں انتہائی تاکید سے کام کیا ہے اور ہر موقع پر اس سے ڈرایا ہے کہ تم پر خدا تعالیٰ کا عذاب اس دنیا میں اگر آئے گا ،تو آپس ہی کی جنگ و جدل کے ذریعہ آئے گا۔

سورة ہود کی ایک آیت میں یہ مضمون اور بھی زیادہ وضاحت سے آیا ہے
ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک (ھود)
یعنی لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف ہی کرتے رہیں گے بجر ان لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمائی ۔

اس سے واضح ہوا کہ جو لوگ آپس میں (بلا وجہ شرعی) اختلاف کرتے ہیں وہ رحمت خداوندی سے محروم یا بعید ہیں،ایک آیت میں ارشاد ہے واعتصموا بحبل اللّیة جمیعا ولا تفرقوا دوسری آیت میں ارشاد ہے،ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا۔

مسلمانوں کی پستی اور بربادی کاسبب آپس کا اختلاف

ان تمام آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ اختلاف بڑی منحوس اور مذموم چیز ہے، آج دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے مسلمانوں کی پستی اور بربادی کے اسباب پر غور کیا جائے، تو اکثر مصائب کا سبب یہی آپس کا اختلاف اور تشتت نظر آئے گا۔

ہماری بد اعمالیوں کے نتیجہ میں یہ عذاب ہم پر مسلط ہوگیا کہ وہ قوم جس کا مرکز ِاتحاد ایک کلمہ لا آلہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھا، اس کلمہ کو ماننے والا زمین کے کسی خطہ میں ہو، کسی زبان کا بولنے والا ہو، کسی رنگ کا ہو، کسی نسل و نسب سے متعلق ہو سب بھائی بھائی تھے، کوہ و دریا کی دشوار گزار منازل ان کی وحدت میں حائل نہ تھیں، نسب و خاندان، رنگ و زبان کا تفاوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ تھا، ان کی قومی و حدت صرف اس کلمہ سے وابستہ تھی، عربی، مصری، شامی، ترکی، ہندی، چینی، کی تقسیمیں صرف شناخت اور تعارف کے لئے تھیں اور کچھ نہیں۔

دوسری قوموں کی دسیسہ کاریوں اور مسلسل کوششوں نے لسانی اور وطنی قومیتوں میں بانٹ دیا

بقول اقبال مرحوم
درویش خدا مست، نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر اس کا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمر قند

آج دوسری قوموں کی دسیسہ کاریوں اور مسلسل کوششوں نے پھر ان کو نسلی اور لسانی اور وطنی قومیتوں میں بانٹ دیا اور پھر ان میں سے بھی ہر ایک قوم و جماعت اپنے اندر بھی تشتّت اور انتشار کا شکار ہو کر مختلف پارٹیوں میں بٹ گئی، وہ قوم جس کا شعار غیروں سے بھی عفو و درگزر اور ایثار تھا اور جھگڑے سے بچنے کے لئے اپنے بڑے سے بڑے حق کو چھوڑ دیتی تھی، آج اس کے بہت سے افراد ذرا ذرا سی حقیر و ذلیل خواہشات کے پیچھے بڑے سے بڑے تعلق کو قربان کردیتے ہیں، یہی وہ اغراض واہواء کا اختلاف ہے جو قوم و ملت کے لئے منحوس اور اس دنیا میں نقد عذاب ہے۔

ایک غلط فہی کا ازالہ اوراختلاف محمود کی تشریح

ہاں اس جگہ یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ وہ اختلاف جس کو قرآن میں عذاب الہی اور رحمت خدا وندی سے محرومی فرمایا گیا ہے وہ اختلاف ہے جو اصول اور عقائد میں ہو یا نفسانی اغراض واہواء کی وجہ سے ہو، اس میں وہ اختلاف رائے داخل نہیں جو قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے اصول اجتہاد کے ماتحت فروعی مسائل میں فقہاء امت کے اندر قرن اول سے صحابہ وتابعین میں ہوتا چلا آیا ہے، جن میں فریقین کی حجت قرآن و سنت اور اجماع سے ہے اور ہر ایک کی نیت قرآن و سنت کے احکام کی تعمیل ہے؛ مگر قرآن و سنت کے مجمل یا مبہم الفاظ کی تعبیر اور ان سے جزوی، فروعی مسائل کے استخراج میں اجتہاد اور رائے کا اختلاف ہے، ایسے ہی اختلاف کو ایک حدیث میں رحمت فرمایا گیا ہے۔

علماءِ حق میں جو اختلاف ہوگا ،وہ ہمیشہ اصول قرآن و سنت کے ماتحت اور صدق نیت کے موافق ہوگا

