زمزم

مسجدحرام میں موجود مشہوربابرکت وباعظمت اورمحترم کنویں کانام ہے ،زمزم کا کنواں اورکعبہ کے شریف کے درمیان تیس یااڑتیس ذراع کا فاصلہ ہے ،یہ کنواں مقام ابراہیم کے جنوبی سمت میں واقع ہے ، زمزم دنیا کے تمام پانیوں میں سب سے افضل ،نہایت ہی مصفاپاکیزہ ،حیات بخش اورجاں افروز چشمہ ہے،اس سے زیادہ صحت بخش اور افضل پانی روئے زمین پر نہیں ہے ۔

یہ وہی کنواں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جدامجد حضر ت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام کی سیرابی کے لیے نکالاجب کہ حضرت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام شیرخواربچے تھے ،ماں کے پاس توشہ ختم ہوچکاتھا ،ماں کے پاس دودھ بھی باقی نہیں رہا،مددکی تلاش میں بے چین وبے قرارہوکر قریبی پہاڑیوں صفااورمروہ پرسات چکرلگارہی تھیں ،ادھر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے پیرکی ماریا، حضرت اسماعیل کی ایڑی کی رگڑسے زمزم کا کنواں وجود میں آیا۔

ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں آرام فرماتھے ،نیم خوابی کی حالت تھی کہ اچانک چھت پھٹی،چھت سے جبرئیل امین اترے ؟آپ کے ہم راہ دیگرفرشتے بھی تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایاگیا،پھرمسجدحرام میں مقام حطیم میں لٹادیاگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے ،پھرحضرت جبرئیل اورمیکائیل علیہما السلام نے آپ کو جگاکر بیرزم زم پرلے گئے ،پھرلٹاکر سینہءمبارک کو چاک کیا ،قلب مبارک کو نکال کر زمزم سے دھویا،پھرایک سونے کا طشت لایاگیاجوایمان وحکمت سے بھراہواتھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں اس ایمان وحکمت کو انڈیل دیاگیا ۔(رواہ البخاری فی حدیث طویل وفی مواضع متعددة :باب کیف فرضت الصلوة : ۳۴۹)

زمین کا سب سے بہترپانی ز مزم

حضرت عبداللہ بن عباس ؓفرماتے ہیں

خیرماءعلی وجہ الارض ماءزمزم ،فیہ طعام من الطعم ، وشفاءمن السقم ۔(قال الہیثمی: روی الطبرانی والبزار ورجال البزاررجال الصحیح ،مجمع الزوائد :۵۷۱۱)

روئے زمین کا سب سے بہترپانی ز مزم ہے ،جس میں غذائیت بھی ہے اوربیماری کے لئے صحت وتندرستی بھی،اگرگوئی اورپانی زمزم سے افضل اوربہترہوتا تو اس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو دھویاجاتا۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں

صلوا فی مصلی الاخیار واشربوا من شراب الابرار۔(اخبار مکة للازرقی ذکرفضل ز مزم:۵۲۲ )

نیک لوگوں کے مصلی پرنماز پڑھواور نیک لوگوں کا پانی نوش کرو،حضرت ابن عباس سے دریافت کیاگیاکہ نیک لوگوں کے مصلی سے کیامرادہے ؟فرمایا: میزابِ رحمت کے نیچے کی جگہ ،عرض کیا گیا: صالحین کے پانی سے کیامرادہے؟فرمایا: زمزم ۔

زم زم پینے کے آداب

زمزم پیٹ بھرکرپیاجائے کہ کوکھیں باہرنکل آئیں اورپیاس وتشنگی مکمل طورسے ختم ہوجائے،پیتے وقت اپنی دنیا وآخرت کے لیے دعائیں کرے،قبولیت کا موقع ہے ۔

میں حضرت ابن عباس ؓ کی مجلس میں حاضرتھا ،ایک شخص مجلس میں حاضرہوا ،آپ نے معلوم کیا ،تم کہاں سے آرہے ہو؟اس شخص نے عرض کیا ، بیرزمزم کے پاس سے آرہاہوں،فرمایا،زمزم جیسے پینا تھا،ویسے پیا؟ اس نے عرض کیا ،کیسے پینے چاہئے ؟حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: قبلہ روہوکربسم اللہ پڑھ کرتین سانس میں پئیواورخوب پیٹ بھرکر پئیو کہ کوکھیں باہرنکل آئیں ،جب فارغ ہوجاؤ،الحمدللہ کہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہمارے اورمنافقین کے درمیان فرق یہی ہے کہ کہ وہ زمزم پیٹ بھر کرپیتے نہیں۔(رواہ ابن ماجہ کتاب الحج،شرب زمزم : ۳۰۶۱)

زمزم کھڑے ہوکر پینا افضل یا بیٹھ کر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر کھڑے ہوکر ز م زم نوش فرمایاتھا ،بعض محدثین فرماتے ہیں:آپ نے بھیڑاورازدحام کی بناپر کھڑے ہوکر نوش فرمایاہے ، بعض حضرات فرماتے ہیں :ماءزمزم کھڑے ہوکر پینا ہی سنت ہے ،حضرت شیح الحدیث مولانامحمدزکریا صاحب ”شرب من زمزم وھوقائم“کی تشریح کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں

حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت بھی آئی ہے ، اس بناپر بعض علماءنے زمزم پینے کو بھی اس ممانعت میں داخل فرمایاکر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوش فرمانے کو ازدحام کے عذریا بیان ِجواز پرمحمول حمل فرمایاہے؛لیکن علماءکا مشہور قول یہ ہے زمزم اس نہی میں داخل نہیں ،اس کا کھڑے ہوکر پیناہی افضل ہے ۔(خصائل نبوی تقی باب ماجاءفی صفة شراب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:۳۱۳)

علامہ شامی ؒ تفصیلی بحث کے بعد خلاصہ لکھاہے

الحاصل ان انتفاءالکراھة فی الشرب قائما فی ھذین الموضعین محل کلام فضلا عن استحباب القیام فیھما ،ولعل الاوجہ عدم الکراھةان لم نقل بالاستحباب لان ماءزمزم شفاءوکذافضل الوضوء۔(ردالمحتارکتاب الطھارة مطلب فی مباحث الشرب قائما۲۵۵/۱)

ماءزمزم اوروضوءسے بچاہواپانی کھڑے ہوکر پینے میں اختلاف ہے ، چہ جائیکہ کھڑے ہوکر پینا مستحب ہو، شاید زمزم اوروضوسے بچاہواپانی کھڑے ہوکرپینا بلاکراہت درست ہے نہ کہ مستحب ۔

مکہ مکرمہ سے زم زم لے آنا

حضرت عائشہؓ جب مکہ مکرمہ سے واپس جاتیں ،تو اپنے ساتھ زمزم لے جاتیں اورفرماتیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ لے جاتے تھے۔(رواہ الترمذی عن عروة : ۹۵۱)

حضرت عبداللہ بن عباس ؓفرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سہیل بن عمرو ؓ سے بطورہدیہ زمز م کا پانی منگوایا۔(مجمع الزوائد : ۵۷۱۶)

امام ازرقی ؒفرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سہیل بن عمرو ؓ کو ایک خط لکھاجس میں یہ حکم تھا اگرمیراپیغام تمہیں رات میں پہنچے ،تو صبح سے پہلے ،اگرصبح پیغام پہنچے، تو شام سے پہلے پہلے زمزم میرے پاس بھیجو،چنانچہ ان کی اہلیہ نے اپنی باندیوں کی مدد سے دومزادے تیارکئے(ایک مزادہ :اونٹ کی پیٹ پرایک طرف لادھاجانے والابوجھ)،پھرمدینہ کی جانب اپنے غلاموں کے ذریعہ روانہ کردیا ۔(اخبار مکة للازرقی ذکرفضل ز مزم:۵۲۲)

زمز م سے مقاصد کی تکمیل

حضرت جابربن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ماءزمزم لماشرب لہ ۔(رواہ احمد وابن ماجہ،کتاب الحج، باب شرب زمزم:۳۰۶۲)

ماءزمز م جس مقصد کی تکمیل کے لیے پیاجاتاہے ،اس مقصد میں کامیابی ملتی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ماءزمزم لماشرب لہ،ان شربتہ تستشفی شفاک اللہ ،وان شربتہ مستعیذا اعاذک اللہ ،وان شربتہ لیقطع ظما¿ک ،قطعہ اللہ،وکان ابن عباس اذاشرب ماءزمزم، قال اللھم اسئلک علمانافعا ورزقاواسعاوشفاءامن کل دائ۔ (رواہ الحاکم :۱۷۳۹)

ماءزمزم جس کے لیے پیا جاتاہے ،وہ مقصد حاصل ہوتاہے ،اگرتم صحت وتندرستی کے لیے پیؤ ،تو تم کو اللہ تعالیٰ صحت وتندرستی عطافرمائیں گے ،اگرتم کسی سے پناہ طلبی کے لیے پئیوگے ،تم کو اللہ پاک پناہ عطافرمائیں گے ،اگرتم تشنگی اورپیاس بجھانے کے لیے نوش کروگے ،تواللہ تعالیٰ تمہاری پیاس کو دورفرمائیں گے ۔

اکابرکے تجربات

حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ زمزم کے پاس حاضرہوئے ،فرمایا !اے اللہ !میں قیامت کے دن کی پیاس سے بچنے کے لئے زمزم نوش کرتاہوں۔(فتح القدیر۵۲۰/۲)
حضرت امام شافعیؒ نے نشانی بازی کی درستگی کی نیت سے زمزم نوش فرمایا ،اللہ تعالیٰ نے ان کے نشانہ کو درست فرمایا ،چنانچہ دس تیروں میں سے نوتیرنشانہ پر لگتے تھے۔
امام حاکم ابوعبداللہ نیساپوری ؒ نے حسن تصنیف وتالیف کی نیت سے زمز م نوش کیا ، چنانچہ وہ اپنے زمانہ کے بہترین مصنف شمارکے گئے ۔

شارح بخاری حافظ ابن حجرؒفرماتے ہیں: بے شمارلوگوں نے مختلف مقاصد کے لیے زمزم نوش کیا اوروہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ،میں نے طلب ِحدیث کے زمانہ میں اس نیت سے زمزم نوش کیا کہ اللہ تعالی مجھے علم ِحدیث میں حافظ ذہبی جیسارتبہ ومقام عطافرمائے ،بیس سال کے بعد دوبارہ حج کے لیے گیا ،توالحمد للہ مجھے علمِ حدیث میں وہ کمال حاصل ہوچکاتھا ،پھرمیں نے اس سے زیادتی کی دعاکی ہے ،ان شاءاللہ وہ بھی قبول ہوگی ۔(فتح القدیرکتاب الحج باب الاحرام فصل فی فضل ماءزمزم ۵۲۱/۲)