باجماعت نمازاورمتعلقہ احکام ومسائل

باجماعت نما ز کی اہمیت

نماز اسلام کی نہایت اہم عبادت اوراللہ کی بندگی ونیازمندی کا مظہر ہے، باجماعت نماز اسلام کی پہچان اورایمان کی روشن دلیل ہے ،نماز باجماعت عظیم الشان اسلامی شعار،اسلام اوراہل اسلام کی شان وشوکت بڑھانے والی،انہیں بلند وبالامقام اوردرجہ کمال پرپہنچانے والی عبادت ہے، باجماعت نمازسے بے شماردینی وملی مصلحتیں وابستہ ہیں ،باجماعت نماز انفرادی نمازسے کئی درجہ افضل ، لائق قبول اوربے شماربرکتوں کا ذریعہ ہے،مساجدکو باجماعت نماز ہی کے لیے قائم کیاجاتاہے ،پنچ وقتہ اذان باجماعت نماز ہی کے لیے دی جاتی ہے۔

باجماعت نمازکی برکت سے اجرمیں زیادتی

حضرت عبداللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:صلوة الجماعة تفضل صلوة الفذ بسبع وعشرین درجة ۔(رواہ البخاری عن عبداللہ بن عمرؓ باب فضل صلاة الجماعة:۶۴۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:باجماعت نماز پڑھنا تنہانماز پڑھنے کی بنسبت ستائیس درجہ افضل ہے

جماعت کی نیت پر جماعت کا ثواب

حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من توضأ ،فاحسن وضوءہ ،ثم راح ،فوجدالناس قدصلوا، اعطاہ اللہ مثل اجرمن صلاھا ،وحضرھا ،لاینقص ذالک من اجورھم شیئا۔(ابوداو¿د باب فی من خرج یریدالصلوة ،فسبق بھا: ۵۶۴)

جس نے وضوکیا اوراچھی طرح وضوکیا ،پھروہ جماعت میں شرکت کی نیت سے مسجدکی طرف گیا ،وہاں پہنچ کر دیکھا کہ جماعت ہوچکی ہے ،تواللہ تعالیٰ اس بندہ کو بھی ان لوگوں کے برابر ثواب عطافرمائیں گے جنہوں نے باجماعت نماز اداکی ہے اوریہ چیز ان لوگوں کے اجرمیں کمی کاباعث نہیں ہوگی

باجماعت نماز کی برکت سے شیطان سے حفاظت

حضرت ابوالدرداءؓفرماتے ہیں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:مامن ثلثة فی قریة ولابدو لاتقام فیھم الصلوة الاقداستحوذ علیھم الشیطان ،فعلیک بالجماعة ،فانما یاکل الذئب القاصیة۔(ابوداو¿دباب فی التشدید فی ترک الجماعة:۵۴۷)

کسی بستی یا بادیہ(جنگل وغیرہ میں عارضی قیام گاہ)میں تین آدمی ہوںاوروہ باجماعت نماز نہیں پڑھتے ہیں،تو ان پرشیطان یقینا قابوپالے گا ،لہذا تم جماعت کی پابندی کو اپنے اوپرلازم کرلو ؛کیونکہ بھیڑیا اسی بھیڑ کو اپنالقمہ بناتاہے جوگلہ سے الگ دورہتی ہے۔

حدیث مذکورسے معلوم ہواکہ باجماعت نمازکااہتمام کرنے والا شیطان کے تسلط سے محفوظ ومامون ہوجاتاہے۔

جماعت کی برکت سے نفاق وجہنم سے براءت

حضرت انسؓ فرماتے ہیں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من صلی للہ اربعین یوما فی جماعة یدرک التکبیرة الاولی ،کتب لہ براءتان ،براءة من النار،وبراءة من النفاق ۔(رواہ الترمذی باب فی فضل التکبیرة الاولی:۲۴۱،مسنداحمد:۱۲۵۸۳)

