جمعہ کے دن کی سنتیں

جمعہ کے دن کی سنتیں: جمعہ کا دن نہایت متبرک ،سیدالایام اور یوم المزید کی ایک شاندار مثال ہے۔           

آخرت میں ایک دن ہےجس کو”یوم المزید”‘کہاجاتا ہے ،جس میں جنتیوں کوہفتہ میں ایک مرتبہ اللہ کی زیارت وملاقات کا موقع دیاجاتاہے، میدان مزید میں بندوں پر اللہ کی  تجلیات ،انوارات اوررحمتوں وبرکتوں کا خاص نزول ہوتاہے ،میدان مزیدکی حاضری کے بعد جنتیوں کے چہروں پرایک خاص نور ظاہرہوگا۔

جمعہ کا دن دنیا میں اسی کی شاندارمثال ہے ،ایمان والا صبح ہی سےخصوصی اعمال ، پاکی صفائی ،غسل ، خوشبو،عمدہ لباس زیب تن کرنے کے بعد  جامع مسجد میں دورکعت شکرانہ اداکرنے کے لئے جاتاہے ، نمازِ جمعہ میں بطورخاص فرشتوں کو استقبال اورحاضری کےخصوصی اندراج کے لئے متعین کیاجاتاہے ۔

جب خطیب منبرپرتشریف لے جاتے ہیں ،تو فرشتے بھی اپنا رجسٹربندکرکے خطیب کے خطبہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ،گویا نمازِجمعہ ایک ایسی خاص نمازہے جس میں فرشتے پورے اہتمام کے ساتھ بندوں کے ساتھ عبادت میں شامل ہوتے ہیں ۔

جمعہ کے دن کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت

رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،وحُذَيْفَةَ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَضَلَّ اللهُ عَنِ الْجُمُعَةِ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا، فَكَانَ لِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبْتِ، وَكَانَ لِلنَّصَارَى يَوْمُ الْأَحَدِ، فَجَاءَ اللهُ بِنَا فَهَدَانَا اللهُ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَجَعَلَ الْجُمُعَةَ، وَالسَّبْتَ، وَالْأَحَدَ، وَكَذَلِكَ هُمْ تَبَعٌ لَنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، نَحْنُ الْآخِرُونَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَالْأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الْمَقْضِيُّ لَهُمْ قَبْلَ الْخَلَائِقِ وَفِي رِوَايَةِ وَاصِلٍ الْمَقْضِيُّ بَيْنَهُمْ.(رواہ البخاری باب ھدایۃ ھذ ہ الامۃلیوم الْجُمُعَةِ: ۸۵۶)

اللہ تعالی نے اقوام عالم کا امتحان لیا،یہودسے کہا کہ تم عبادت کے لئے ایک دن منتخب کرو ،جو میرے علم میں متعین ہے ،انہوں نے ہفتہ کے دن کاانتخاب کیا ،نصاری سے کہاکہ تم میری عبادت کے ایک دن مقررکرو جس میں بجزمیری عبادت کے کوئی کام نہ کرو ،تو انہوں نےاتوارکے دن کا انتخاب کیا۔

مسلمانوں سے کہاگیا،تم بھی ایک دن مقررکرلو ،ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کو مقررفرمالیا،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یہی دن ہمارے علم میں طے شدہ تھا،قیامت میں بھی یہودونصاری ہمارے تابع ہوں گے ، ہم دنیا میں سب سے آخرمیں آئے اور سب سےپہلے جنت میں جائیں گے،ہمارے لئے سب سے پہلے فیصلہ کیاجائے گا ۔(حاصل حدیث)

جمعہ کا دن نہایت عظیم الشان دن ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس دن بڑے بڑےاموردنیا میں وقوع پذیرہوئے ہیں،جب اس دنیا کی بساط لپیٹی جائے گی ،تب بھی جمعہ کے دن ہی نفخ صور اورقیام قیامت کے حالات پیش آئیں گے ۔

جمعہ کی ساعت اجابت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَة قَالَ: قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي الجُمُعَةِ سَاعَةٌ، لاَ يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَسَأَلَ اللَّهَ خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ۔(رواہ البخاری کتاب الطلاق: ۵۲۹۴)

حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کےدن ایک گھڑی ایسی ہوتی کہ اگرکسی مسلمان بندے کو حسن اتفاق سے اس خاص گھڑی میں خیراوربھلائی کی کوئی چیز اللہ سے مانگنے کی توفیق مل جائے ،تو اللہ تعالیٰ اس کو عطا فرماہی دیتے ہیں۔

