خوش گوارازدواجی زندگی

خوش گوارازدواجی زندگی کی تالیف کا پس منظر: تمام تعریفیں اس مہربان رب کے لئے ہیں جس نے انسان کو ایک جان سے پیدافرمایا اوراس کے سکون کے لئے اس کی رفیقہءحیات کوبھی پیدافرمایا۔

لاکھوں درودوسلام ہوآقائے مدنی رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اللہ کی مرضی کے مطابق بہترین پرسکون زندگی گزارکر بتائی، آپ کے صحابہ وتابعین پر جنہوں نے آپ کی تعلیمات کواپنایا اوران تمام بندگان ِخداپر جوربِ ذوالجلال ورسول صاحبِ جمال صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنا مشغلہ بنایا ۔

نکاح ایک عبادت ،زندگی کی راحت وسکون کا سامان اورجنسی تسکین کا جائز ذریعہ ہے ،نکاح کا دن ہرجوان لڑکے ولڑکی کے لئے خوشیوں ومسرتوں سے بھرپوراورہرجوڑے کا یادگاردن ہوتاہے ۔

رشتہ طے ہونے کے بعد سے نکاح کی تقریب کی تزئین،سامان کی خریدوفروخت ،عزیزواقارب کوحاضری کی دعوت وغیرہ میں نہایت مصروف اور شادی کے دن کے انتظارمیں بے قراروبے چین نظرآتے ہیں، اللہ اللہ کرکے شادی کا دن اپنی تمام رنگینیوں،خوشیوں ومسرتوں اورمبارک بادیوں کے ساتھ دولہااوردلہن کی زندگی کا ایک ناقابل ِفراموش حصہ بن جاتاہے ۔۔۔اللہ تعالیٰ تمام شادی شدہ جوڑوں کے لئے ہردن عیدکا دن اورہررات شب براءت بنائے ۔آمین

زندگی کو پرسکون بنانے والے ایک قیمتی تحفہ سے لوگ عموماً غافل

ان سب خوشیوں اورتیاریوں کے باجود ایک اہم اورزندگی کو پرسکون بنانے والے ایک قیمتی تحفہ سے لوگ عموماً غافل ہوتے ہیں،وہ قیمتی تحفہ” ازدواجی زندگی کے اسلامی اصول ، تعلیمات وہدایات“ ہیں جن کی طرف خطبہءنکاح کی آیتیں اشارہ کرتی ہیں ،اس اللہ سے ڈروجس کانام لے کر تم آپس میں ایک دوسرے سے (حقوق وغیرہ سے متعلق )سوال کرتے ہو اوررشتہ داری سے ڈرو(رشتہ داری کو توڑنے سے بچوجس میں ازدواجی رشتہ بھی داخل ہے )۔(النساء:۱)

اللہ سے ڈروجیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے ،(شادی سے پہلے کی زندگی میں،شادی کے بعد کی زندگی میں )(آل عمران :۱۰۲)

اللہ سے ٹھیک اوردرست بات کہو۔(بطورخاص نکاح کے بندھن میں بندھتے وقت بیویوں سے حقوقِ زوجیت اورحسن ِسلوک کا جو وعدہ اورقول وقرارکرتے ہو ،ان کو پوراکرو)(الاحزاب:۷۲)

ان اہم ہدایات وتعلیمات سے نوجوان لڑکے ولڑکیاں اورخاندان کے بزرگ افراد جو دودلوں کے جوڑنے میں سنگ ِمیل اداکرنے کا رول اداکررہے ہوتے ہیں وہ سب عمومًا غافل ہوتے ہیں اور نکاح کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد میاں بیوی کے آپسی حقوق کیا ہیں ؟ان کی ادائیگی میں کیاراحتیں ہیں اورادانہ کرنے میں کیامصیبتیں،الجھنیں چھپی ہوئی ہیں۔