جامع صغیر من بحوالہ نصر مقدسی و بیہقی و امام الحرمین یہ روایت نقل کی ہے

اختلاف امتی رحمة، میری امت کا اختلاف رحمت ہے ، امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت اس لئے اختیار فرمائی گئی کہ اس امت کے علماءِ حق اور فقہاء متقین میں جو اختلاف ہوگا ،وہ ہمیشہ اصول قرآن و سنت کے ماتحت ہوگااور صدق نیت اور للہیت سے ہوگا، کوئی نفسانی غرض جاہ و مال کی ان کے اختلاف کی متحرک نہ ہوگی، اس لئے وہ کسی سے جنگ و جدل کا سبب بھی نہ بنے گا۔

علامہ عبد الرؤف منادی شارح جامع صغیر کی تحقیق کے مطابق فقہاء امت کے مختلف مسالک کا وہ درجہ ہوگا جو زمانہ سابق میں انبیاء علیہم السلام کی مختلف شرائع کا تھا کہ مختلف ہونے کے باوجود سب کی سب اللہ ہی کے احکام تھے، اسی طرح مجتہدین امت کے مختلف مسلک اصول قرآن و سنت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے سب کے سب احکام خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کہلائیں گے۔

اختلاف محمود کی ایک حسی مثال

اس اجتہادی اختلاف کی مثال محسوسات میں ایسی ہے جیسے شہر کی بڑی سڑکوں کو چلنے والوں کی آسانی کے لئے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے، ایک حصہ پر بسیں چلتی ہیں دوسرے پر دوسری گاڑیاں یا ٹرام، اسی طرح سائیکل سواروں اور پیادہ چلنے والوں کے لئے روڈ کا علیحدہ ایک حصہ ہوتا ہے، ایک روڈ کی کئی حصوں میں یہ تقسیم بھی اگرچہ ظاہرہ طور پر ایک اختلاف کی صورت ہے؛مگر چونکہ سب کا رخ ایک ہی سمت ہے اور ہر ایک پر چلنے والا ایک ہی منزل مقصود پر پہنچے گا، اس لئے راستوں کا یہ اختلاف بجائے مضر ہونے کے مفید اور چلنے والوں کے لئے وسعت و رحمت ہے۔

نہ ہر اختلاف مطلقاً مذموم نہ ہر اتفاق مطلقاً محمود

یہی وجہ ہے کہ ائمہ مجتہدین اور فقہاء امّت کا اس پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی کا مسلک باطل نہیں اور جو لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں، ان کو دوسروں کے نزدیک گنہگار کہنا جائز نہیں، ائمہ مجتہدین اور فقہاء امت کے مذاہب کے اختلاف کا حاصل اس سے زیادہ نہیں کہ ایک مجتہد نے جو مسلک اختیار کیا ہے، وہ اس کے نزدیک راجح ہے ؛مگر اس کے مقابل دوسرے مجتہد کے مسلک کو بھی وہ باطل نہیں کہتے؛ بلکہ ایک دوسرے کا پورا احترام کرتے ہیں۔

فقہاء صحابہ وتابعین اور ائمہ اربعہ کے بے شمار حالات و واقعات اس پر شاہد ہیں کہ فقہی مسلک بہت سے مسائل میں مختلف ہونے اور علمی بحثیں جاری رہنے کے باوجود ایک دوسرے کا مکمل اعتقاد و احترام کرتے تھے، جنگ و جدل اور خصومت و عداوت کا وہاں کوئی احتمال ہی نہ تھا، مذاہب فقہاء کے متبعین اور مقلدین میں بھی جہاں تک صحیح علم و دیانت رہے ان کے بھی باہمی معاملات ایسے ہی رہے۔

اختلاف رائے جو اپنی حدود کے اندر ہو مفید، ایک نعمت اور رحمت

یہ اختلاف ہے جو رحمت اور لوگوں کے لئے وسعت و سہولت کا ذریعہ اور بہت سے مفید نتائج کا حامل ہے اور حقیقت یہی ہے کہ فروعی مسائل میں راویوں کا اختلاف جہاں تک اپنی حد کے اندر ہے وہ کوئی مضر چیز نہیں؛ بلکہ مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو کھولنے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں معین ہے اور جہاں دیانت دار عقلاء جمع ہوں گے ،تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی مسئلہ میں ان کا اختلاف نہ ہو، ایسا قانون تو یا بےعقلوں میں ہوسکتا ہے جن کو کوئی سمجھ بوجھ نہ ہو، یا بےدینوں میں ہوسکتا ہے جو کسی پارٹی وغیرہ کی رعایت سے خلاف ضمیر رائے میں اتفاق کا اظہار کریں۔

اختلاف رائے جو اپنی حدود کے اندر ہو، یعنی قرآن و سنت کے قطعی اور اعتقادی مسائل اور قطعی احکام میں نہ ہو، صرف فروعی مسائل اجتہادیہ میں ہو، جن میں قرآن و سنت کی نصوص ساکت یا مبہم ہیں اور وہ بھی جنگ و جدل اور لعن و طعن کی حد تک نہ پہنچے، تو وہ بجائے مضر ہونے کے مفید ،ایک نعمت اور رحمت ہے، جیسے کائنات عالم کی تمام چیزوں کا شکل و صورت، رنگ و بو اور خاصیت و منفعت میں اختلاف ہے، حیوانات میں لاکھوں مختلف قسمیں بنی نوع انسان میں مزاجوں اور پیشوں، صنعتوں اور رہن و سہن کے طریقوں میں اختلاف، یہ سب اس عالم کی رونق بڑھانے والے اور بے شمار منافع کے اسباب ہیں۔