جوشخص چالیس دن تک ہرفرض نماز تکبیرہ تحریمہ کے ساتھ اداکرے ، تو اس کے لیے دوبراءتیں لکھی جاتی ہیں،ایک جہنم کی آگ چھٹکارے کی براءت، دوسری نفاق سے پاکی کی بر اءت ۔

چالیس دن باجماعت نماز تکیبرِ تحریمہ کے ساتھ اداکرنا اللہ کے نزدیک اتنا محبوب ومقبول عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کی برکت سے اس کے لیے دوبراءتوں کا فیصلہ فرمادیتے ہیں ،ایک براءت یہ ہے کہ اس کادل نفاق سے پاک ہے ،دوسری برا ءت یہ ہے کہ وہ جہنم سے بری ہے۔

مسلمانوں کاباجماعت نماز کا اہتمام

حضرات صحابہ باجماعت نماز کا اس قدراہتمام کرتے تھے کہ اگربیمارآدمی بھی کسی طرح جماعت میں شریک ہوسکتاتھا ،ضرورشریک ہوجاتاتھا،کوئی مومنِ مخلص باجماعت نماز سے پیچھے نہیں رہتاتھا،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض الوفات میں مرض کی شدت کی وجہ سے باربارغشی طاری ہوتی تھی ،کئی دفعہ وضوکا پانی بھی طلب فرمایا،آخر ایک مرتبہ وضوفرماکر حضرت عباس ؓ اوردیگر صحابہ کے سہارے باجماعت نماز کے لیے مسجدمیں اس حال میں تشریف لے گئے کہ زمین پر پاؤوں مبارک اچھی طرح جمتابھی نہیں تھا۔ (رواہ البخاری عن عائشة فی حدیث طویل، باب انماجعل الامام لیؤتم بہ : ۶۸۷)

مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی سنن ہدی میں سے

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں

قال لقدرأیتنا ومایتخلف عن الصلوة الامنافق ،قدعلم نفاقہ اومریض ،ان کان المریض لیمشی بین رجلین حتی یاتی الصلوة ،وقال: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمنا سنن الھدی ،وان من سنن الھدی الصلوة فی المسجد الذی یؤذن فیہ ،وفی روایة شرع لنبیکم سنن الھدی ،وانھن (ای الصلوات حیث ینادی بھن)من سنن الھدی ،ولوانکم صلیتم فی بیوتکم کمایصلی ھذاالمتخلف فی بیتہ، لترکتم سنة نبیکم ،ولوترکتم سنة نبیکم لضللتم ۔(رواہ مسلم ،باب صلوة الجماعة من سنن الھدی:۲۵۷،۲۵۶)

ہم نے اپنے کو(مسلمانوں کو)اس حال میں دیکھاہے کہ نماز باجماعت میں شریک نہ ہونے والایاتوکوئی منافق ہوتاتھا جس کی منافقت ڈھکی چھپی نہیں ہوتی تھی ؛بلکہ عام طورسے لوگوں کو اس کی منافقت کا علم ہوتاتھا ،یاکوئی بے چارہ مریض ہوتاتھا (جوبیماری کی وجہ سے نہیں آسکتاتھا)بعض مریض دوآدمیوں کے سہارے چل کرآتے اورجماعت کی نماز میں شریک ہوتے تھے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنن ہدی کی تعلیم دی ہے (یعنی دین وشریعت کی ایسی باتیں بتلائی ہیں جن سے ہماری ہدایت وسعادت وابستہ ہے اوراللہ سے مقام قرب اوررضاتک پہنچانے اعمال والے ہیں )انہیں سننِ ہدی میں سے ایسی مسجد میں نماز اداکرنا بھی شامل ہے جہاں اذان ہوتی ہو۔

