معارف السنن شرح جامع ترمذی:تعارف

معارف السنن شرح ترمذی:حضرت انورشاہ کشمیری ؒ کےدرس ترمذی کے افادات کا مجموعہ ہے ،شاہ صاحب کے شاگررشید مولانا چراغ محمدصاحب نے دوران درس آپ کے درسی تقریر کو ’’العرف الشذی‘‘ کے نام سے قلم بندکیا تھا، جس کی تصحیح ،مراجع ومصادرسے آراستہ کرنےاوراس میں موجودنقائص کو دورکرکے عمدہ اسلوب وتعبیرمیں پیش کرنی کی ضرورت تھی،علامہ انورشاہ کشمیریؒ کے عاشق زاراور آپ کے علوم وفنون کو عام کرنے کے بے حدمشتاق تھے،انہوں نےحضرت مولانا محمدیوسف بنوری ؒ کےسامنے اس خواہش کا اظہارکیا ،چنانچہ مولانابنوریؒ نے اس کی تصحیح وتہذیب شروع کی؛ لیکن خود وہ مستقل ضخیم شرح ہوگئی۔

معارف السنن کی تالیف کی روئدائدخودمؤلف کی زبانی

شرح ترمذی معارف السنن کی تالیف کی روئدائدخودمؤلف کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:حضرت شاہ صاحب اپنے زمانے میں علومِ روایت ودرایت کے مسند ،احادیث ومشکل مسائل کے حل کے لئے مرجع تھے،”صحیح بخاری اور”جامع ترمذی“ کے اسباق میں روایت ودرایت ،حدیث وفقہ اورہرطرح کے علم وفن کی عمدہ ونفیس مباحث جو سبق سے متعلق ہوتے بیان فرماتے ،جوطلبہ شوقین ،بیدارمغز،صاحب بصیرت ہوتے سبق ہی میں آپ کے علوم کونوٹ کرلیتے ،تیز لکھنے والے طلبہ سے بھی ایک تہائی حصہ چھوٹ جاتااور تعبیرات وکتابت کی اغلاط اور کئی طرح کا نقص رہ جاتاجیساکہ عام طور سے اسباق کی کاپیوں میں ہوتاہے ۔

سبق کی ان ہی کاپبیوں میں ایک کتاب”العرف الشذی“فی شرح الترمذی ہے ،جناب محمدبن موسی میاں صاحب افریقی حضرت انورشاہ کشمیری ؒ کے عاشق زاراور آپ کے علوم وفنون کو عام کرنے کے بے حدمشتاق تھے،انہوں نے اس شرح کی تصحیح ،مراجع ومصادرسے آراستہ کرنے،اس میں موجودنقص کو دورکرکے عمدہ اسلوب وتعبیرمیں پیش کرنی کی خواہش کا اظہارکیا اور اس ذمے داری کامجھے مکلف بنادیا ۔

شوق وجذبہ موجززن نہ ہوتا،توہرگزاس قد ر محنت ومشقت۔۔۔

میں نے استاذمحترم کی تقریرکے ہرہرجزئیہ کے حوالجات کی تلاش شروع کی جن کی طرف آپ نے اشارہ فرمایاہے،چنانچہ جس طرح شروح حدیث ”فتح الباری“ ”عمدة القاری“فقہ المذاہب کے لئے ”شرح مہذب“”مغنی لابن قدامہ“کتب ِرجال کی طرف مراجعت کرتاتھا ،اسی طریقہ سے ”کتاب سیبویہ “”الرضی “ شرح کافیہ ”دلائل الاعجاز“ ”اسرارالبلاغة“”عروس الافلاح“ کشف الاسرار“شرح اصول بزدوی وغیرہ علوم وفنون کی کتب کی مراجعت بھی کرنی پڑتی تھی ،اس لئے کہ استاذ محترم ان کتب کا حوالہ دیاکرتے تھے ،اگرمیں جوان نہ ہوتا اور استاذمحترم کے فیوض کو عام کرنے کا دل میں شوق وجذبہ موجززن نہ ہوتا،توہرگز اس کتاب کی تالیف میں اس قد ر محنت ومشقت برداشت کرنا میرے بس میں نہ ہوتا،ایک ایک جزئیہ کے لئے بسااوقات کئی کئی گھنٹہ لگتے اور کئی کئی راتوں کی نیندبھی قربان کرنی پڑتی ۔

میری محنت وتعب کا انداز ہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگایاجاسکتاہے:حضرت الاستاذ نے متعارض روایات میں تطبیق دینے سے متعلق حافظ ابن حجرؒ کے حوالہ سے ایک قاعدہ ذکرفرمایا،”ذکرکل مالم یذکرالآخر“(ہرراوی نے وہ مضمون بیان کیا ہے جس کو دوسرے نے ذکرنہیں کیاہے )اورفرمایاحافظ ابن حجرؒ نے”فتح الباری “میں متعدد مقامات میں اس قاعدہ سے استفادہ کیاہے ،یہ قاعدہ نہایت اہم ہے ؛لیکن ارباب اصطلاح نے اس کو بیان نہیں کیاہے ،اس قاعدہ اوراس کی تطبیق کو تلاش کرنے کے لئے ”فتح الباری“ ایک صفحہ صفحہ کرکے بارہ جلدوں کامیں نے مطالعہ کیا یہاں تک کہ دس سے زائد مقامات پر”فتح الباری “میں استعمال پایا ۔

