اذان کاجواب دینے کی فضیلت واہمیت

اذان کاجواب دینے کی فضیلت واہمیت: اذان کے دو پہلو یا دوحیثیتیں ہیں(۱)اذان نماز باجماعت کا اعلان اوربلاواہے(۲)اذان ایمان کی دعوت وپکار اوردینِ حق کا منشور ہے ،پہلی حیثیت سے ہرمسلمان کے لئے ضروری ہے کہ جیسے ہی اذان کی آواز کان میں پڑے، نماز میں شرکت کے لئے تیارہوجائے اورجماعت کی نماز میں شریک ہوجائے۔

دوسری حیثیت سے ہرمسلمان کو حکم ہے کہ اذان سنتے وقت اس ایمانی دعوت کے ہرجزء،ہرکلمہ اوراس آسمانی منشور کے ہردفعہ کی اپنے دل اور زبان سے تصدیق کرے ،اس طرح پوری انسانی آبادی ہراذان کے وقت اپنے ایمانی عہد ومیثاق کی تجدید کیاکرے۔

رسول اللہﷺ نے اپنے اراشادات میں اذان کاجواب دینے ،اس کے بعد کی دعائیں اورپھر کلمہءشہادت پڑھنے کی جو تعلیم وترغیب دی ہے ،اس عاجز کے نزدیک اس کی خاص حکمت یہی (سمجھ میں آتی)ہے ۔واللہ اعلم (معارف الحدیث۱۶۴/۳،بتلخیص یسیر )

جومیرے لئے وسیلہ طلب کرے ،اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگی

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ۔(رواہ مسلم : 384)

جب تم اذان سنو ،تو جو مؤذن کہے ،وہی کلمات کہو ،پھر مجھ پر درود پڑھو ،جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا،اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں،پھرمیرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو ،وسیلہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کوحاصل ہوگا اورمجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوسکتاہوں ،پس جومیرے لئے وسیلہ طلب کرے گا،اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگی،علماءنے فرمایا : شفاعت کے واجب ہونے میں خاتمہ بالخیر کی طرف اشارہ ہے ۔

نیز حضرت عمرؓکی روایت (جوآگے آرہی ہے )میں اذان کاجواب دینے پر جنت کی بشارت سنائی گئی ہے ، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اذان کاجواب بظاہر ایک معمولی سا عمل ہے ؛لیکن اس پر دخول جنت کی بشارت کا رازکیا ہے ؟

اذان کی آوازسن کر جوا ب دینے میں لگ جانا چاہئے

علامہ ابن نجیم ؒ حضرت عائشہ ؓ اوردیگر سلف صالحین کے واقعات نقل فرمائے ہیں کہ وہ حضرات اذان کی آواز پرراستہ چلتے چلتے رک جاتے ،لوہے پرمارنے کیلئے ہتوڑی اٹھاتے، جیسے ہی اذان کی آواز کان میں پڑتی ،ہتوڑی چھوڑ دیتے ۔

اسی وجہ سے علماءنے لکھا:اگر تلاوت قرآ ن میں بھی لگاہواہو،جب اذان کی آوازکان میں پڑے، توتلاوت موقوف کرے اور اذان کاجواب دے ۔(البحرالرائق۴۵۲/۱)

ولایقرأ السامع، ولایسلم، ولایرد السلام، ولایشتغل بشیءسوی الاجابة، ولوکان السامع یقرأ یقطع القراءة،ویجیب ۔(البحر الرائق ۴۵۲/۱)

اذان کاجواب دینے کاحکم

اذان کاجواب دو طرح سے دیا جاتاہے ،فعلی جواب اورقولی جواب،فعلی جواب یعنی مؤذن کی آواز سن کر اس کی طرف چلنا اور نماز با جماعت میں شرکت کرنا، اگرکوئی عذرنہ ،تو بالاتفاق واجب ہے ،جماعت کے ترک کرنے کے اعذار کو فقہاءرحمھم اللہ نے بالتفصیل بیان کیا ہے، قولی جواب یعنی زبانی جواب دینا ۔

