شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندیؒ کی تعلیمی وتدریسی خدمات

شیخ الہندمولانا محمودحسن دیوبندیؒ کی تعلیمی وتدریسی خدمات
آپ کی شخصیت سازی میں حجة الاسلام حضرت نانوتویؒ کا کردار

نام ونسب ولادت باسعادت

آپ کا اسم گرامی محمودحسن والدمحترم کا نام ذوالفقارعلی بن فتح علی ،۱۲۶۸ھ مطابق ۱۸۵۱ءمیں قصبہءبریلی میں آپ کی ولادت ہوئی جہاں آپ کے والدمحترم ملازمت کے سلسلہ میں قیام پذیرتھے،آپ کے والدمحترم دارالعلوم دیوبند کی سب سے پہلی مجلس شوری کے رکن رکین بھی تھے ۔

تعلیم وتربیت

چھ سال کی عمر میں آپ کی بسم اللہ ہوئی اورمیاں جی منگلوری سے ناظرہ قرآن مجیدکی تکمیل فرمائی ،اردوفارسی کی ابتدائی کتب شیخ عبداللطیف صاحب سے پڑھیں ،سات سال کی عمر میں آپ کو اپنے وطن اصلی دیوبند بھیج دیاگیا ،آپ کے گھرپرآپ کے تایا ابامولانا مہتاب علی صاحب کا گھریلومدرسہ جاری تھا، چنانچہ آپ نے اپنے تایاسے قدوری ،شرح تہذیب وغیرہ کتب پڑھیں ،آپ کی عمر پندرہ سال کی تھی کہ دارالعلوم دیوبندکی بنیادرکھی گئی ،آپ نے پہلے طالب علم کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر ۱۲۸۳ ھ تا ۱۲۸۵ھ تعلیم حاصل کی۔( ملخص: از حضرت شیخ الہند حیات وخدمات : ۴۵ )

آپ کے اساتذہ کرام ،ملامحمود دیوبندی

جب دارالعلوم دیوبند کی بنیادرکھی گئی، تو سب سے پہلے حضرت نانوتویؒ نے ملامحموددیوبند ی ؒ کو مدرس مقررفرمایا اورسب سے پہلے طالب علم کی حیثیت سے حضر ت شیح الہند نے ملامحمود ؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے ،ملامحموددیوبندی ؒ حضرت نانوتو یؒ کے ہم عمر تھے، حدیث شریف حضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ سے پڑہی تھیں ۔

حضرت مولانا یعقوب نانوتوی ؒ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند

مولانا یعقوب نانوتوی ؒ دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدرالمدرسین اورشیخ الحدیث تھے ،حدیث حضرت شاہ عبدالغنی مجددی ؒسے پڑھی تھیں،آپ کے تلامذہ حضر ت شیخ الہند ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری ،مولانااحمدحسن امروہی،مولانا فخرالحسن گنگوہی ،حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ،مفتی عزیز الرحمن عثمانی اورمولانا حبیب الرحمن عثمانی وغیرہ ہیں۔

حضرت مولانا سیداحمددھلویؒ

مولانا سیداحمددھلوی قیام دارالعلوم دیوبند کے تیسرے سال مدرس دوم بنائے گئے تھے، حضرت مولانا یعقوب نانوتوی ؒ کے بعدآپ صدرالمدرسین بنائے گئے ،حضرت شیخ الہند نے دارالعلوم دیوبند میں مذکورہ اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا۔

حجة الاسلام قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ

۱۲۸۶ھ میں صحاح ستہ کی تعلیم کے لئے آپ نے حجة الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ کی خدمت میں میرٹھ حاضر ہوئے ، حضرت نانوتویؒ میرٹھ میں جناب ممتاز علی صاحب کے مطبع میں کتابوں کی تصحیح فرمایاکرتے تھے۔