تشریح:جس طرح سال بھرمیں رحمت وقبولیت کے ایک خاص رات شب قدررکھی گئی ہے ،اسی طرح ہرہفتہ جمعہ کے دن رحمت وقبولیت کی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے ،اس مبارک ساعت میں کسی بندہ کو اللہ سے مانگنے کی توفیق مل جائے ،تو اللہ کے کرم سے قبولیت کی امید زیادہ ہے ۔

جمعہ کی ساعت اجابت کی تعیین وتخصیص میں شارحین حدیث نے چالیس سے زائداقوال نقل کئے ہیں ،ان میں سے دوقول ایسے ہیں جن کا ذکراحادیث میں صراحۃ ً یا اشارۃ موجودہے ۔

حضرت ابوہریرۃ ؓروایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ایک قو ل یہ ہے کہ یہ ساعت اجابت امام کے خطبہ کے لئے منبرپرجانے کے وقت سے نماز سے فراغت کے درمیان ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ خطبہ اورنماز کا وقت ہی قبولیت دعا کا خاص وقت ہے ۔

دوسرا قول بعدعصرتاغروب آفتاب

حضرت ابوہریرۃ ؓروایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الجَنَّةَ، وَفِيهِ أُهْبِطَ مِنْهَا، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يُصَلِّي فَيَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ،قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ فَذَكَرْتُ لَهُ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِتِلْكَ السَّاعَةِ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي بِهَا وَلَا تَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ، قَالَ: هِيَ بَعْدَ العَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، قُلْتُ: فَكَيْفَ تَكُونُ بَعْدَ العَصْرِ،وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي؟ وَتِلْكَ السَّاعَةُ لَا يُصَلَّى فِيهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ فَهُوَ فِي صَلَاةٍ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهُوَ ذَاكَ۔(رواہ الترمذی کتاب الجُمُعَةِ:۴۹۱)

دنیا کے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے ،جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی دن آپ کو جنت میں داخل کیاگیااوراسی دن آپ کو دنیا میں اتاراگیا،اس دن ایک گھڑی ہے جس میں کوئی مسلمان بندہ نماز پڑھے اوردعاکرے، تو اللہ تعالیٰ ضرورقبول فرماتے ہیں اور مانگی ہوئی چیز عنایت فرماتے ہیں۔

ساعت اجابت عصرکے بعدسے سورج کے غروب درمیان

پھرمیری ملاقات حضرت عبداللہ بن سلام ؓسے ہوئی ، میں نے ان سے یہ حدیث بیان کی ،توانھوں نے فرمایا: میں خوب جانتاہوں ،وہ گھڑی کس وقت آتی ہے ؟میں نے کہا ،مجھے بتائیں اوربتانے میں بخل نہ کریں۔

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ گھڑی عصرکے بعدسے سورج کے غروب ہونے تک آتی ہے ، میں نے کہا،عصر کے بعد وہ گھڑی کیسے ہوسکتی ہے ؟اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے ، اس گھڑی میں کوئی مسلمان بندہ نماز پڑھے اوردعاکرے، تو اللہ تعالیٰ ضرورقبول فرماتے ہیں اور مانگی ہوئی چیز عنایت فرماتے ہیں،عصرکے بعد نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔

عبداللہ بن سلام ؓنے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادنہیں ہے کہ مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ فَهُوَ فِي صَلَاةٍ ؟جو شخص کسی جگہ میں بیٹھ کر نمازکا انتظارکرے، تو وہ نماز میں(حکما شامل )ہے ؟میں نے کہا ،یقینا یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمائی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن سلام نےفرمایا :اس حدیث میں بھی وہی بات ہے ،یعنی نمازحقیقی نماز ہی نہیں، حکمی نماز بھی شامل ہے ، نماز کے انتظار میں یا نماز سے فراغت کے بعد یکسوئی کے ساتھ دعا تسبیحات وغیرہ میں مشغول رہنا بھی نماز ہے ۔

شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا تجزیہ

مولانامحمدمنظورنعمانی ؒ تحریرفرماتے ہیں

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں ان دونوں قول کو نقل کرنے کے بعد اپنا خیال یہ ظاہرفرمایاہے کہ ان دونوں باتوں کا مقصد بھی حتمی تعیین نہیں ہے ؛بلکہ منشاءصرف یہ ہے کہ خطبہ اورنماز کاوقت؛ چونکہ بندہ گان خدا کی توجہ الی اللہ ،عبادت اور دعا کا خاص وقت ہے،اس لئے اس وقت میں ساعتِ اجابت کی امید کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح عصر اورغروب آفتاب کے درمیان نزول قضا اورتبدیل ملائکہ کا وقت ہے ،اس لئے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ساعت غالبًا اس مبارک وقفہ میں ہو۔

