سلام اوراسلام

سلام اوراسلام : دنیا کی تمام متمدن و مہذب قوموں میں ملا قات کے وقت پیارومحبت،جذبہءاکرام وخیراندیشی کا اظہارکرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرورکرنے کے لئے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے۔

ہمارے ملک میں ہمارے برادرانِ وطن ملاقات کے وقت ”نمستے “کہتے ہیں ، اس نا م نہاد ترقی یافتہ زمانہ میںGood’Night/Good’Morningاور بعض روشن خیا ل حضرات ”صبح بخیر“شب بخیر “ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

حضرت عمرا ن بن حصین ؓکا بیان ہے کہ قبل از سلام عرب کی عادت تھی کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے ،تو اپک دوسرے کو ”حَیَّا کَ اللّٰہُ “( اللہ تم کو زندہ رکھے )” ”انعم الله بك عينا“ “ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ ٹھنڈی کرے )”انعم بك “(تمہاری صبح خوش گوارہو) وغپرہ الفاظ استعمال کیاکرتے تھے۔

جب ہم اسلام کی روشنی میں گئے

جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے، تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی ، اس کے بجائے ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ “کی تعلیم دی گئی ،جس کے معنی ہیں ”تم ہرتکلیف ،رنج ومصیبت سے سلامت رہو“،ابن العربیؒ نے ”احکام القرآن“ میں فرمایا: لفظ” سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی ٰمیں سے ہے اور ”السلام علیکم “ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم “ اللہ تمہارا محافظ ہے۔ (مستفادازمعارف القرآن ۲ / ۱ ۰ ۵)

سلام کی جامعیت ومعنویت

لفظ سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے ،یہ کلمہ پیارومحبت اوراکرام کے اظہارکے لئے بہترین لفظ ہے اور اس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں

نمبر(۱)سلام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی ٰمیں سے ہے۔(بخاری:۲۰۲۹کتاب الاستیذان) نمبر (۲) اس کلمہ میں صرف اظہار محبت ہی نہیں؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاءہے کہ آپ کواللہ تعالیٰ تمام آفات اورآلام سے محفوظ رکھیں۔

نمبر(۳)عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیں؛ بلکہ حیات طیبہ کی دعاءہے ۔ نمبر(۴) سلام کرنے والا اپنی زبان ِحال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتاہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو ،تمہاری جان ،مال اورآبرو کا میں محافظ ہوں ۔

پانچ نمبر(۵)تذکیرہے ،یعنی اس لفظ کے ذریعہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ،ایک دوسرے کو اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتے ۔

شفقت،مرحمت اور پیارومحبت کا کلمہ

نمبر(۶) یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لئے شفقت،مرحمت اور پیارومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لئے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی ۔

نمبر(۷)قرآن مجیدمیں یہ کلمہ انبیاءورسل علیہم السلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طر ف سے بطوراکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اور اس میں عنایت اورمحبت کا رس بھراہوا ہے

چنانچہ ارشادخداوندی ہے

سَلَام عَلٰی نُوح فِی العَالَمِینَ ،سلم عَلٰی اِبرَاھِیمَ سلَا م عَلٰی موسیٰ وَھَارُونَ سلا م عَلٰی اِلیَاسِینَ سلَا م عَلٰی المُرسَلِینَ ،سَلَام عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِینَ اصطَفٰی ۔

نمبر(۸)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کیا جاتاہے ۔نمبر (۹)تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوة واالسلام پر درودبھیجنے کی تلقین کی گئی ہے ۔

نمبر( ۰ ۱)آخرت میں مومنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہاجائے گا”ادخلوھابسلام ،سلام علیکم بماصبرتم، فنعم عقبی الدار۔ (مستفاداز معارف القرآن ۲ / ۱ ۰ ۵ ،معارف الحدیث ۶ / ۹ ۴ ۱ )

سلام کی اہمیت وفضیلت

کلمہ سلام اسلام کا شعار ، جنتیوں کاسلام ،اللہ سے قریب کرنے والا،محبتوں کو پیداکرنے والا،نفرتوں،کدورتوں اورعداوتوں کو مٹانے والاہے ، باہمی تعلق واعتمادکا وسیلہ اورفریقین کے لئے موجبِ طمانیت ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو باہم سلام کو رواج دینے اورعام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی کہ اسلامی دنیاکی فضاءاس کی لہروں سے معموررہے اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اور اس کے فضا ئل و برکات اور اجر و ثواب کوبیان فرمایاہے ۔