ایک دوسری روایت میں ہے : حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: اے مسلمانو !اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سنن ہدی مقررفرمائیں ہیں ،پنچ وقتہ نمازیں باجماعت مسجد میں اداکرنا بھی سنن ہدی میں سے ہے ،اگرتم اپنے گھرہی میں نماز پڑھنے لگو ،جیسے یہ شخص اپنے گھرمیں نماز پڑھتاہے (اپنے زمانہ کے کسی خاص شخص کی طرف اشارہ ہے )تواپنے پیغمبر کا طریقہ چھوڑدوگے ،جب تم اپنے پیغمبر کا طریقہ چھوڑدوگے ،تویقین جانوکہ تم راہ ہدایت سے ہٹ جاؤگے اورگمراہی کے غارمیں جاگروگے ۔

ترکِ جماعت پر شدیدوعید

قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لیس صلوة اثقل علی المنافقین من الفجروالعشاء،لویعلمون مافیھما لاتوھما،ولوحبرا ،لقدھممت ان امر المؤذن ،فیقیم ثم امررجلا یؤم الناس ،ثم اخذ شعلا من نار،فاحرق علی من لایخرج الی الصلوة بعد۔(رواہ البخاری عن ابی ھریرة ،باب فضل العشاءفی الجماعة: ۶۵۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اعتقادی اوعملی دونوں قسم کے)منافقوں پر فجروعشاءکی (باجماعت )نمازسے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں ہے ،اگروہ جانتے کہ ان دونوں نمازوں(کوباجماعت اداکرنے) میں کیااجروثواب اورکیابرکتیں ہیں ،تووہ ان نماز وں(کی جماعت ) میں حاضرہواکرتے ،اگرچہ ان کو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کے آنا پڑے ،اس کے بعد آپ نے ارشادفرمایا: میراجی چاہتاہے کہ (کسی دن ) میں مؤذن کوحکم دوں کہ وہ جماعت کے لیے اقامت کہے ،پھرمیں کسی شخص کو حکم دوں جو میری جگہ لوگوں کی امامت کرے اورمیں خود آگ کے فتیلے ہاتھ میں لے کر ان لوگوں کے گھروں پرجاؤوں جوگھروں میں موجودہیں ،اذان سننے کے باجود جماعت کی نماز میں شریک نہیں ہوئے ،انہیں آگ لگادوں(مگرآپ کو عورتوں اوربچوں کا خیال آیا،تو آپ نے اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا)۔

باجماعت نماز کا حکم

بعض احناف نے باجماعت نماز کو واجب قراردیاہے اوربعض نے سنت مؤکدہ قریب من الواجب قراردیاہے،یہی قول راجح ہے ،بلاعذرشرعی جماعت ترک کرنا جائزنہیں اوربلاعذشرعی تارکِ جماعت کی تعزیرکی جائے گی،باجماعت نماز میں شرکت ان عاقل بالغ مردوں پرواجب ہے جوبلاکسی مشقت جماعت میں حاضرہوسکتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے اس شخص کو جو بلاعذرشرعی جماعت سے نماز نہیں پڑھتا ،اس کو گنہگار،فاسق اورمردود الشہادہ قراردیاہے ۔

قال ابن نجیم:ان تارک الجماعة یستوجب اساءة ،ولاتقبل شھادتہ اذاترکھا استخفافا بذالک ،وفی منحة الخالق اذاترکھا استخفافا ای تھاونا وتکاسلا ،ولیس المرادحقیقة الاستخفاف الذی ہوالاحتقار،فانہ کفر۔(البحرالرائق کتاب الصلوة باب الامامة ۶۰۳/۱)

الجماعة سنة مؤکدة للرجال ،قال الزاھدی : ارادو بالتاکید الوجوب ،وقیل واجبة ،وعلیہ العامةعلی الرجال العقلاءالبالغین القادرین علی الصلاة بالجماعة من غیرحرج(الدرالمختار) قال ابن عابدین : والاحکام تدل علی الوجوب من ان تارکھا بلاعذر یعزر وتردشھادتہ ،ویاثم الجیران بالسکوت عنہ الخ ۔(ردالمحتارکتاب الصلوة باب الامامة،۲۸۷/۲،فتاوی محمودیہ ادارہ صدیق ۴۰۷/۶)