بعض حضرات نے فرمایاکہ جس طرح جس مصلحت سےرمضان میں شب قدر کومبہم رکھاگیاہے ،اسی طرح اور اسی مصلحت کے پیش نظرجمعہ کے دن ساعت اجابت کو مبہم رکھاگیاہے ۔

پھرجس طرح رمضان کے اخیرہ عشرہ بطورخاص ستائیسویں شب میں ہونے کی جانب احادیث میں اشارے آئے ہیں ،ٹھیک اسی طرح جمعہ کے دن خطبہ ونماز کے وقت اور عصرتا مغرب کے وقفہ میں اس کی جانب اشارات کئے گئے ہیں تاکہ اللہ کے بندے کم از کم ان دووقتوںمیں توجہ الی اللہ اوردعاؤں کا خصوصی اہتمام کریں ۔

مولانامنظورنعمانی ؒ فرماتے ہیں

اس ناچیز نے اپنے بعض اکابرکو دیکھاہ کہ وہ جمعہ کے دن ان دونوں وقتوں میں لوگوں سے ملنا جلنا اوربات چیت کرنا پسند نہیں کرتے تھے ؛بلکہ نماز،ذکر ،دعا اورتوجہ الی اللہ ہی میں مصروف رہنا چاہتے تھے ۔(ملخص: معارف الحدیث۳۸۱/۳)

جمعہ کےدن مسنون اعمال

جمعہ سیدالایام ہے ،اللہ نے جمعہ کے دن کو عبادت کےلئے مقررفرمایا اوررسول اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مبارک ومسعود موقع پر بہت سارےاعمال کرتے تھے اورامت کے لئے بھی بہت سارے اعمال کو مسنون قراردیاہے ۔

حافظ ابن القیم ؒ نے اپنی کتاب‘‘زادالمعادفی ھدی خیرالمعاد’’میں جمعہ کےدن کے اعمال کو سب سے زیادہ مفصل ومرتب تحریرفرمایا۔

سورۃ الم السجدۃ اورسورۃ الدھرکی تلاوت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجرکی نماز میں پہلی رکعت میں ’’سورہ الم السجدۃ‘‘اوردوسری رکعت میں’’سورۃ الدھر‘‘تلاوت فرماتے تھے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ: الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ، وَهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ سُورَةَ الْجُمُعَةِ، وَالْمُنَافِقِينَ۔ (رواہ مسلم باب مایقرأ فی یوم الجمعۃ)

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نمازِ فجرمیں سوۃ السجدۃ اورسورۃ الدھر پڑھا کرتے تھے اورنماز جمعہ میں سورۃ الجمعہ اورسورۃ المافقون ۔

جماعت کی نماز ہو ،آدمی انفرادی طورپر نماز پڑھے یا عذ رکی بناپر گھرمیں نمازاداکرے،ان تمام حالات میں ان سورتوں کواہتمام کرناچاہئے،نیز عورتوں کے لئے بھی نمازفجرمیں ان سورتوں کی تلاوت سنت ہے۔

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ ؒ تحریرفرماتے ہیں

جمعہ کے دن نماز فجرمیں ان دوسورتوں کو پڑھنے کی حکمت یہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں مبدا اورمعادیعنی دنیا کو وجودمیں لانےکے وقت سے اس کے فناہونے تک کے حالات نیز قبروں سے اٹھایاجانا،میدان حشر میں جمع کیاجانا اور جنت ودوزخ میں داخل کئے جانے کےمضامین پر مشتمل ہیں۔

جس میں انسان کی پیدائش کا بھی بیان مذکورہے اورانسان کی پیدائش جمعہ کے دن ہی ہوئی ہے ،جمعہ کے دن ان سورتوں کی تلاوت میں انسان کے لئے تذکیرونصیحت ہے ۔

جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت

حضرت اوس بن اوس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں

چونکہ جمعہ کا دن سیدالایام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدالانام ہیں ، اس لئے اس دن بکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود پڑھنے کو خاص مناسبت ہے ۔

إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ،وَفِيهِ قُبِضَ،وَفِيهِ النَّفْخَةُ،وَفِيهِ الصَّعْقَةُ،فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ،فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ – يَقُولُونَ: بَلِيتَ -؟ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ۔(رواہ ابوداؤدباب فضل یوم الجُمُعَةِ: ۱۰۴۷)

جمعہ کا دن افضل ترین دنوں میں سے ہے ،اسی میں آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی ،اسی میں ان کی وفات ہوئی ،اسی میں قیامت کا صورپھونکا جائے گا اوراسی میں موت اورفنا کی بے ہوشی اوربے حسی ساری مخلوقات پرطاری ہوگی۔

لہذاتم لوگ جمعہ کے دن مجھ پرکثرت سے درود بھیجاکرو ؛ کیونکہ تمہارادرود مجھ پر پیش کیاجاتاہے ،صحابہ ؓ نے عرض کیا ،یارسول اللہ!آپ کی وفات کے بعد ہمارادرود آپ پرکیسے پیش ہوگا،آپ کا جسد اطہر توقبرمیں ریزہ ریزہ ہوچکاہوگا؟

آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے جسموں کو زمین پرحرام کردیاہے (موت کے بعد بھی ان کے اجسام قبروں میں بالکل صحیح سالم رہتے ہیں ،زمین ان میں کوئی تغیرپیدانہیں کرسکتی )

جمعہ کے دن کاخاص وظیفہ درود شریف کی کثرت

تشریح : اس حدیث میں جمعہ کے دن واقع ہونے والے اہم اورغیرمعمولی واقعات کے ذکرسے جمعہ کی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے اورمزید فرمایاگیا کہ اس مبارک وقابل احترام دن میں درود زیادہ پڑھنا چاہئے۔

گویا جس طرح رمضان المبارک کا خا ص وظیفہ تلاوتِ قرآن ہے ،رمضان کو تلاوت ِقرآن سے خاص مناسبت ہے ،سفرحج کا خاص وظیفہ تلبیہ ہے ،اسی طرح جمعہ کے مبارک دن کاخاص وظیفہ درود شریف کی کثرت ہے ۔(معارف الحدیث جلدسوم ملخص : ۳۷۸)

ایمان والوں کو دنیا وآخرت کی جوبھی نعمتیں ملتی ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ سے ملتی ہیں ،آخرت میں یوم المزید میں مزید خصوصی وعظیم نعمتیں حاصل ہوں گی ،دنیا میں اس کی مثال جمعہ کا دن ہے، لہذا جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھنا اس اعتبارسےبھی افضل ہوا ۔(زادالمعادجلداول:۱۷۲)

علامہ سخاوی ؒ نے حضرت زین العابدین ؒسے نقل کیاہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پرکثرت سے درود بھیجنا اہل سنت ہونے کی علامت ہے۔نیز علامہ سخاوی ؒ نے ‘‘قوت القلوب’’سے نقل کیا ہے کثرت کی ادنی مقدارتین سو ہے ۔

حضرت اقدس رشیداحمدگنگوہیؒ اپنے متوسلین کو تین سو مرتبہ درود شریف پڑھنے کا حکم فرماتے تھے۔(فضائل درود: ۱۶)

بعض ضعیف روایتوں میں جمعہ کے دن ایک ہزارمرتبہ درود شریف پڑھنے کی صراحت وفضیلت ہے ۔

جمعہ کے دن بعض مخصوص قسم کے درود مخصوص فضائل کے ساتھ نہایت ضعیف روایات سے مروی ہیں ،جن کے بارے میں حافظ سخاوی نے فرمایا کہ جن کی اصل مجھے معلوم نہیں ہوسکی ،بہرحال جمعہ کے دن مطلقًا درود شریف کی کثرت مروی ہے ،لہذا درود کا خوب اہتمام کرنا چاہئے ۔

سورۃ الکہف کی تلاوت

جو شخض جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرے ،اس کے قدم سے لے کر آسمان کی بلندی تک نورہوجائے گا جو قیامت کے دن روشنی دے گا ، پچھلے جمعہ سے اس جمعہ تک سب گناہ معاف ہوجائیں گے ۔(تفسیرابن کثیرسورۃ الکہف)

حافظ ضیاءمقدسی نے اپنی کتاب ‘‘مختارہ ’’میں حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ سے روایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرے گا ،اس کوآٹھ روز تک ہرفتنہ سے بچایاجائے گا ،اگردجال نکل آئے ،توبھی اس کے فتنہ سے بچا رہے گا ۔(تفسیرابن کثیر)