حضرت نانوتوی ؒ تصحیح کتب کی مشغولی سے وقت فارغ فرماکر طلبہ کی ایک مختصر ،منتخب اورذھین ترین طلبہ کو صحاح ستہ کا درس دیاکرتے تھے جو اپنی صلاحیت واستعداد سے متعلقہ کتب کو ایک حدتک حل کرسکتے ہوں اور حضرت نانوتویؒ سے صرف اہم ترین مباحث ،اسراروحکم ،علمی نکتوں اورفنی دشواریوں کا حل باقی رہ جائے ،حضرت شیخ الہند حضرت نانوتویؒ سے میرٹھ میں علم حاصل کررہے تھے کہ حضرت نانوتوی ؒ دہلی منتقل ہوگئے ،تو حضرت شیخ الہند بھی دہلی منتقل ہوگئے ۔

نیز حضرت نانوتوی ؒ کبھی نانوتہ ،دیوبند وغیرہ سفرفرماتے، تو حضرت شیخ الہند بھی اپنے ساتھ کتبِ حدیث کو لئے ہوئے آپ کے ہمراہ ہوجاتے اور ہرجگہ درس کا سلسلہ جاری رہتا ،حضرت شیخ الہندؒ تمام مشکلات ودشواریوں میں ثابت قدمی کا ثبوت پیش فرماتے ہوئے تقریباً دوسال کے عرصہ میں ۱۲۸۹ھ میں صحاح ستہ کی تعلیم مکمل فرمائی ۔(مستفاداز: حضرت شیخ الہند حیات وکارنامے: ۴۸)

شاگردرشیدکی تعلیم، تربیت اورترقی کی کوشش

ربیع الاول ۱۲۹۴۱ھ مطابق ماچ ۱۸۷۷ھ میں شاجہاںپورمیں بنام”خداشناسی میلہ“منعقدہوا جس میں ہرمذہب کے نمائندوں کوشرکت اور اپنے مذہب کی روشنی میں خداکا تعارف کرانے کی دعوت دی گئی،اصل مقصدیہ تھاکہ قابل ترین عیسائی پادریوں کو بلاکر مشہورعلمائے کرام کو اس میلہ خداشناسی میں اگرشکست دے دی جائے ،توہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ کی راہیں کھل جائیں گی اور عیسائیت کی اشاعت آسان ہوجائے گی ۔

حضرت نانوتوی ؒ نے اپنے دوہونہارشاگردحضرت مولانافخرالحسن گنگوہی اورحضر ت شیخ الہندکو ساتھ لے کر شرکت فرمائی اللہ تعالی نے مسلمانوں کو کامیابی عطافرمائی اور عیسائی پادریوں کو منہ کی کھانی پڑی ۔(حیات وکارنامے : ۵۶)

آریہ سماج کے بانی دیانندسرسوتی جب اسلام کے خلاف اعتراضات کررہاتھا اورشکست کھاکر”رڑکی“کی فوجی چھاؤنی میں پناہ لے رکھی تھی، حضرت نانوتویؒ نے حضرت شیخ الہندؒکے ساتھ تین طلبہ کو ”رڑکی“روانہ فرمایا اور حکم فرمایاکہ شہرکے ہرہرمحلہ میں جلسے کرکے دیانندسرسوتی کے ایک ایک اعتراض کا مدلل جواب دیں،چنانچہ حضرت شیخ الہندؒاپنے رفقاءکے ساتھ ”رڑکی“ پہنچ کر ایک ہفتہ تک محلوںاوربازوں میں بڑے بڑے جلسے منعقدکرکرکے اسلام کے خلاف دیانندسرسوتی کے ایک ایک اعتراض کا جواب دیا ۔(حیات وخدمات : ۵۶)