مسجد کی جماعت ترک کرنے کی رخصت

جن لوگوں پر باجماعت نماز لازم ہے ،اگروہ شرعا معذورہیں ، توان کے لیے شرعاًمسجدکی جماعت ترک کرنے کی رخصت ہے ،ترکِ جماعت کی وجہ سے وہ لوگ گنہگارنہیں ہوں گے ،جیسے کوئی شخص بیمارہو ،بہت عمر دراز ہو ،ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں،یاپاؤوں کٹاہواہو،ایسا مفلوج جوچل نہ سکے ،نابینا ہو ،بارش ہورہی ہو،سخت ٹھنڈک اوربرف بار ی ہورہی ہو،راستے میں کیچڑ ہو،بہت تاریک رات ہواورروشنی کا انتظام نہ ہو،اندھیری رات ہو اورتیز ہوا چل رہی ہو،کسی مریض کا تیماردارہو،سفرکاارادہ ہواورجماعت میں شرکت کی صورت میں قافلہ (بس یاٹرین یاہوائی جہازوغیرہ )چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو ،یامال ضائع ہوجانے کاخطرہ ہو ،پیشاب ،پائخانہ کا شدید تقاضاہو ،یاسخت بھوک لگی ہو اورکھاناسامنے ہو ،ان تمام صورتوں میں جماعت ترک کرنے کی اجازت ہے ۔(الدرالمحتار مع ردالمحتار۲۹۲/۲،قاموس الفقہ ۱۱۶/۳)

مسجد اورباجماعت نماز سے روکنا

جوشخص پیاز ،لہسن وغیرہ بدبودارچیز کھائے ،اس کو مسجدآنے سے روک دیاجائے گا ؛چونکہ مسجد سے روکنے کی علت فرشتوں اورمسلمانوں کی ایذاءرسانی ہے ،اس وجہ سے علماءنے ان تمام افرادکو مسجدآنے سے روک دیاہے جن سے فرشتوں یامسلمانوں کو اذیت وتکلیف پہنچتی ہے ،مثلاجس شخص کے منہ میں بدبوہو،یاکوئی ایسا زخم ہو جس سے بدبو نکلتی ہو اورلوگوں کی اذیت کاسبب بنتی ہو ،اس کو بھی مسجد آنے سے روک دیاجائے گا ،اسی طرح قصاب ،مچھلی فروش (جوبدن وکپڑوں کی خوب صفائی وستھرائی کے بغیرآجاتاہو)اس کو بھی روک دیاجائے گا ۔

علامہ ابن عابدین شامی ؒ فرماتے ہیں: مذکورہ لوگوں کے ساتھ جذامی اورکوڑھی شخص کو بھی بدرجہ اولی شامل کیاجائے گا ،اس لیے ان لوگوں نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے ،لہذا حدیث (جوپیاز لہسن کہائے، وہ ہمارے مسجدوں کو نہ آئے )کے مصداق میں وہ تمام افراد داخل ہوں گے جن سے لوگوں کو اذیت پہنچتی ہو،خواہ زبانی تکلیف پہنچے ،حضرت ابن عمرؓ نے اسی کا فتوی دیاہے ،حضرت ابن عمرکا فتوی اصل وضابطہ کلیہ ہے کہ :ہرایسے شخص کو مسجد آنے سے روکنے کے لیے جن سے فرشتوں اورمسلمانوں کو تکلیف ،اذیت اورگھن محسوس ہوتی ہو ۔

قال الحصکفی :اکل نحوثوم،یمنع منہ ،وکذاکل مؤذولوبلسانہ۔(الدرالمختار)قلت : علة النھی اذی الملائکة واذی المسلمین کذالک الحق بعضھم بذالک من بفیہ بخر اوبہ جرح لہ رائحة ،وکذالک القصاب ،والسماک ،والمجذوم والابرص،اولی بالالحاق والحق بالحدیث کل من آذی الناس بلسانہ ،وبہ افتی ابن عمر،وھواصل فی نفی کل من یتاذی بہ ۔(ردالمحتارباب مایفسدالصلوة ومایکرہ فیھا ،مطلب فی الغرس فی المسجد۴۳۵/۲)