علماء نے فرمایا

اس حدیث سے معلوم ہواکہ جوشخص سورۃ الکہف کی تلاوت کرے گا ،وہ اس سورت کی برکت سے تمام دینی اوردنیوی فتنوں سے محفوظ رہے گا،دجال کے ظہورسے ایمان وکفرکا فتنہ پیش آئے گا ،جب اللہ تعالٰی کفرسے حفاظت فرمائیں گے، تو دیگرصغیروکبیرہ گناہوں سے بھی بچائیں گے،دجال کے فتنہ سے حفاظت فرمائیں گے ،تو دجال کے چیلوں کے فتنوں سے بھی بچائیں گے ۔

جیسے اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کی حفاظت فرمائی ،ان کے ایمان کی حفاظت فرمائی اور اس زمانہ کے دجالوں سے بچایا ،اسی طرح جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرنے والوں کی حفاظت فرمائیں گے، جس میں گناہوں سے حفاظت ، شیاطین الانس والجن سے حفاظت بھی شامل ہے ۔

نماز جمعہ

نماز جمعہ اسلام کے مؤکدفرائض میں سے ہے ، اگرکوئی شخص بلاعذرجمعہ ترک کرتاہے ،اللہ تعالیٰ اس کے دل پرمہر(حق کو قبول نہ کرنے کی ،نیک توفیق کے مسدود ہوجانے کی) لگادیتے ہیں،نماز جمعہ کی فضیلت اوراہمیت محتاج بیان نہیں ہے۔

جمعہ کے دن خط بنوانااورناخن تراشنا

حضرت ابوہریرۃ ؓ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز کو جانے سے پہلے اپنےناخن اوراپنی لبیں تراشاکرتے تھے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ يُقَلِّمُ أَظْفَارَهُ وَيَقُصُّ شَارِبَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الصَّلَاةِ رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ وَفِيهِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ قُدَامَةَ قَالَ الْبَزَّارُ: لَيْسَ بِحُجَّةٍ إِذَا تَفَرَّدَ بِحَدِيثٍ وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهَذَا قُلْتُ: ذَكَرَهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ.(مجمع الزوائد۳۰۳۶)

مونچھوں کو چھوٹا کرنا سنت ہے ، چھوٹا کرنے میں مبالغہ کرسکتے ہیں ؛البتہ مونچھوں کوتراشنا منع ہے ،امام مالک ؒمونچھوں کو مونڈنے والے کو سزادینے کے قائل ہیں،مونچھوں کو مونڈنا مثلہ ہے ، احناف کے نزدیک بھی ایک قول بدعت کا ہے ۔

لہذااحتیاط یہی ہے کہ مونچھوں کو تراشنے میں خوب مبالغہ کیاجاسکتاہے ،تراشنے سےاحتراز کیاجاناچاہئے ۔(ملخص ڈاڑھی اورانبیاء کی سنتیں : ۳۱مفتی سعیداحمد صاحب مدظلہ)

ناخن تراشنا کا طریقہ

ناخن تراشنے کی کوئی مخصوص ترتیب احادیث میں واردنہیں ہوئی ہے؛البتہ داہنی جانب سے تراشنا مستحب ہے۔

علامہ نوویؒ اورامام غزالی ؒنے یہ ترتیب لکھی ہے کہ اولا ہاتھوں کے ناخن تراشیں اور ہاتھوں میں اولاً دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی ،پھر درمیانی،پھربنصرپھرخنصر کے ناخن کاٹنے کے بعددائیں ہاتھ کاانگوٹھے کا ناخن تراشے ، پھربائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے شروع کرےاور انگوٹھے پرختم کرے ،دائیں پیر کی چھوٹی انگلی سے شروع کرے اوربائیں پیرکی چھوٹی انگلی پر ختم کرے۔

ملاعلی قاری ؒ تحریرفرماتے ہیں

المستحب ما ذكره النووي، واختاره الغزالي – رحمه الله – في الإحياء، وهو أن يبدأ باليدين قبل الرجلين، فيبدأ بمسبحة يده اليمنى، ثم الوسطى، ثم البنصر، ثم الخنصر، ثم الإبهام، ثم يعود إلى اليسرى، فيبدأ بخنصرها، ثم بنصرها إلى آخرها، ثم يبدأ بخنصر الرجل اليمنى، ويختم ببنصر اليسرى، وفي القنية: إذا قلم أظافيره أو جز شعره ينبغي أن يدفن قلامته، فإن رمى به فلا بأس، وإن ألقاه في الكنيف أو المغتسل يكره. (مرقاۃ المفاتیح کتاب اللباس باب الترجل :المجدالثامن :۲۷۲)