نہ دولہاکوپتہ ہوتاہے کہ لفظ” قبول“ سے اپنے ناتواں کندھوں پرکس بارِگراں کواٹھانے جارہاہے ،نہ بیوی بننے والی لڑکی کو پتہ ہوتاہے کہ وہ کس بندھن میں بندھی جارہی ہے، اس کی کیانزاکتیں ہیں؟نہ ہی ان مشفق ومہربان والدین کوکچھ احساس ہوتاہے جواپنی اولادکو دولہاودلہن کی شکل میں نہایت خوش وشادماں دیکھنے کےلئے انتھک کوشش میں لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے ایساتحفہ (خوش گوارازدواجی زندگی کے اصول ) شادی کے موقع پردیاجائے جو اس رشتہ کوہمیشہ خوشیوں کے ساتھ باقی رکھنے والااورازدواجی زندگی کونہایت خوش گواراورجنت نشاں بناسکے ۔

گھراجڑتاہوانظرآتاہے، تب علماءکرام کی طرف رجوع

الغرض جب شادی کے چنددن بخوشی گزرجاتے ہیں اورایک دوسرے کی حق تلفی شروع ہوجاتی ہے، تب بیوی کی طرف سے ناز ونخرے ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں، یا شوہرکے ناجائزونامناسب مطالبات کی وجہ سے گھراجڑتاہوانظرآتاہے، تب علماءکرام کی طرف رجوع کیاجاتاہے اور پریشانیوں کی شکایات ،مقدس رشتوں کی پامالی کے واقعات کا حکم معلوم کیاجاتاہے۔

شوہرکہتاہے میں نے غصہ میں اس طرح کی بات کہہ دی ہے ،اب رشتہ باقی رہاکہ نہیں ؟دارالافتاءمیں اورفون پرمسائل معلوم کر نے میںسوالات کی اکثریت ان ہی امورسے متعلق ہوتی ہے۔

یہی وہ باتیں ہیں جواستاذِمحترم مشفق ،محسن ومربی اور داعی کبیر حضرت مولانامفتی محمداسلم صاحب رشادی مدظلہ العالی مہتمم جامعہ غیث الہدی بنگلور کو پریشان کررہی تھیں۔

خوش گوارازدواجی زندگی کے اصول کی تالیف کا مقصد

عرصہءدراز سے آپ کی خواہش وفکر تھی کہ اس موضوع پرایک مختصررسالہ ترتیب دیاجائے جو”نکاح کی اہمیت ،ازدواجی حقوق ،خوش گوارازدواجی زندگی کے اصول ،طلاق کی شرعی حیثیت اورطلاق کاغلط استعمال “وغیرہ پرمشتمل ہوجس کوامت کے نوجوان اورخاندانی بزگوں کے سامنے پیش کیا جائے اوران کی ذہن سازی کی جائے تاکہ امت کے نوجوانوں میں پائی جانے والی” شرحِ طلاق“ کم ہوسکے،لوگ پرسکون ازدواجی زندگی بسرکرسکیں۔

عجیب اتفاق کہ اس رسالہ کی ترتیب کے دوران فرقہ پرست مرکزی حکومت ”بی،جے،پی “نے ”طلاقِ ثلاثہ“اورتعددِ ازواج “ کو بنیاد بناکرسپریم کورٹ میں ”مسلم پرسنل لا“ کو ختم کرکے ”یونیفارم سول کوڈ“نافذکرنے کے لئے حلف نامہ داخل کیاہے ،فرقہ پرست حکومت کو” مسلم پرسنل لا“ کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے جوبہانہ ملاہے،وہ نادان اوردین بے زار؛بلکہ دین کا مذاق اڑانے والے اورمغربی تہذیب سے متاثراور مغربی تہذیب کے شانہ سے شانہ ملاکرچلنے والوں کی بے راہ روی اور ”طلاق“ کاغلط استعمال ہے۔

نوجواں طبقہ کوذمہ داریوں سے واقف کرانے اور ”نکاح وطلاق“ سے متعلق بیداری لانے کی ضرورت