وبائی اورمتعدی امراض میں مبتلا افراد کے لیے ترک ِجماعت

فقہائے کرام نے جذامی اورکوڑھی کو مسجد آنے سے روک دیا ہے ،اس لیے کہ اطباءان کو متعدی امراض مانتے ہیں ،امراض متعدی ہوں یا نہ ہوں ،عقیدہ کا فساد ضرورہے ،خدانخواستہ اگرکوئی شخص اس بیماری میں مبتلاہوجائے ،تو وہ سمجھتاہے کہ ان مریضوں کے ساتھ ملنے جلنے ہی سے میں بیمارہواہوں ،یہ عقیدہ کا فسادہے ،نیز یہ امراض مسلمانوں کی اذیت اورتکلیف کا سبب بھی ہوتے ہیں ،لہذ اجوبھی مہلک ،متعدی اوروبائی امراض میں مبتلا ہوں ،لوگوں کے اختلاط وازدحام کی بناپر لوگ ان امراض میں مبتلاہوسکتے ہوں ،تواس طرح کے مریضوں کو مسجد آنے سے شرعا روکا جاسکتاہے ،مذکورہ بالاتفصیلات سے کرونا وائرس کے شکارمریضوں کو مسجد سے روکنے کا مسئلہ بھی واضح ہوگیا ۔

وبائی امراض کے ایام میں عام لوگوں کو مسجد سے روکنا

ترکِ جماعت کے جواعذارہیں ،ان میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے ، بعض صورتوں میں جماعت میں شرکت کے لیے سخت قسم کی مشقت ،جیسے سخت تاریکی ،بھوک کی شدت،بعض صورتوں میں مرض میں مبتلاہونے کا اندیشہ ،جیسے برف باری ،سخت قسم کی سردی ،تیمارداری جس میں مریض کے مرض کا اعتبارکیاگیاہے اوربعض صورتوں میں مال کے ضائع ہونے کا اندیشہ بھی ہے ،لہذا وبائی امراض کے زمانہ میں تندرست وصحت مندافراد کو بھی مسجد آنے سے روکنا؛تاکہ ان کی صحت وعقیدہ کی حفاظت ہوسکے، ترک ِجماعت کے معقول شرعی عذرکی بناپردرست ہوگا ،اس لیے کہ لوگوں سے اختلاط اورلوگوں کے ساتھ میل جول امراض کے متعدی ہونے کا سبب بن سکتا ہے ،جو مسلمانوں کی اذیت ،تکلیف اورامراض میں مبتلاہونے کا سبب ہے ۔

مذکورہ دونوں صورتوں میں مریض اوراسبابِ امراض سے احتیاطی تدابیراختیارکرنے والے، اگراس طرح کے حالات پیدانہ ہوتے ،تو ضرور مسجد کی جماعت میں شرکت کرتے اور جماعت کی نماز میں شرکت کی نیت بھی ہے ؛لیکن حالات کی مجبوری سے گھرہی پرنمازاداکررہے ہیں ،توان کے لیے شرعاً ترک جماعت کی رخصت ہے ،ان شاءللہ جماعت میں شرکت کرنے والوں کے برابراجربھی ملے گا ۔

مریض ومسافرکی جماعت کے فوت ہونے پراجروثواب

جوشخص مسجدکی جماعت کا پابندہو ، کسی عذرِشرعی کی بناپر باجماعت نماز میں شریک نہیں ہوسکتاہو ؛لیکن اس کی عادت ونیت ہے کہ،اگربالفرض جماعت کی نماز میں شرکت سے معذورنہ ہوتا،توضرورمسجد کی جماعت میں شریک ہوجاتا،توایسے شخص کے لئے جماعت میں شرکت کے بغیر بھی جماعت کا ثواب ملے گا ۔