جمعہ سے متعلق جوروایات وارد ہوئی ہیں ، ان میں پاکی صفائی کاخاص اہتمام کا ذکر ہے ، علمائے کرام نے فرمایا کہ اس میں بغل اورزیرناف کے بالوں کی صفائی بھی شامل ہے ۔

بغل کے بال اکھاڑنا اور مونڈنا دونوں جائز ہیں ؛ البتہ اکھاڑناافضل ہے ۔

ناخن اوربالوں کی صفائی کے بعد ان کو کسی جگہ دفن کردینا مستحب ہے ۔

مسواک،غسل اورخوشبو

دیگرایام میں مسواک کا جس قدراہتمام کیاجاتاہے ،اس سے زیادہ اہتمام کرناچاہئے ۔

عَنِ ابْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي جُمُعَةٍ مِنَ الْجُمَعِ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِنَّ هذَا يَوْمٌ جَعَلَهُ اللهُ عِيداً فَاغْتَسِلُوا. وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طِيبٌ فَلاَ يَضُرُّهُ أَنْ يَمَسَّ مِنْهُ. وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ.(ابن ماجۃ:۲۱۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جمعہ کے موقع پرفرمایا: اے مسلمانوں!جمعہ کے دن کواللہ نے عید کا دن بنادیا ہے ،لہذااس میں غسل کرو، جس کے پا س خوشبوہو ،وہ خوشبوکا استعمال کرے اور مسواک کاخصوصی اہتمام کرے ۔

نمازِجمعہ کے لئے اچھے کپڑوں کااہتمام

مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَا عَلَى أَحَدِكُمْ لَوِ اتَّخَذَ ثَوْبَيْنِ لِجُمُعَتِهِ سِوَى ثَوْبَيْ مَهْنَتِه ۔(رواہ مالک:۱۰۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کسی کے لئےاس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اگر اس کو وسعت ہو،تو وہ روزہ مرہ کے کام کاج کےوقت پہنے جانے والے کپڑوں کے علاوہ نماز جمعہ کے لئے کپڑوں کا ایک خاص جوڑابنائے۔

نماز جمعہ کےلئے جلد جانا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الجُمُعَةِ وَقَفَتِ المَلاَئِكَةُ عَلَى بَابِ المَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الأَوَّلَ فَالأَوَّلَ، وَمَثَلُ المُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً، ثُمَّ كَبْشًا، ثُمَّ دَجَاجَةً، ثُمَّ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ، الذِّكْرَ۔(رواہ البخاری کتاب الجُمُعَةِ:۹۲۹)

حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتاہے ،توفرشتے مسجدکے دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اورشروع میں آنے والوں کے نام یکے بعددیگرے لکھتے رہتے ہیں ۔

زوال کے بعد سب سے پہلے آنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اللہ کے حضورمیں اونٹ کی قربانی پیش کرتاہے ،دوسرے نمبرپرآنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جوگائے کی قربانی کرتاہے ،پھراس کے بعدآنے والے کی مثال ،اس شخص کی ہے جو مینڈھا اللہ کے حضورپیش کرتاہے ۔

اس کے بعد جوآئے، اس کی مثال مرغی کی قربانی دینے والے کی ہے ،اس کے بعدجوآئے اس کی مثال ،اللہ کے لئے انڈا صدقہ کرنے والے کی ہے ، جب امام خطبہ کے لئے منبرکی طرف جاتاہے ،یہ فرشتے اپنےلکھنے کے دفتر لپیٹ کر خطبہ سننے کے بیٹھ جاتے ہیں۔

لہذا ہمیں جلد نماز جمعہ کےلئے مسجدحاضرہونے کی کوشش کرناچاہئے تاکہ ہمیں زیادہ اجروثواب حاصل ہو ۔

جب خطبہ شروع ہو ،تو غورسے سنے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرے، پاکی صفائی کا اہتمام کرے ، خوشبودارتیل اورخوشبو لگا ئے ۔

پھر نماز جمعہ کے لئے مسجد جائے ،دوآدمیوں کے درمیان نہ بیٹھے (دوسری روایت میں گردنوں کو نہ پھاندے ) پھراللہ جتنی توفیق دے ،نماز پڑھے ،جب خطیب خطبہ دے ،تو غورسے سنے ،تو دوجمعوں کے درمیان اس سے جوگناہ ہوئے ہیں ،ان کو معاف کریاجائے گا۔