شا ہ عبدالغنی مجددیؒ سے بلاواسطہ حدیث کی سند واجازت

حضرت نانوتوی ؒ شاجہاںپورکے ”میلہ خداشناسی“سے واپسی کے بعد حج کا ارادہ فرمایا ،حضرت شیخ الہند ؒ اپنے استاذ محترم کی رفاقت کو اپنے لئے سعادت اورخوش نصیبی سمجھتے ہوئے سفرکا ارادہ فرمالیا ،مدینہ منورہ میں حضرت نانوتوی ؒ کے استاذِ حدیث حضرت شاہ عبدالغنی مجددی مہاجرمدنی ؒ بنیت ہجرت مقیم تھے ،جب شاہ عبدالغنی مجددی ؒ کی زیارت نصیب ہوئی ،تو شیخ الہندؒ کے دل میں اپنی سندکو عالی بنانے کی خواہش پیداہوئی ؛لیکن استاذِ محترم کی حاضری میں خلاف ادب سمجھ رہے تھے۔

ایک مجلس میں خود حضرت نانوتویؒ نے حضرت شیخ الہندؒ سے فرمایا : محمودحسن حضرت شاہ صاحب کو صحاح ستہ کے اوائل سناکر سند واجازتِ حدیث حاصل کرلو ،یہ تمہارے لئے بڑی خوش قسمتی کی بات ہوگی اوربذات خود حضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ سے شفارش بھی فرمادی ،اس طرح حضرت شیخ الہند ؒکو حضرت شا ہ عبدالغنی مجددیؒ سے بلاواسطہ بھی حدیث کی سند واجازت حاصل ہوئی اور آپ کی سند عالی بھی ہوگئی ہے ۔(حیات وکارنامے : ۵۹)

بے لوث خدمت اور پراثردعا

حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ تحریرفرماتے ہیں

حضرت نانوتویؒ کے والدماجد شیخ اسدعلی صاحب مرض الوفات میں مبتلاہوئے، توعلاج کے لئے دیوبند لائے گئے ،حضرت شیخ الہندکے مکان پرقیام تھا ،دستوں کا مرض تھا،بعض دفعہ دستوں کی کثرت سے کپڑے بھی آلودہوجاتے اورانھیں دھونا پڑتاتھا ،حضرت نانوتویؒ کے خدام نے کپڑوں کا دھونا اپنے ذمہ لینا چاہا؛مگرحضرت (شیخ الہند)اجازت نہیں دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ یہ میرا حق ہے، اسے تلف مت کرو،چنانچہ خود کپڑے دھوتے تھے۔

اسی زمانہ میں ایک دفعہ دست چارپائی پر خطا ہوگیا ،اس وقت نانوتویؒ بھی موجودنہ تھے ،حضرت شیخ الہند موجودتھے اورصورت ایسی ہوگئی کہ نجاست اٹھانے کے لئے ظرف بھی نہ تھا اورحضرت شیخ نے بے تکلف ساری نجاست اپنے ہاتھو ں اورہتھیلیوں میں لے لی اورسمیٹنی شروع کردی ،تمام ہاتھ گندی میں آلودہی نہ تھے ؛بلکہ ہاتھوں میں نجاست لبریزی کے ساتھ بھری ہوئی تھی ،حضرت نانوتویؒ پہنچ گئے اوردیکھاکہ حضرت شیخ الہند کے دونوں ہاتھ نجاست اورموا دسے بھرپورہیں اوروہ اسے سمیٹ سمیٹ کر باربار باہرجاتے ہیں اورپھینک پھینک کر آتے ہیں ،اس پر حضرت نانوتویؒ بہت متاثرہوئے اوروہیں کھڑے کھڑے ہاتھ دعاکے لئے اٹھائے اورعرض کیا کہ: خداوندا!”محمودکے ہاتھوں کی لاج رکھ لے“ اوراس خاص وقت میں جوجوبھی اپنے اس محبوب تلمیذ کے لئے مانگ سکتے تھے، ہاتھ اٹھائے مانگتے رہے ،اس قبولیت اوردل سے نکلی ہوئی دعاؤوں نے کیا کچھ اثرنہ دکھایاہوگ۔ (پچاس مثالی شخصیات : ۷۳)

ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت نانوتویؒ اپنے تلمیذ رشید مولانامحمودحسن کو ہراعتبار سے بنا،سنوارکر شیخ الہند بنا نا چاہتے تھے اوراس کے لئے ہرممکن کوشش ا وردعائیں فرماتے تھے۔

دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات اورمسندِصدارت

۱۲۹۱ھ میں دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس تقررہوا ،ابتداءاً عربی چہارم تک کی کتب متعلق کی گئیں،تین سال بعدھدایہ ، مشکوة المصابیح اورجامع ترمذی وغیرہ متعلق کی گئیں،۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۰ءحضرت شیخ الہند ؒ صدرالمدرسین اورشیخ الحدیث کے عہدہ پرفائزہوئے،حضرت شیخ الہندؒ دارالعلوم دیوبندسے چوالیس سال وابستہ رہے اورپچیس سال عہدہ صدارت پرفائزرہے،آپ کی زبردست علمی شخصیت کے باعث دارالعلوم میںطلباءکی تعداد دوسو سے بڑھ کر چھے سو تک پہنچ گئی ،آپ کے زمانہ میں آٹھ سو ساٹھ طلبہ نے دورئہ حدیث سے فراغت حاصل کی ۔ (تاریخ دارالعلوم ۱۸۰/۲)

درس ِحدیث کا انداز

مولانا اصغرحسین صاحب تحریرفرماتے ہیں

آپ کے حلقہءدرس کو دیکھ کر سلفِ صالحین واکابرمحدثین کے حلقہ ءحدیث کا نقشہ نگاہوں میں پھرجاتاتھا ،قرآن وحدیث حضرت کی زبان پرتھا،ائمہ اربعہ کے مذاہب ازبر،صحابہ وتابعین ،فقہاءاورمجتہدین کے اقوال محفوظ ،تقریرمیں نہ گردن کی رگیں پھولتی تھیں ،نہ منہ میں کف آتاتھا ،نہ مغلق الفاظ سے تقریرکو جامع الغموض اوربھدی بناتے تھے ،نہایت سبک اورسہل الفاظ بامحاورہ اردومیں اس روانی وجوش سے تقریرفرماتے کہ معلوم ہوتا تھاکہ دریا امڈرہاہے۔

کچھ مبالغہ نہیں ہے، ہزاروں دیکھنے والے موجودہیں کہ وہی منحنی اورمنکسرالمزاج ایک مشت استخواں،ضعیف الجثہ مردخداجونمازکی صفوں میں ایک معمولی مسکین طالب علم معلوم ہوتاتھا ،مسنددرس پرتقریرکے وقت یوں معلوم ہوتاتھاکہ ایک شیرِخداہے جوقوت وشوکت کے ساتھ حق کا اعلان کررہاہے ،آواز میں کرختگی آمیز بلندی نہ تھی ؛لیکن مدرسہ کے دروازے تک بے تکلف قابل فہم آواز آتی تھی،لہجے میں تصنع اوربناوٹ کا نام نہ تھا؛لیکن خداتعالیٰ نے تقریرمیں اثردیاتھا،بات دل نشیں ہوجاتی تھی اوسننے والابھی یہ سمجھ کراٹھتاتاکہ وہ جوفرمارہے ہیں حق ہے۔

ائمہ اربعہ کے مذاہب برحق

مسائل مختلف فیہا ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ؛ بلکہ دیگرمجتہدین کے مذاہب بھی بیان فرماتے اورمختصرطورسے دلائل نقل کرتے؛ لیکن جب امام ابوحنیفہؒ کانمبر آتا،تومولانا کے قلب میں انشراح ،چہرے پر بشاشت ،تقریرمیں روانی ،لہجے میں جوش پیداہوجاتاتھا،دلیل پردلیل شاہدپرشاہد ،قرینہ پرقرینہ بیان کرتے چلے جاتے ،تقریررکتی ہی نہیں تھی اوراس خوبی سے مذہب امام اعظم کوترجیح دیتے تھے کہ سلیم الطبع اورمنصف مزاج لوٹ جاتے تھے۔