جھدالمتیم اشواق یظھرھا٭ دمع علی صفحات الخدینحدر

عاشق کی محنت وجستجو وہ جذبات ہیں جن کو رخسارپربہنے والے آنسوظاہرکرتے ہیں ۔

کتاب کا اسلوب

غرض یہ کہ اس ترتیب کے مطابق میں نے کتاب الحج تک شرح کی ،پھرایک مدت کے بعد مذکورہ شرح کو عصرحاضرکے اسلوب میں پیش کرنے کے لئے کچھ ترمیم، تقدیم وتاخیرکی،نیز اس میں مندرجہ ذیل امورکا لحاظ کیا گیاہے ۔
الف:استاذمحترم کے تمام اقوال اورتحقیقات وتشریحات کی تخریج کی ہے ۔
ب:زیربحث موضوع میں استاذ محترم کی کوئی تصنیف ہو،تو اس مسئلہ کی تشریح میں اس سے خوب استفادہ کرتے ہوئے اس کے اقتباسات کو نقل کیاہے ۔
ج:حضرت الاستاذنے جس بات کو اشارة ً بیان کیا ہے ،حوالجات اورمفید اضافوں کے ساتھ اس کی توضیح کی ہے ۔

د:حضرت شاہ صاحب نے علامہ شوق نیموی کی کتاب”آثارالسنن“ پر جوحواشی تحریرفرمائے ہیں ،کتاب میں اس سے خوب استفادہ کیاہے ۔
ہ:یہ کتاب امام العصر مسندالوقت محمدانورشاہ کشمیری ؒ کے اقوال ،تشریحات اورتحقیقات جو آپ کی تصانیف ،امالی اورتلامذہ کی درسی کاپیوں میں منتشرہیں ان کو جامع ہے ۔
و:نیز یہ کتاب حضرت کے امالی ”فیض الباری “”العرف الشذی “ اور”القول المحمود علی سنن ابی داؤد“ وغیرہ کی تصحیح کے لئے مرجع ومصدر ہے ۔
نوٹ: علامہ بنوری ؒنے ”معارف السنن “کی مزیدخصوصیات کا تذکرہ فرمایا ہے ،احقرنے صرف کتاب کی ان خصوصیات کاذکرکیاہے جو حضرت شاہ صاحب کی ذات وفیوض سے متعلق ہیں ۔

کتاب کی طباعت کے لئے ایک غیبی اشارہ اورغیبی مدد

میں نے اولاً ”جزءالوتر“کو شائع کیا ،عرب علماءنے اس کو بظراستحسان دیکھ کر مکمل کتاب کی طباعت کا مطالبہ کیا ،جن میں سے میرے دوست حسن مشاط مالکی مسجدحرام میں طباعت پربے حداصرارکیا ،تومیں نے عرض کیا عصرحاضرکے احوال بہت مختلف ہیں ،طباعت کے اخراجات کا میں متحمل نہیں ہوں ،توشیخ حسن مشاط نے کہا کہ نکاح ،حج اور کتابوں کی طباعت کے لئے اگرکوئی مناسب تدبیروکوشش کرے ،تو اللہ تعالیٰ ان کی تکمیل فرمادیتے ہیں ،یہ بات میر ے تجربہ کی ہے۔

میں شیخ حسن مشاط کی پاس سے متفکر ہوکر اٹھا اوراس مقصدکی تکمیل کے لئے طواف کیا اورملتز م کے پاس کعبة اللہ کے پردے پکڑکرالحاح وزاری کے ساتھ دعاکی ،اے اللہ اس کتاب میں علم ،دین اورامت کا فائدہ ہو،تو اس کی طباعت کے انتظامات فرما ،تو قادرہے میں عاجز وبے بس ہوں،اس کے بعد اپنے وطن لوٹ آیا ،توموسی میاں افریقی کے خانوادہ کے ایک شخص کا خط ملا،جس میں انہوں نے ”معارف السنن“کی طباعت کی خواہش ظاہرکی ،میں نے حسن مشاط کے سامنے جو عذرپیش کیاتھا ،اسی کا اعادہ کیا ۔

کتاب کی طباعت کے لئے شاہ صاحب کا حکم منامی

ایک سال کے بعد دوبارہ ایک تفصیلی خط لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ مجھے خواب میں حضرت شاہ صاحب کی زیارت نصیب ہوئی اورمیں نے آپ سے عرض کیا: حدیث کی کوئی کتاب طبع کراناچاہتاہوں جس سے امت مستفید ہو،توآپ نے فرمایا :وہ کتاب شائع کرو جس کو شیخ بنوری نے تصنیف فرمائی ہے ،میں نے اپنی دعاءاور موصوف کے خواب کے وقت میں غورکیا، تو معلوم ہواکہ موصوف کا خواب بعینہ دعاکے زمانہ کا خواب ہے ،اس طرح یہ کتاب زیورطباعت سے آراستہ ہوئی ،اللہ کا شکر واحسان ہے ۔(ملخص ازمعارف السنن۴۳۰/تا۴۴۱)

درس حدیث،درس قرآن، تعارف کتب،سیرت وسوانح اوردیگراصلاحی اورعلمی تحقیقی مضامین ومقالات کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ کا مطالعہ کیجئے ۔