حجراسودایک جنتی پتھر

حجراسوداورمقام:حضرت ابن عمرفرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا

ان الرکن والمقام یاقوتتان من یاقوت الجنة ،طمس اللہ نورھما، ولولم یطمس نورھما لاضاءامابین المشرق والمغرب ۔۔(ترمذی کتاب الحج باب ماجاءفی فضل الحجرالاسودوالرکن:۸۷۸)

حجراسود اورمقام ابراہیم جنت کے دویاقوتی پتھر ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی کو ماندکردی ہے ،اگران کی روشنی کو ماندنہ کرتا،تووہ دونوں مغرب ومشرق کے درمیان کی چیزوں کو روشن کردیتے ۔

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

نزل الحجرالاسود من الجنة وھواشدبیاضا من اللبن ،فسودتہ خطایابنی آدم ۔(ترمذی کتاب الحج باب ماجاءفی فضل الحجرالاسودوالرکن:۸۷۷،والنسائی: ۲۹۳۵)

حجراسود جنت سے نازل ہواہے ،وہ دودھ سے زیادہ سفیدتھا ،انسانوں کے گناہوں نے اس کو سیاہ کردیاہے۔

حجراسود بیت اللہ شریف کے مشرقی جنوبی گوشہ میں قدآدم کے قریب اونچائی پر نصب ہے ،اس کے چاروں طرف چاندی کا حلقہ چڑھاہوا ہے،کسی زمانہ میں قرامطہ نے حجراسود کے ٹکڑے کردئے تھے ،ان ٹکڑوں میں سے چھوٹے بڑے گیارہ ٹکڑے اس وقت چاندی کے اس حلقے میں جڑے ہوئے ہیں ۔(انوارمناسک:۱۲۶)

طواف شروع کرتے وقت حجراسود کو بوسہ دینا سنت ہے ،اگرحجراسود کو بوسہ دینے کا موقع نہ ہو،تو اس کا استیلام کرنایعنی ہاتھ یاہاتھ میں موجود کسی چیز سے اشارہ کرناسنت ہے ،جوشخص ایمان واخلاص کے ساتھ حجراسود کو بوسہ دے یا اس کاستیلام کرے ،توقیامت کے دن حجر اسود اس کے حق میں (ایمان واسلام اوراتباع سنت ) کی گواہی دے گا ۔

حجراسودکو بوسہ دینا بھی سنت

علامہ عسقلانی ؒ فرماتے ہیں: حجراسودکو بوسہ دینا بھی سنت ہے ،رکن یمانی کو صرف چھونا سنت ، حجراسود میں دوفضیلتیں جمع ہیں ،پہلی فضیلت یہ ہے کہ کعبہ شریف کایہ کونہ بناءابراہیمی پرقائم ہے ،دوسری فضیلت خود حجراسود ہے ،اس وجہ سے اس کو بوسہ دینا بھی سنت ہے اورکن یمانی صرف بناءابراھیمی پرقائم ہے، اس لئے صرف اس کو چھونا سنت ہے،دیگرکونے بناءابراہیمی پرنہیں ہیں ،اس وجہ سے ان کو چھونا بھی سنت نہیں ۔(مرقاة المفاتیح:۲۵۶۸)

حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: واللہ لیبعثن اللہ یوم القیامة ،لہ عینان یبصربھما،ولسان ینطق بہ یشھد علی من استلمہ بحق۔(ترمذی کتاب الحج باب ماجاءفی الحجرالاسود:۹۶۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم بخدا!قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حجراسودکو اٹھائیں گے ،اس کی دوآنکھیں ہوں گی جس سے وہ دیکھے گا اورزبان ہوگی جس سے وہ بولے گا ،جوشخص حق (اسلام اوراتباع سنت کی نیت )کے ساتھ اس کا استیلام کیاہوگا ،اس کے حق میں گواہی دے گا ۔

حجراسود حقیقی جنتی پتھریاتمثیلی

ملاعلی قاری ؒفرماتے ہیں: یہ روایت حقیقت پرمحمول ہے ، یعنی حقیقت میں حجراسود جنت ہی سے اتراہے ،اسناد ی اعتبارسے روایت صحیح ہے ، اس کے جنتی پتھرہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ،یہی بات صحیح ہے ۔