بہ ایں ہمہ ائمہ اسلام کاادب واحترام اوران کے کمالات کا اعتراف، حضرت کی تعلیم کاایک جزءلاینفک تھا،خودبھی ایسی ہی تقریرفرماتے اورصراحت سے ذہن نشین کراتے کہ مذاہب مجہتدین حق ہیں، وہ سب مستدل بالکتاب والسنة ،ان کی تنقیص موجب بدبختی اورسوئے ادب باعث خسران ہے“ ۔ (تاریخ دارالعلوم۱۸۰/۲)

مولانا مناظراحسن گیلانی تحریرفرماتے ہیں

شیخ الہندشیخ الکل کی حیثیت رکھتے تھے ،درسگاہ میں مختصرتقریرفرماتے ؛مگرعظمت کا حال یہ تھاکہ جس دن بخاری کا پہلا سبق اس سال (جس سال مولانا گیلانی دورئہ حدیث میں تھے) پڑھایا،تو دارالعلوم کے تمام اساتذہ بھی طلبہ کے ساتھ شریک ہوئے تھے،مولانا کشمیری بھی شریک درس ہوئے ان اساتذہ نے درس میں سوالات بھی کئے اورشیخ الہندنے ان کے جوابات بھی دئے۔

ایک دوسری جگہ تحریرفرماتے ہیں

نسائی شریف اس سال حضرت مولاناحسین احمدمدنی نے پڑھائی ،آپ کا قیام اس زمانہ میں مدینہ منورہ میں تھا ،اتفاق سے تشریف لے آئے، نسائی ان کے یہاں کردی گئی ،ایک طرف طلبہ کو نسائی پڑھاتے تھے اوردوسری طرف بخاری شریف کے درس میں باضابطہ شیخ الہند کے یہاں شریک ہوتے تھے اورعبارت خوانی کی ذمہ داری بھی اپنے سرلے لی تھی ،استاذ وشاگردمیں سوال وجواب بھی ہوتاتھا ۔(حضرت شیخ الہند حیات وکارنامے : ۳۲۰)

نوٹ: یہ اس زمانہ کی بات ہے جبکہ علامہ کشمیری دارالعلوم کے صدرالمدرسین اور حضر ت مدنی مسجدنبوی کے محدث کبیر تھے ۔

رجال سازی

حضرت شیخ الہندکی ذات گرامی فضائل وکمالات کی جامع تھی ،بالخصوص علمی تحقیق وتنقید آپ کا جوہرخاص تھا ،مطالعہ وسیع اورذہانت بے مثال تھی، طلبہ کے دل ودماغ پرآپ کی شخصیت کے فضل وکمال کی اتنی گہری چھاپ پڑتی تھی کہ جوں جوں طالب علم کا مطالعہ بڑھتاتھا،شیخ الہند کی عقیدت اس کی دل میں چھاجاتی تھی اوراس سانچہ میں ڈھلتاچلاجاتاتھاجیسے شیخ الہندڈھالنا چاہتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ وہ تمام اکابرجن کو شیخ الہند سے شرف تلمذ حاصل تھا، وہ سب اپنے استاذ کے علمی احسانات کا اعتراف کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ انہیں جو کچھ ملاہے ،وہ استاذ کا فیض ہے ۔( حیات وکارنامے : ۹۰)

استاذ کے فضل وکمال ،عظمت وہمہ گیری ،علم وفن کی گہرائی وگیرائی اوروسعتوں کا اندازہ اس کے تلامذہ سے ہوتاہے ،حضرت شیخ الہندؒ دارالعلوم دیوبندسے ایک طویل عرصہ وابستہ رہے اورپچیس سال عہدہ صدارت پرفائزرہے، اس طویل مدت میں حضرت نے کتنے ذروں کو آفتاب وماہتاب بناکر آسمانِ شہرت وعظمت پرچمکایاانھوں نے پورے عالم اسلام کو متاثرکیا ،تن تنہاشیخ الہندکے شاگردوں نے اپنے علم وفن کے جوشاندارنقوش قائم کئے ہیں ،وہ علمی تاریخ کے ان منٹ نقوش ہیں ۔(حیات وخدمات : ۱۲۲)