عَنْ سَلْمَانَ الفَارِسِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لاَ يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الجُمُعَةِ،وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ،وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ،أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَلاَ يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الإِمَامُ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجُمُعَةِ الأُخْرَى۔(رواہ البخاری باب الدھن یوم الجُمُعَةِ :۸۸۳)

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَبِسَ مِنْ أَحْسَنِ ثِيَابِهِ، وَمَسَّ مِنْ طِيبٍ إِنْ كَانَ عِنْدَهُ، ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلَمْ يَتَخَطَّ أَعْنَاقَ النَّاسِ، ثُمَّ صَلَّى مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ، ثُمَّ أَنْصَتَ إِذَا خَرَجَ إِمَامُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِهِ كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ جُمُعَتِهِ الَّتِي قَبْلَهَا – قَالَ: وَيَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةِ: زِيَادَةٌ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ ، وَيَقُولُ: إِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا۔(ابوداؤد:باب الغسل یوم الجُمُعَةِ:۳۴۳)

اس رواییت میں جمعہ کے اہتمام پردس دنوں کے گناہوں کے کفارہ کی بشارت سنائی گئی ہے ۔

سورۃ الاعلی اورسورۃ الغاشیۃ کی تلاوت

عن النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ، وَفِي الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى،وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِقَالَ:وَإِذَا اجْتَمَعَ الْعِيدُ وَالْجُمُعَةُ، فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ، يَقْرَأُ بِهِمَا أَيْضًا فِي الصَّلَاتَيْنِ۔(رواہ مسلم باب مایقرأ فی صلوۃ الجُمُعَةِ : ۸۷۸)

حضرت نعمان بن بشیرؓ فرماتے ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اورنماز جمعہ میں سورۃ الاعلی اورسورۃ الغاشیہ کی تلاوت کرتے تھے ، اگرکبھی عید اورجمعہ ایک ہی دن آجاتے ،تو عیداورجمعہ کی دونوں نمازوں میں ان ہی سورتوں کی تلاوت فرماتے۔

عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اسْتَخْلَفَ مَرْوَانُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَلَى المَدِينَةِ، وَخَرَجَ إِلَى مَكَّةَ، فَصَلَّى بِنَا أَبُو هُرَيْرَةَ يَوْمَ الجُمُعَةِ،فَقَرَأَ سُورَةَ الجُمُعَةِ، وَفِي السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ: إِذَا جَاءَكَ المُنَافِقُونَ ،قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَأَدْرَكْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ لَهُ: تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ كَانَ عَلِيٌّ يَقْرَأُ بِهِمَا بِالكُوفَةِ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهِمَا۔(رواہ مسلم والترمذی باب فی القرا ءۃفی صلوۃ الجُمُعَةِ)

عبیداللہ بن ابی رافع کہتے ہیں : ایک مرتبہ مدینہ منورہ کا گورنرمروان نے حضرت ابوہریرۃؓکو اپنا نائب بناکر مکہ المکرمہ چلاگیا، حضرت ابوہریرۃؓ نے نمازِ جمعہ کی امامت فرمائی اور سورۃ الجمعہ اورسورۃ المناففون کی تلاوت کی ،میں نے حضرت ابوہریرۃؓسے ملاقات کی اورعرض کیا ،آپ نے نماز جمعہ میں وہی سورتیں پڑھیں جنہیں کوفہ میں(خلافت کے زمانہ میں) حضرت علی ؓ پڑھاکرتے تھے ۔

حضرت ابوہریرۃ ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازِ جمعہ میں ان سورتوں کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔(اس لئے میں نے اورحضرت علی ؓ نے بھی تلاوت کی ہے )

حافظ ابن القیم ؒ تحریرفرماتے ہیں

مذکورہ سورتوں کو مکمل پڑھنا چاہئے ،سورت کا بعض حصہ پڑھنےسے سنت ادانہیں ہوگی ،جیساکہ بعض جاہل ائمہ کرتے ہیں ۔

ایک قابل غوربات

ایک قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں خطیب حضرات بیانات میں پوری طاقت کا مظاہرہ ضرور کرتے ہیں ، بیانات بھی خاصے طویل ہوتے ہیں ؛ لیکن عربی خطبات اور نمازِ جمعہ سنت کے موافق نہیں ہوتی ۔