علماء میں اختلاف ہے تو کدھر جائیں

بہت سے لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں وہ مذاہب فقہاء اور علماء حق کے فتوؤں میں اختلاف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ علماء میں اختلاف ہے تو کدھر جائیں؛ حالانکہ بات بالکل صاف ہے کہ جس طرح کسی بیمار کے معاملہ میں ڈاکٹروں طبیبوں کا اختلاف رائے ہوتا ہے، تو ہر شخص یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سے فنی اعتبار سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار کون ہے، بس اس کا علاج کرتے ہیں، دوسرے ڈاکٹروں کر برا نہیں کہتے۔

مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہوجائیں توجو عالم علم اور تقویٰ میں افضل ہو، اس کی کا اتباع

مقدمہ کے وکیلوں میں اختلاف ہوجاتا ہے، تو جس وکیل کو زیادہ قابل اور تجربہ کار جانتے ہیں اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں، دوسروں کی بدگوئی کرتے نہیں پھرتے، یہی اصول یہاں ہونا چاہئے، جب کسی مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہوجائیں تو مقدور بھر تحقیق کرنے کے بعد جس عالم کو علم اور تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ اور افضل سمجھیں اس کا اتباع کریں اور دوسرے علماء کو برا بھلا کہتے نہ پھریں۔

حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں نقل کیا ہے کہ ماہر مفتی کا انتخاب اور درصورت اختلاف ان میں سے اس شخص کے فتوے کو ترجیح دینا جو اس کے نزدیک علم اور تقوی میں سب سے زیادہ ہو، یہ کام ہر صاحب معاملہ مسلمان کے ذمہ خود لازم ہے، اس کا کام یہ تو نہیں کہ علماء کے فتو وں میں کسی فتوے کو ترجیح دے؛ لیکن یہ اسی کا کام ہے کہ مفتیوں اور علماء میں سے جس کو اپنے نزدیک علم اور دیانت کے اعتبار سے زیادہ افضل جانتا ہے اس کے فتوے پر عمل کرے؛مگر دوسرے علماء اور مفتیوں کو برا کہتا نہ پھرے، ایسا عمل کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک وہ بالکل بری ہے، اگر حقیقةً کوئی غلطی فتویٰ دینے والے سے ہو بھی گئی، تو اس کا وہی ذمہ دار ہے۔

خرابی اختلاف رائے میں نہیں اور نہ کسی ایک رائے پر عمل کرنے میں ہے

خلاصہ کلام یہ ہے کہ نہ ہر اختلاف مطلقاً مذموم اور نہ ہر اتفاق مطلقاً محمود و مطلوب ہے،اگر چور، ڈاکو، باغی ایک جماعت بنا کر باہم متفق ہوجائیں تو کون نہیں جانتا کہ ان کا یہ اتفاق مذموم اور قوم کے لئے مہلک ہے اور اس کے خلاف جو سعی وعمل عوام یا پولیس وغیرہ کی طرف سے اس جماعت کی مخالفت میں ہوتا ہے وہ ہر عقلمند کی نظر میں اختلاف محمود و مفید ہے۔

معلوم ہوا کہ خرابی اختلاف رائے میں نہیں اور نہ کسی ایک رائے پر عمل کرنے میں ہے ؛بلکہ ساری خرابیاں دوسروں کے متعلق بدگمانی اور بدزبانی سے پیش آتی ہیں جو علم و دیانت کی کمی اور اغراض واہنواء کی زیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے۔

جب کسی قوم یا جماعت میں یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے تو ان کے لئے یہ اختلاف رحمت بھی اختلاف عذاب کی صورت میں منتقل ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کی پارٹیاں بن کر ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل اور بعض اوقات قتل و قتال تک میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف لعن طعن اور دل آزار کلمات کو تو مذہب کی حمایت سمجھ لیا جاتا ہے؛ حالانکہ مذہب کا اس غلو اور زیادتی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ وہی جدال ہے جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے، صحیح احادیث میں اس کو قوموں کی گمراہی کا سبب قرار دیا ہے (ترمذی، ابن ماجہ)

مذکورہ بالاتفسیر بلفظہ معارف القرآن،سورۃ الانعام ۳/؍۲۵۳تا ۶۶۳سے نقل کی گئی ،مطالعہ کی سہولت کے لئے صرف ذیلی عناوین کا اضافہ کیا گیاہے) طالب دعا : ابوفیضان عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہد ی بنگلور ۱۸/ ذی الحجہ ۱۴۴۱؁ھ مطابق ۹/ اگست ۰۲۰۲؁ء