اس تناظرمیں اس رسالہ کی اہمیت مزیدبڑھ جاتی ہے کہ امت کے نوجواں طبقہ کو ان کی ذمہ داریوں سے واقف کرایاجائے اور مسلم طبقہ میں ”نکاح وطلاق“ سے متعلق بیداری لائی جائے،اس لئے حضرت والا نے بندہ ناچیز کواس رسالہ کی ترتیب کا حکم دیا اورہرمرحلہ میں رہنمائی فرمائی اورسفرِعمرہ کے موقع پر مسجد نبوی۔ علی صاحبہ الصلوة والسلام ۔میں دعائیہ کلمات تحریرفرمائے،رمضان المبارک ۱۴۳۸ھ میں از اول تا آخربالاستیعاب نظرثانی اورتصحیح فرمائی، اس رسالہ کا انگریزی ترجمہ اوررومن انگریزی ( نقوش انگریزی تلفظ ارد و) میں ترجمہ کرایاگیاہے ۔

یہ عاجز مقامِ مقدس میں تحریرکئے گئے دعائیہ کلمات سے اس رسالہ کی قبولیت کی امیدرکھتاہے، مرتب دعاگوہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کو دنیاوعقبی میں بہترین جزاءنصیب فرمائے ، آپ کی عنایتوں ونوازشوں سے محروم نہ فرمائے اور بصحت وعافیت آپ کے سایہ کوتادیرقائم رکھے اور اس رسالہ کو اورمرتب کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔آمین برحمتک یاارحم الراحمین،عبداللطیف قاسمی خادم ِتدریس جامعہ غیث الہدی بنگلور
۲۹/رمضان المبارک۱۴۳۸ھ م ۲۵/جون۲۰۱۷ء

دعائیہ کلمات:داعی کبیر حضرت اقد س مولانامفتی محمد صاحب رشادی دامت برکاتہم

الحمدللہ ،والصلوة والسلام علی رسول اللہ صلی علیہ، وآلہ، وصحبہ، وبارک، وسلم تسلیماکثیراکثیرا ،امابعد:
گزشتہ سال شعبان میں ہمارے دوست مولانا منیرالدین صاحب۔ زیدلطفہ۔ کے مدرسہ ”جامعہ بحرالعلوم “ملکال مروکاسالانہ جلسہ تھا،حضرت مولانا سیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ نے حسب معمول پرجوش ،فکرانگیز خطاب فرمایا ۔

اسی خطاب کے دوران ایک دلی تڑپ کی راہ ملتی نظرآئی ،امت مسلمہ میں بڑھتے ہوئے ازدواجی جھگڑے اورخاندانی مسائل کے حل کے لئے ایک تربیتی پروگرام مرتب کیاجائے اوراس کے لئے ایک مختصررسالہ ہوجس میں اہم باتیں مذکورہوں اوروہ رسالہ زوجین اورا ن کے گھرانوں کے سامنے سنایاجائے۔

احقرنے صاحب ِقلم نوجوان عالم دین مولانامفتی عبداللطیف ۔زیدفضلہ ۔کو یہ ذمہ داری سونپی ۔ماشاءاللہ۔ یہ رسالہ تیارہوا،آج ۱۳/ربیع الاول ۱۴۳۸ھ مسجدنبوی ۔علی صاحبہ الف الف صلوة، وتحیة۔ میں بیٹھے اس رسالہ کوچیدہ چیدہ مقامات سے دیکھ کر چنددعائیہ جملے تحریرکررہاہوں ،اللہ اس رسالہ کو امت میں خیرکے زندہ ہونے کا ذریعہ بنائے اور رشتوں میں اعتدال کے وجودکا سبب بنائے ،عرض گزار،مرتب اورجملہ معاونین کواللہ قبول فرمائے اوراس رسالہ کو ان سب کے لئے ذخیرئہ آخرت وذریعہءنجات بنائے۔ آمین

(حضرت مولانا مفتی )محمداسلم رشادی غفرلہ،وارد حال مدینہ منورہ ،بوقت۱۱:۵۱،۱۳/ ربیع الاول ۱۴۳۸ھ ۱۲/دسمبر۲۰۱۶ء-خوش گوارازدواجی زندگی:۱تا۵