یہ سنت حضرت آدم علیہ السلام سے چلی

سلام کی سنت حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے ، چنانچہ حضرت ابوھریرةؓفرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو پیدافرمایا،تورشادفرمایا: اے آدم !فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جا ﺅ اور ان کو سلام کرو ،چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام گئے اور فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم فرمایا ،فرشتوں نے جواب میں عرض کیا ،وعلیکم السلام ورحمة اللہ ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا :اے آدم یہ سلا م تمہارااور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے ۔( بخاری کتاب الاستیدان)

صحیح مسلم میں حضرت ابوھریرةؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے، جب تک کہ مومن نہ بن جاﺅ اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ،میں تم کو ایسی چیز بتا تا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو، تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہو جائے گی،وہ یہ ہے کہ آپس میں سلا م کو عام کرو ،یعنی ہر مسلمان کے لئے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہوسلام کرو۔ ( مسلم کتاب الایمان)

رحمن کی عبادت کرو

حضرت عبداللہ بن عمروؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اعبدوالرحمن ،واطعمواالطعام ،وافشوالسلام ،تدخلوالجنة بسلام۔ (ترمذی فضل اطعام الطعام)

لوگو!خداوندرحمن کی عبادت کرواوربندگانِ خداکوکھاناکھلا ﺅ (محتاج اورمسکین بندوں کوبطورصدقہ کے اوردوستوں عزیزوں اوراللہ کے نیک بندوں کو وبطورہدیہ، اخلاص ا ورمحبت کے کھانا کھلایاجائے )جولوگوں کوجوڑنے اورباہم محبت والفت پیداکرنے کا بہترین وسیلہ ہے )اورسلام کوپھیلا ﺅ توتم پور ی سلامتی کے ساتھ جنت میں پہونچ جا ﺅ گے۔ (ترمذی،باب الاستیذان،ابوداﺅد،ابواب السلام)

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس ؓ سے فرمایا : یا بنی اذا دخلت علی اھلک فسلم یکون برکة علیک وعلی اھل بیتک (ترمذی) اے بیٹے جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاﺅ، تو سلام کیاکرو،یہ تمہارے لئے اور تمہارے گھروالوں کے لئے برکت کا سبب ہوگا ۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓسے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا

أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ ۔(بخاری)

کونسا عمل سب سے بہترہے ؟آپ نے فرمایا : اللہ کے بندوں کو کھاناکھلانا ، جانا پہچانا اور انجان ہرایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کومسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکیدفرمائی ہے ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے ،تو اس کو سلام کرے ،پھر کچھ دیر بعد دیوار ،درخت یا پتھردرمیا ن میں حائل ہوجائے ،تو پھردوبارہ سلام کرے،یعنی جتنی بارملاقات ہو ،اتنی بارسلام کرتارہے ۔(ابوداﺅد)

سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلا م کرنے میں بخل کرے

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتاہے ۔(مشکوة:۰۰ ۴ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرام ؓ پر غیر معمولی اثرہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزءلاینفک بنالیا ،اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں ۔

طفیل بن ابی بن کعب ؒ فرماتے ہیں:حضرت ابن عمرؓ مجھے لے کراکثربازارجایاکرتے تھے،بازارمیں تاجر،خریدار،مسکین ،گری پڑی چیز اٹھانے والا،غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے،ایک دن میں نے عرض کیا ،حضرت بازارمیں آپ نہ خرید وفروخت کرتے ہیں ،نہ آپ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں،لہذا بازارجانے کے بجائے ،آپ یہاں تشریف رکھیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں، ہم سنیں گے۔

حضرت ابن عمرؓنے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازادصرف مسلمانوں کو سلام کرنے کے لئے جاتے ہیں کہ بازارمیں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے ، انھیں سلام کریں گے اورزیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوة: ۰۰ ۴ )

اسلام میں سلا م کا اجروثواب

سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے ،واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتا ہے؛لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے ۔(مرقات المفاتیح باب السلام)

جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے ،تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے ،اگر بغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے، تو گنہگار ہوگا ؛البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے ،ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ،ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیاجائے ،دوسرے یہ کہ بعینہ انہیں الفاظ سے جواب دےدیا جائے ۔(معارف القران)