اجابت فعلی کے سلسلہ میں اللہ والوں کی کیفیات

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق نقل کیاگیا ہے کہ جب نماز کا وقت آتا، توچہر ہ کارنگ بدل جاتا،بدن پرکپکی آجاتی ،کسی نے وجہ پوچھی ،تو ارشاد فرمایاکہ اس امانت کے اداکرنے کا وقت ہے جس کو آسمان وزمین اٹھانہ سکے ،پہاڑ اس کے اٹھانے سے عاجز ہوگئے ،میں نہیں سمجھتا کہ اس کو پورا کرسکوں گا یا نہیں؟

حضرت عبداللہ بن عمرؓ ایک مرتبہ بازار میں تشریف فرماتھے کہ جماعت کاوقت ہوگیا ،لوگ اپنی اپنی دکانیں بند کرکے مسجد میں داخل ہوگئے ،اس منظر کو دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا :رجال لاتلھیھم تجارة ولابیع عن ذکر اللّٰہ الخ والی آیت اسی طرح کے لوگوں کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے ۔

ان مسجدو ں میں ایسے لوگ صبح وشام اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں جن کو اللہ کی یاد ، بالخصوص نماز پڑھنے سے اور زکوة دینے سے خرید وفروخت غفلت میں نہیں ڈالتی ہے ،وہ ایسے دن کی پکڑسے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ جائیں گی ۔(الدراالمنثور سورہ نور ،حکایات صحابہ:۶۰)

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ جب اذان کی آواز سنتے، تواس قدر روتے کہ چادر ترہوجاتی ،رگیں پھول جاتیں،آنکھیں سرخ ہوجاتیں،کسی نے عرض کیا کہ ہم لوگ اذان سنتے ہیں؛ مگر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، آپ اس قدرگھبراتے ہیں؟ارشادفرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ مؤذن کیا کہتاہے، تولوگ راحت وآرام سے محروم ہوجائیں اور نیند اڑجائے ۔

اذان کی آوازپررنگ بے قرار ی وبے چینی

سالم حداد ایک بزرگ تھے، تجارت کرتے تھے ،جب اذان کی آواز سنتے، تو رنگ متغیر ہوجاتااورزرد پڑجاتا،بے قرار ہوجاتے ،دکان کھلی چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے اورمندرجہ ذیل اشعار پڑھنے لگتے :

اذامادعاداعیکم ،قمت مسرعًا ٭مجیبًالمولیٰ جل لیس لہ مثل

جب وہ منادی پکارتاہے تو میں بحالت نشاط اطاعت وفرمابرداری کے ساتھ جواب میں کہتاہوں اے فضل وبزرگی والے لبیک

اجیب اذا نادی بسمع وطاعة ٭وبی نشوة لبیک یا من لہ الفضل

ایسے مالک کی پکار کوقبول کرتے ہوئے جس کی بڑی شان ہے، اس کا کوئی مثل نہیں ۔

جب تمہارا منادی (مؤذن)پکارنے کے واسطے کھڑا ہوتاہے تو میں جلدی سے کھڑا ہوجاتاہوں

ویصفر لونی خیفةً،ومھابة ٭ویرجع لی عن کل شغل بہ شغل

تمہارے حق کی قسم !تمہارے ذکر کے سوا مجھے کوئی چیز بھی لذیذ معلوم نہیں ہوتی اور تمہارے سواکسی کے ذکر میں بھی مزہ نہیں آتا ۔

وحقکم مالدی لی غیرذکرکم٭وذکرسواکم فی فمی قط لایحلو

اورمیرارنگ خوف وہیبت سے زرد پڑجاتاہے اور اس پاک ذات کی مشغولی مجھے ہرکام سے بے خبر کردیتی ہے۔