شیخ الہند نے ایسی عظیم شخصیتیں پیداکیں کہ ان کے دورمیں ان کا کوئی نظیرنظرنہیں آتا

آپ نے اپنے حلقہءدرس اورفیضانِ علم سے ایسی عظیم شخصیتیں پیداکیں کہ ان کے دورمیں ان کا کوئی نظیرنظرنہیں آتا ،انھوں نے قرآن وحدیث کی اتنی عظیم خدمات انجام دیں کہ پچھلی صدیوں میں اس کی مثال کم یاب ہے ۔

انھوں نے آپ کے علوم ومعارف کی تبلیغ واشاعت میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ،دارالعلوم دیوبند کی مسندحدیث پر آپ کے بلاواسطہ تلامذہ نے تقریبا پچپن سال حدیث کا درس دیاہے ،علامہ انورشاہ کشمیری سات سال ،شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنی بتیس سال اورخاتم المحدثین حضرت مولانا فخرالدین احمدؒنے پندرہ سال حدیث کا درس دیا اورتحقیق وتدقیق کا معیارقائم فرمایا،ان اکابرعلماءومحدثین عظام سے ہزاروں محدثین پیداہوئے جو ہندوپاک اور عرب وعجم میں پھیل کر حدیث شریف کی تدریسی ،تصنیفی اورتحقیقی خدمات انجام دیں اورعلمی دنیا میں علماءدیوبند کا سربلندکیا ،ان تمام خدمات کا سہرہ واسطہ بلاواسطہ حضرت شیخ الہند ؒ ہی کے سرجاتاہے ۔

تصنیف وتالیف

ابوداؤد ، مختصرالمعانی پر قیمتی حواشی تحریرفرمائے ہیں ،نیز ایضاح الادلہ ، الابواب والتراجم ،تقریرترمذی آپ کی اعلی ذکاوت ِعلمی کا نمونہ ہیں ،اس سلسلہ کی آخری کڑی قرآن پاک وہ الہامی ترجمہ ہے جس کو باتفاق علمائے دیوبند بے نظیر اورسب سے مستند تسلیم کیا جاتاہے۔(علماءحق ۷۸/۱)

تلامذہ

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ،علامہ سیدانورشاہ کشمیری ،شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنی ،مہتمم دارالعلوم دیوبند مولاناحبیب الرحمن عثمانی ،شارح مسلم حضرت مولانا شبیراحمدعثمانی ،مفتی ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی ،مفتی اعظم مفتی عزیزالرحمن عثمانی دیوبندی ،امام المعقول والمنقول علامہ ابراہیم بلیاوی ،فخرالمحدثین علامہ فخرالدین احمدمرادابادی ،شیخ الادب مولانااعزاز علی امروہی اورمولانا مناظراحسن گیلانی وغیرہ ہیں،یہ وہ اکابرہیں جن کا خاص تعلق علمی دنیاسے ہے، ان کی پہچان اسی سے ہے،یہ علماءواساطینِ امت علم وفضل ،تفسیر،حدیث،فقہ اسلامی ،حکمت وفلسفہ ،قومی وملی خدمات اورسیاسی تدابیرمیں اپنے استاذ کی جانشینی کی ہے ۔

وفات

۱۸/ربیع الاول ۱۳۳۹ مطابق ۳۰/نومبر ۱۹۲۰ دہلی میں آپ کی وفات ہوئی ،آپ کے جسدخاکی دیوبندلایاگیا او رقبرستان قاسمی میں آسودہ خواب ہیں ۔ طالب دعا: عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہد ی بنگلور