حضرت عمران بن حصین ؓفرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضرہوئے اور السلام علیکم کہا ،آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور وہ شخص بیٹھ گئے ،آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا ،دس نیکیاں،کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی حاضرخدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہا،آپ علیہ السلام نے جواب دیا ،وہ آدمی بیٹھ گئے اور آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا :بیس نیکیاں۔

کچھ دیر بعد ایک تیسرے شخص حاضرخدمت ہوئے اور عرض کیا ،السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ،آپ علیہ الصلوة والسلام نے ارشادفرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی ،ابوداﺅد) اس روایت سے معلوم ہواکہ مکمل سلام کرنے بعد تیس اورہرایک کلمہ پردس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں ۔

سلام کے آدا ب

نمبر(۱) سلام کرنے میں پہل کرے ،اس لئے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیدا ہوتی ہے ،اللہ تعالی ٰ کوبندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرنے والا ہو (ترمذی،ابوداﺅد) ایک دوسری روایت میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا کبر ونخوت سے بری ہوتا ہے۔ (مشکوة : ۰۰ ۴ )

نمبر(۲)سلام کرنے والااورجواب دینے والا” السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ صیغہءجمع استعمال کریں، اگرچہ مخاطب اکیلاہی کیوں نہ ہو۔(الاذکارالنوویة) نمبر(۳)سلام اتنی بلند آواز کرے کہ سلام کئے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا مستحق نہ ہوگا،نیزجواب دینے والا بھی اسی طرح بلندآوازسے جواب دے ورنہ جواب ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔(الاذکارالنوویة)

سلام کا جواب بہترالفاظ سےدیا جائے

(نمبر)۴جب کوئی سلام کرے ،تو بہترطریقہ پرجواب دینا ،کم از کم ویسے ہی الفاظ سے جواب دینا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے جب تمہیں سلام کیاجائے، تو تم سلام سے بہترالفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔(النساء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے اپنے عمل سے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ سلم کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ !آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا کہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ “پھر ایک صاحب آئے، انہوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے ”السلام علیک یا رسول اللہ !ورحمة اللہ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

قرآنی تعلیم کے مطابق جواب با لمثل

پھر ایک اور صاحب آئے، انہوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ” السلام علیک یا رسول اللہ !ورحمة اللہ وبرکاتہ“ جواب میں صرف ایک کلمہ ”وعلیک“ارشاد فرمایا ،ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں دعاءکے کئی کلمات ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا ۔

آپ نے ”وعلیک “ پر اکتفاءفرمایا ،آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لئے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے ،تم نے سارے کلمات اپنے ہی سلام میں جمع کردئے،اس لئے ہم نے تمہارے سلام کا جواب قرآنی تعلیم کے مطابق جواب با لمثل دینے پر اکتفاءکرلیا،اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے ۔(معارف القران )

کن لوگوں کو سلام کرنا چاہئے

نمبر(۵)عزیز ،دوست،چھوٹے ،بڑے ،جانے پہچانے اورانجانے سب کو سلام کرے ۔(بخاری) نمبر(۶)چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے ۔(بخاری) نمبر(۷)سوارپیدل چلنے والے کو سلام کرے ۔(بخاری) نمبر(۸)پیدچلنے والابیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے ۔(بخاری)

نمبر(۹)چھوٹابڑے کو سلام کرے ۔(بخاری)نمبر (۰ ۱ )اپنے محارم کو سلام کرے ۔(ترمذی)نمبر (۱۱)جب گھریامسجد میں داخل ہو ،وہاں اس کے علاوہ کوئی نہ ہو، تو ان الفاظ سے سلام کرے السلام علینا وعلی عبادہ اللہ الصالحین ۔(ھندیہ )

نمبر(۲ ۱ )اگرکوئی غائب شخص سلام پہنچائے ،تو اس طرح جواب دے ،وعلیک وعلیہ السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔(ترمذی) نمبر(۳ ۱ )اگرایک شخص ایک جماعت کوسلام کرے، تو جماعت میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے ،تمام حاضرین کا جواب دینا افضل ہے ۔(ابوداﺅد)

نمبر(۴ ۱ )اگرسلام کرنے والی ایک جماعت ہو،تو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کا فی ہے ؛البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے ۔(الاذکارالنوویة ) نمبر( ۵ ۱ )اگرمسلم اورغیرمسلم کا مخلوط مجمع ہو،تو مسلمان کی نیت سے سلام کرے ۔(بخاری)

ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے

نمبر(۶ ۱ )جب کسی کی ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے ،تو سلام ِوداع کرے ،یہ بھی سنت ہے ۔(ترمذی) نمبر(۷ ۱ )جب کسی کے پاس کوئی تحریر لکھے، تو السلام علیکم سے کلام کا آغاز کرے ۔(بخاری)

نمبر(۸ ۱ )اگرمسلمان دورہو یابہرا ہو،تو ہاتھ سے اشارہ بھی کرے اورزبان سے لفظ سلام بھی کہے، صرف اشارہ پراکتفاءنہ کرے ۔(الاذکارالنوویة) نمبر(۹ ۱ )سلام یا جواب میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر مزیدکلمات کا اضافہ کرنا خلاف سنت ہے ۔(معارف القرآن ) نمبر( ۰ ۲)اگرکسی غیرمسلم کے پاس خط لکھے تو ”السلام علی من اتبع الھدیً “تحریرکرے ۔(بخاری)

کن لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے

نمبر(۱)بے ایمان کو سلام کرنا مکروہ تحریمی ہے ، اگروہ ابتداءاً سلام کرے، تو”علیک “پر اکتفاءکرے ۔(مرقات ) نمبر(۲)زندیق کو سلا م کرنا۔(شامی مفسدات الصلوة)

نمبر(۳)جو شخص برسرعام گناہ اور فسق میں مبتلاہو ،اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے ۔(بخاری)نمبر (۴)جوان اجنبی عورتوں اوراجنبی مردوں کوسلام کرنا مکروہ ہے ،اگراجنبی نہایت بوڑھایا بوڑہی ہو، توجائز ہے ۔(ھندیہ )

نمبر(۵)بدعتی کوسلام کرنا ۔(مرقات ) نوٹ:بے ایمان کو کسی ضرورت کی وجہ سے سلا م کرنایعنی معاشرتی الفاظ استعمال کرنامثلاً”صبح بخیر“آداب وغیرہ جائز ہے،مذہبی الفاظ ”نمستے “کہنا جائز نہیں (الاذکارالنوویة :،فتاوی رحیمیہ )

مندرجہ ذیل مواقع میں سلام نہ کرے

نمبر(۱)نماز پڑہنے والےنمبر(۲)تلاوت کرنے والےنمبر(۳) دینی باتوں(حدیث،فقہ وغیرہ)کے بیان کرنے والےنمبر(۴)ذکرکرنے والے نمبر(۵)اذان دینے والے نمبر(۶)اقامت کہنے والے

نمبر(۷)جمعہ اورعیدین وغیرہ خطبات دینے والوں کو دینی امورمیں مصروف ہونے کی وجہ سے سلام کرنا مکروہ ہے۔ نمبر(۸)اذان ،اقامت اورخطبات کے دوران مکروہ ہے، اگرکوئی ان مواقع میں سلام کرے، تو جواب کامستحق نہیں۔(شامی )

نمبر(۹)کھانے والے کوسلام کرنا۔(۰ ۱ )قضاءحاجت میں مشغول آدمی کوسلام کرنا۔(۱۱)جما ع میں مشغول آدمی کوسلام کرنا۔(۲ ۱ ) جس آدمی کا سترکھلاہوا ہواس کوسلام کرنا بھی مکروہ ہے، اس لئے کہ موجودہ صورت حال میں جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں ۔(شامی )

مندرجہ بالاصورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں ؛البتہ بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دے سکتاہے ،بعض صورتوں میں جواب کی بالکل گنجائش نہیں ہے ۔

محترم قارئین کرام جن کتابوں کے حوالے مندجہ بالامضمون میں دئے گئے ہیں وہ تمام اصل کاپی موجودہیں ،عددکے لئے سافٹ ویرمددنہیں کررہاہے، جس کی وجہ سے جلد وصفحہ کا حوالہ ترک کردیاگیاہے، جن احباب کو کسی بھی حوالہ کی ضرورت ہو،رجوع فرمائیں، ان شاءاللہ بتاجائے گا فقط عبداللطیف قاسمی غفرلہ ولوالدیہ واساتذہ اجمعین۔ آمین ۴ ۱ /ربیع الاول؁ ۳۳ ۱۴ ، ۷ ۲ /جنوری ؁ ۳ ۱ ۲۰ء