متی یجمع الایام بینی،وبینکم ٭ویفرح مشتاق اذاجمع الشمل

فمن شاھدت عیناہ نورجمالکم ٭یموت اشتیاقًا نحوکم قط لایسلو

دیکھئے زمانہ مجھ کو اورتم کو کب جمع کرے گا اور مشتاق تو جب ہی خوش ہوتاہے جب ملاقات نصیب ہوتی ہے۔

جس کی آنکھوں نے تمہارے جمال کانور دیکھ لیا ہے ،تمہارے اشتیاق میں مرجائے گا،کبھی بھی تسلی پانہیں سکے گا۔(ان تمام واقعات کو حضرت شیخ الحدیثؒ نے فضائل نماز تیسرے باب خشو ع وخضوع کے بیان:۸۳ میں نقل فرمایا ہے)

اذان کاجواب زبانی دینے کاحکم

اذان کاجواب زبانی دیناواجب ہے؟یامستحب ؟اس سلسلہ میں فقہاءکرام کی دو رائے ہیں ۔
علامہ کاسانی ،ابن ھمام اورحصکفی ؒ کی رائے یہ ہے کہ اذان کاجواب زبانی دینا واجب ہے اورعلماءکی ایک جماعت جس میں علامہ حلوانی بھی ہیں کی رائے یہ ہے کہ اذان کازبانی جواب دینا مستحب ہے ،واجب نہیں ،اگرجواب دے گا ،تو ثواب کا مستحق ہوگا ،اگرجواب نہ دے، تو گنہگار نہ ہوگا ۔

علامہ ابن ھمام ؒ تحریر فرماتے ہیں

اما الاجابة فظاہر خلاصة الفتاوی والتحفة ،وجو بھا ، وقو ل الحلوانی الاجابة بالقدم ،فلو اجاب بلسانہ، ولم یمش، لایکون مجیبًا ،ولوکان فی المسجد، فلیس علیہ ان یجیب باللسان ،حاصلہ نفی وجوب الاجابة باللسان ،وبہ صرح جماعة،وانہ مستحب ،قالوا: ان قال، نال الثواب الموعود، والا لم ینل ،اما انہ یاثم اویکرہ ،فلا ۔۔۔لکن ظاھر الامر فی قولہ ﷺاذا سمعتم المؤذن، فقولوا مثل مایقول ،الوجوب ،اذلاتظھر قرینة تصرفہ عنہ، بل ربما یظھر استنکارترکہ، لانہ یشبہ عدم الالتفات الیہ والتشاغل عنہ ۔(فتح القدیر ۲۵۴/۱)

علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں :امام مالک ،امام شافعی ،امام احمد بن حنبل ؒ اورجمہور فقہاء رحمھم اللہ کا مذہب یہ کہ اذان کاجواب زبانی دینا مستحب ہے اور امام طحاوی ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔

قال مالک ،والشافعی ،واحمد ؒ،وجمھور الفقھاءالامر فی ھذا الباب علی الاستحباب دون الوجوب،وھو اختیارالطحاوی۔(عمدةالقاری۱۶۵/۴)

اذان کاجواب زبانی دینامستحب

علامہ ظفر احمد تھانوی ؒ نے حافظ ابن حجر ؒ کاکلام نقل فرماکر اذان کازبانی جواب دینامستحب ہونے کا فیصلہ فرمایاہے۔

وذھب الجمھورالی عدم الوجوب ،قال الحافظ واستدلو ا بحدیث اخرجہ مسلم وغیر ہ ان النبی ﷺ سمع موذنا ،فلما کبر، قال علی الفطرة ،فلما تشھد، قال خرج من النار ،قالوا: فلما قال غیر ماقال المؤذن، علمنا ان الامر بذالک للاستحباب ،قلت (ظفر احمد التھاونوی )وھذا اقوی المذاھب ،۰۰۰وفی فتاوی قاضی خاں :اجابة الاذان فضیلة ،وان ترکھا لا یاثم ،۰۰۰