سارا وقت مقامی زبانوں میں بیانات میں صرف ہوجاتاہے ،لہذ ا اختصارکی ساری کوشش عربی خطبہ اورنمازِ جمعہ میں ہوتی ہے ، نمازجمعہ میں عموماً مسنون قرا ء ت کا اہتمام ہوتاہے نہ ہی مسنون خطبہ کا ۔

لہذا ائمہ مساجد، خطباء حضرات اورذمہ داران مساجد سےپرخلوص گزارش ہے کہ نمازِ جمعہ اسلام کے شعائرمیں سے ہے ،خداکے واسطے اس کو سنت کے مطابق اداکرنے کی کوشش اور انتظام کریں ،امت کے ذمہ داراورامت کے رہنما سنتوں کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ،تو احیائے سنت کی امید کس سے لگائی جائے گی؟

نماز جمعہ سے پہلے صدقات کا خصوصی اہتمام

حافظ ابن تیمیہ ؒ جب نماز جمعہ کے لئے نکلتے ،توگھرمیں جوچیز میسرہوتی ،اس کوساتھ لیتے ،راستے میں غربا ء ومساکین پر صدقہ کرتے ہوئے جاتے تھے ۔(زادالمعاد : باب فی مبدأ الجمعۃ :۱۴۹/۱)

صلوۃ التسبیح کا اہتمام

امام غزالی ؒ نے فرمایا

حضرت عبداللہ بن عباس ہرجمعہ صلوۃ التسبیح کا اہتمام فرماتے تھے ۔(احیاء علوم الدین آداب الجمعۃ ،الجزء الاول : ۲۶۶)

راقم الحروف نے اپنے استاذ محترم شیخ الاسلام حضرت حسین احمدمدنی کے شاگرد رشید دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانانصیراحمدخاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی قبروں کو نورسے منورفرمائے ۔دیکھاہے کہ ہرجمعہ دارالعلوم دیوبند کی مسجدقدیم میں اذانِ جمعہ کے ساتھ داخل ہوتے اور خطبہ شروع ہونے تک جمعہ کی سنتوں اورصلوۃ التسبیح میں مشغول رہتے۔

اسی صف میں قاری عبدالحفیظ صاحب مرحوم استاذ دارالعلوم دیوبنداورقاری ابوالحسن صاحب اعظمی بھی سنتوں اورصلوۃ التسبیح میں مشغول رہتے ۔

نمازِجمعہ کےلئے آنکھوں میں سرمہ لگانا

آنکھوں میں سرمہ لگانا سنت ہے ،آپ ﷺ سرمہ لگاتے تھے اورلگانے کی ترغیب بھی دیتے تھے ،طاق عدد کا لحاظ کرتے ہوئے رات میں سوتے وقت سرمہ لگانا سنت ہے ،آپ کو اثمد نامی سرمہ پسندتھا اورفرماتے کہ اس سے بصارت بڑھتی ہے اورپلکیں دراز ہوتی ہیں ۔

سرمہ لگانا جمعہ کی سنت یادن کے اوقات کی سنت نہیں ہے ،نیز مرودں کے لئے زینت کےخاطرسرمہ لگانا مکروہ ہے ،عوتوں کے لئے جائز ہے ۔(مستفاد از قاموس الفقہ جلد چہارم :۵۵۲)

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اكْتَحِلُوا بِالإِثْمِدِ فَإِنَّهُ يَجْلُو البَصَرَ، وَيُنْبِتُ الشَّعْرَوَزَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ مُكْحُلَةٌ يَكْتَحِلُ بِهَا كُلَّ لَيْلَةٍ ثَلَاثَةً فِي هَذِهِ، وَثَلَاثَةً فِي هَذِهِ۔(رواہ الترمذی باب ماجاء فی الاکتحال : ۱۷۵۷)

جمعہ کے دن سفرکرنا

جمعہ کے دن جن لوگوں پر نماز جمعہ فرض ہے ، ان کے لئے زوال سے پہلے سفرکرنااحناف کے نزدیک جائز ہے ؛البتہ زوال کے بعد نمازِ جمعہ اداکئے بغیرسفرکرناجائز نہیں ہے ۔

بعض علماء کے نزدیک نماز جمعہ سے پہلے بالکل جائز نہیں ہے ،لہذا جمعہ کے دن سخت ضرورت کے بغیر سفرنہ کرے تاکہ احتیاطی پہلو پر عمل ہوجائے ۔طالب دعا: عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور،۲۷/شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۲۳/اپریل ۲۰۲۰ء