بعض محدثین نے اس کو تمثیل پرمحمول کیاہے ، یعنی مقصود حجراسود کی عظمت وتقد س کو بیان کرناہے کہ وہ اپنی عزت وشرافت اوراعزاز واکرام کی وجہ سے جنتی پتھرکے مشابہ ہے اوریہ بتاناہے کہ گناہ کے نقصانات اس قد رمہلک ،مؤثراوربھیانک ہیں کہ وہ پتھروجمادات کو بھی متاثرکردیتے ہیں ،جب جسم گناہ کریں، تو دلوں کا کیاحال ہوگا ؟(مرقات: ۲۵۷۷)

حضرت مفتی سعیداحمدصاحب ؒتحریرفرماتے ہیں:

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ ”جحة اللہ البالغہ“ میں محمدبن الحنفیہ کا قول تحریرفرمایاہے کہ یہ دونوں پتھراسی دنیا کے ہیں ،محمدبن الحنفیہ حضرت علی ؓکے والاتبارذی علم صاحب زادے ہیں؛مگر جب میں نے ”حجة البالغہ“ کی شرح ”رحمة اللہ الواسعہ“ لکھی،تومحمدبن الحنفیہ کا یہ قول بہت تلاش کیا؛مگر مجھے یہ قول کسی کتاب میں نہیں ملا ؛چونکہ شاہ صاحب رحمہ اللہ نے لکھاہے ،اس لئے اس سے صرف نظر بھی نہیں کیاجاسکتا؛البتہ چونکہ یہ محمدبن الحنفیہ کا قول ہے ،اس لیے حدیث مرفوع کے مقابلہ میں اس کو نہیں رکھاجاسکتا،صحیح حدیث سے حجر اسود کا جنت کا پتھر ہوناثابت ہے ۔(تحفة الالمعی۳/۲۷۸)

رکن یمانی

بیت اللہ شریف کے جنوبی مغربی کونے کو رکن یمانی کہاجاتاہے ،حجراسود کے کونے کی طرح یہ کونہ بھی حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی بنیادوں پرقائم ہے ،اس وجہ سے وہ یقینا باعث ِبرکت ہے ،دورانِ طواف اس کوبوسہ نہیں دیاجائے گا ،نہ ہاتھ وغیرہ سے استیلام کیاجائے گا ؛بلکہ ہاتھ سے چھونے کا موقع ہو،تو ہاتھ سے چھونا سنت ہے ۔

حضرت عبید بن عمیرفرماتے ہیں:میں نے حضرت ابن عمرؓسے عرض کیا :حضرت آپ حجراسود اوررکن یمانی پربھیڑلگاتے ہیں، کسی اورصحابی کو ہم نے اس قدربھیڑلگاکر استیلام اورچھوتے ہوئے نہیں دیکھا؟فرمایا: اگرمیں بھیڑلگاکر استیلام کرتاہوں ،تو ٹھیک کرتاہوں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حجراسود اورکن یمانی کوچھوناگناہوں کے لیے کفارہ کا سبب ہے ۔(ترمذی کتاب الحج باب ماجاءفی استیلام الرکنین:۹۵۹)

حضرت ابوھریرةؓفرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وکل بہ سبعون ملکا (یعنی الرکن الیمانی)فمن: قال اللہم انی اسئلک العفو والعافیة فی الدنیا والاخرة ،ربناآتنا فی الدنیاحسنة ،وفی الآخرة حسنة ،وقنا عذاب النار،قالواآمین ۔(رواہ ابن ماجہ فی فضل الطواف: ۲۹۵۷)

رکن یمانی کے پاس سترہزارفرشتے مقررہیں ،جوشخص رکن یمانی کے پاس پہنچے یا اس کوچھوئے اوردعاءکرے :اے اللہ میں تجھ سے معافی اوردنیا وآخرت میں عافیت مانگتاہوں،اے اللہ !دنیا میں بھی بھلائی عطافرما،آخرت میں بھلائی عطافرمااورجہنم کے عذاب سے حفاظت فرما،توفرشتے اس کی دعاپرآمین کہتے ہیں ۔