حضرت ابوموسی اشعری ؓفرماتے ہیں

سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرمرة ولامرتین یقول:اذاکان العبدالصالح یعمل عملاصالحا ،فشغلہ عنہ مرض اوسفر ،کتب لہ کصالح ماکان یعمل وھوصحیح مقیم ۔(رواہ البخاری مختصراورواہ ابوداؤد اذاکان العبدالصالح یعمل عملاصالحا الخ:۳۰۹۱)

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمارمرتبہ فرماتے ہوئے سناہے کہ جب کوئی نیک بندہ کسی نیک عمل کا پابندہو،پھربیماری یا سفرکی وجہ سے اس عمل کو نہ کرسکے ،تواس بندہ کے لیے تندرستی اورحالتِ اقامت میں جو نیک اعمال کرتاتھا ،اسی کے بقد رثواب لکھاجاتاہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓفرماتے ہیں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ان العبداذاکان علی طریقة حسنة من العبادة ،ثم مرض ،قیل : للملک المؤکل بہ : اکتب لہ مثل عملہ اذاکان طلیقا حتی اطلقہ اواکفتہ الی ۔(رواہ عبدالرزاق فی مصنفہ واحمد:۶۸۹۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ کسی عبادت کا پابندہو،پھربیمار ہوجائے ،تواس فرشتہ سے کہاجاتاہے جواس پر مقرر ہے ، تندرستی کی حالت میں جوعمل وہ بندہ کیاکرتاتھا ، اسی کے بقد راجرلکھ دیاکرویہاں تک کہ میں اس کو تندرستی عطاکروں یا اپنے پاس بلالوں۔

عذرکی بناپرجماعت کے فوت ہونے کی وجہ سے جماعت کا ثواب

ملاعلی قاری ؒ حضرت ابوموسی اشعری ؓ کی روایت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں

فیہ رد علی قول الشافعیة :ان من ترک صلاة الجماعة لایکتب لھا ثوابھا ۔(مرقاة المفاتیح : ۱۵۴۴)

اگرکوئی بندہ باجماعت نماز کا پابند ہے،بیماری کی وجہ سے اس کی جماعت فوت ہوجائے ،تو اس کو جماعت میں شرکت کا ثواب ملے گا ،اس لیے کہ روایت کے الفاظ عام ہےں، جس کے عموم میں باجماعت نماز کی پابندی بھی شامل ہے ،بعض شافعیہ نے کہا کہ عذرکی بناپرجماعت کے فوت ہونے کی وجہ سے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا ،اس روایت میں صاف طور سے اس قول کی تردید ہے ۔

علامہ ابن عابدین شامی ؒ تحریرفرماتے ہیں

اذاانقطع عن الجماعة لعذرمن اعذارھا ،وکانت نیتہ حضورھا لولا العذریحصل لہ ثوابھا،والظاھر ان المرادبہ العذرالمانع کالمرض والشیخوخة،والفلج ۔(کتاب الصلوة باب لامامة مطلب فی تکرارالجماعة فی المسجد ۲۹۱/۲)

شرعی عذرکی بنار پرکسی شخص کی جماعت فوت ہوجائے ،اگروہ معذورنہ ہوتا ،تو ضرور جماعت میں شرکت کرتا،اس کے لئے جماعت کا ثواب ملے گا ۔

مذکورہ احادیث شریفہ اورمحدثین وفقہائے کرام کی تشریحات وتصریحات سے معلوم ہوا کہ اگرشرعی اعذار(بشمول وبائی امراض ) کی بناپرمسجد کی جماعت فوت ہوتی ہے، یا شرکت نہیں کرسکتاہے ،تواللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل وکرم سے معذوری سے پہلے کی حالت کالحاظ کرتے ہوئے جماعت کا ثواب عطافرماتے ہیں۔

فیضان قاسمی خالص اسلامی وعلمی ویب سائٹ ہے ، خود مطالعہ فرمائیں ،دوست واحباب کو بھی مطلع کریں اوردعاء کریں کہ اللہ تعالی اس ویب سائٹ کو نافع اورمرتبین کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے ۔ آمین یارب العلمین :طالب دعاء :ابوفیضان عبداللطیف قاسمی

اپنا تبصرہ بھیجیں