قلت (ظفر احمد التھاونوی )فعلم من ھذا ان اصحابنا اختلفوا فی الجابة باللسان بین الوجوب والاستحباب ،والاقرب الی الاحادیث ماقالہ قاضی خاں، وان کان ظاھر قولہ ﷺ قولوا مثل مایقول المؤذن الخ یقتضی الحکم بالوجوب ،لکنہ محمول علی الندب لدلائل اخر (اعلاءالسنن ۱۰۹/۲ باب اجابة الاذان )

نیز مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی” کتاب الفتاوی“ میں اورمفتی محمد امین صاحب پالن پوری نے ”آداب اذان واقامت“ میں اسی رائے کو اختیار کیا ہے ۔

حاحظ ابن حجر اورمولاناعثمانی کے مذکورہ کلام سے ابن ھمام کا استدلال ضعیف ہوجاتاہے، اس لئے کہ امرمطلق جو قرینہءصارفہ سے خالی ہو اس کا مقتضی وجوب ہے،مسلم کی مذکورہ حدیث قوی قرینہ صارفہ ہے۔

نیزابن سعدنے” الطبقات الکبری“ میں موسی بن طلحہ بن عبید اللہ کی سند سے نقل کیا ہے ،وہ فرماتے ہیں : میں عثمان ؓبن عفان کو دیکھا کہ مؤذن اذان دے رہاہے اور آپ ؓ لوگوں سے گفتگو میں مصروف ہیں ،لوگوں سے بازار کی قیمتیں اور لوگوں کے احوال دریافت کررہے ہیں ،اس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر اذان کا زبانی جواب دینا واجب ہوتا،تو حضرت عثمان ؓ اذان کے وقت لوگوں سے گفتگو میں مصروف نہ ہوتے ۔

عن موسیٰ بن طلحة بن عبید اللہ قال رأیت عثمانؓ بن عفان ،والمؤذن یؤذن ،وھو یتحدث الناس یسألھم ،ویستخبرھم عن الاسعار ،والاخبار ،(الطبقات الکبری لابن سعد ۵۹/۳،المکتبة الشاملة )

اذان کا جواب کن کلمات سے دینا چاہئے

حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کی روایت (تقدم ذکرہ )سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان کا جواب اذان ہی کے کلمات سے دے ؛لیکن حضرت عمر ؓکی روایت مسلم شریف ہی میں تفصیل سے آئی ہے جس میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب مؤذن اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، تم بھی: اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُکہے الخ جب مؤذن’حی علی الصلوہ’اور حی علی الفلاح” کہے، تواس کے جواب میں :لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ”ٰ کہو۔۔۔جو آدمی دل سے ایمان واحتسبات کے ساتھ جواب دے گا ، جنت میں داخل ہوگا ۔(مسلم ۱۶۷/۱)

مسند احمد کی روایت سے” حی علی الصلوہ’اور حی علی الفلاح“ کے جواب میں ”لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ“بھی ثابت ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، قَالَ: إِنِّي لَعِنْدَ مُعَاوِيَةَ إِذْ أَذَّنَ مُؤَذِّنُهُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ، كَمَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ، حَتَّى إِذَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ” فَلَمَّا قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: ” لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ الابِاللهِ “، وَقَالَ بَعْدَ ذَلِكَ مَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَلَّا رواہ احمد ۱۶۸۳۱،مشکوۃ :۶۶)

لہذا ” حی علی الصلوہ’اور حی علی الفلاح“ کے جواب میں دونوں پڑہنا صحیح ہے ،ابن ھمام ؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے بعض مشائخ کو” حی علی الصلوہ’اور حی علی الفلاح‘ کے جواب میں دونوں پڑہتے ہوئے دیکھا ہے ۔(فتح القدیر ۲۵۵/۱،البحر الرائق ۴۵۲/۱)
علامہ شامی ؒ فرماتے بعض مشائخ سے مراد سلطان العارفین سید محی الدین بن العربی ہیں (منحة الخالق علی البحرالرائق ۴۵۲/۱)

مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری مدظلہ تحریرفرماتے ہیں

حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری مدظلہ تحریرفرماتے ہیں
جواب دینے کا طریقہ یہ کہ جب مؤذن ایک کلمہ کہہ کر خاموش ہوجائے ،تو وجواب دینے والا بھی وہی کلمہ دوہرائے اورحیعلتین کے جواب میں حیعلہ بھی جائز ہے اورحوقلہ بھی یعنی لاحول ولاقوة الاباللہ کہنا بھی جائز ہے ، حوقلہ والی حدیث بخاری میں ہے ۔(تحفة اللالمعی :۱۰۳۵)

عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت تخصیص

اکثرعلماءنے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت کو حضرت عمر ؓ کی روایت سے خاص کردیا ہے۔
علامہ ابن ھمام ؒ تحریر فرماتے ہیں

أَمَّا الْحَوْقَلَةُ عِنْدَ الْحَيْعَلَةِ فَهُوَ وَإِنْ خَالَفَ ظَاهِرَ قَوْلِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ» لَكِنَّهُ وَرَدَ فِيهِ حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ كَذَلِكَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «إذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَقَالَ أَحَدُكُمْ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاَللَّهِ، ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاَللَّهِ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ قَالَ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ مِنْ قَلْبِهِ؛ دَخَلَ الْجَنَّةَ» رَوَاهُ مُسْلِمٌ، فَحَمَلُوا ذَلِكَ الْعَامَّ عَلَى مَا سِوَى هَاتَيْنِ الْكَلِمَتَيْنِ۔(فتح القدیر ۲۵۴/۱)

علامہ انورشاہ کشمیری ؒ تحریرفرماتے ہیں

فی الصحیحن ان یجیب الحیعلتین بالحیعلتین ،وفی روایة ان یجیبھما بالحقولتین ،والعمل علی الروایة الثانیة فانھا مفسرة ،وقیل : منھم ابن الھمام بالجمع بینھما ، اقول : ان الغرض اختیاراحدھما ۔ (العرف الشذی مع الترمذی باب مایقول اذااذا المؤذن ۵۴/۱)

بخاری ومسلم کی روایت میں وارد ہے حی علی الصلوة اورحی الفلاح کا جواب ان ہی کلمات سے دے ، ایک دوسری روایت (مسنداحمد )کی روایت حی علی الصلوة اورحی الفلاح کا جواب لاحول ولاقوة سے دے ، عمل دوسری روایت پر ہے ،اس لئے یہ روایت مفسرہے ،وہ روایت مجمل ہے ، بعض حضرات نے دونوںک و جمع کرنے کی بات کہی ہے ، میں (حضرت شاہ صاحب ) کہتاہوں کہ شریعت کا مقصد دونوں کو جمع کرنا نہیں ہے ۔

”الصلوة خیر من النوم” کا جواب ”صَدَقتَ وَبَرَِر´تَ وبرِر´ت” ر“ کا فتحہ وکسرہ دونوں جائز ہیں ،(تم نے سچ کہا اور تم نے بھلائی کی طرف بلاکر بہت بھلائی کا کا م کیا )

علامہ رافعی ؒ ”تقریرات رافعی“ میں لکھاہے : الصلوة خیر من النوم“ کا صدقت وبررت سے جواب دینے کے سلسلہ میں کوئی حدیث (معتبر ) ثابت نہیں ہے اور یہ الفاظ سلف صالحین سے منقول ہیں ۔ (ولم یرو حدیث آخر فی صدقت وبررت بل نقلوہ عن بعض السلف( تقریرات رافعی مع رد المحتار ۲۵۴/۲)

خلاصہءکلام

جب مؤذن اذان دینا شروع کرے ،تواپنے معمولات کو چھوڑ کر راذان کی طرف متوجہ ہوجائے اور درود ابراہیمی پڑھ کر مؤذن کے پیچھے پیچھے کلمات ِاذان کو دہراتا جائے ۔(اذان ومؤذنین رسول اللہ ﷺ:۷۱تا۷۹)

درس قرآن،درس حدیث ،فقہ وفتاوی علمی اورتحقیقی مضامین کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com کی طرف رجوع کریں۔