مسجداقصی

مسجداقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اوراسلام کا حرم ثالث ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد سولہ سترہ مہینے اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے ،ہزاروں انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کا ،مبعث ،مسکن ،مدفن اور ارضِ محشر ہے ،دنیوی اعتبارسے سرسبزوشاداب باغات، عمدہ چشموں ،نہروں اورپیداوارکی کثرت کی وجہ سے یہ خطہءزمین دیگرخطوں سے ممتاز ہے،یہ تاریخی مسجد ارض فلسطین شہر”قدس“ (یروشلم ) میں واقع ہے ،جو۱۳۸۷؁ھ م ۱۹۶۷؁ءسے غاصب یہودیوں کے قبضہ میں ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ اس کویہود کے ناپاک قبضہ سے آزادفرمائے ۔

اللہ تعالی کا ارشادہے

سبحن الذی اسری بعبدہ لیلامن المسجدالحرام الی المسجدالاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من ٰایتنا،انہ ھوالسمیع البصیر۔(الاسراء:۱)

وہ ذات پاک ہے جواپنے بندہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو شب کے وقت مسجدحرام سے مسجداقصی تک جس کے آس پاس ہم نے (دینی ودنیوی برکتیں)رکھی ہیں لے گیاتاکہ ہم ان کو کچھ عجائباتِ قدرت دکھلاویں ،بے شک اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے اور بڑے دیکھنے والے ہیں ۔(معارف القرآن ۴۲۵/۵)

ہمارے آقا جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شب ِمعراج میں مسجداقصی میں لے جایا گیا ،آپ علیہ السلام نے اپنے براق کو دروازہ کے قریب باندھا اورمسجد میں داخل ہوکر تحیة المسجد کی دورکعت نماز ادافرمائی اور تمام انبیاءعلیہم السلام سے ملاقات فرمائی،پھرزینے کے ذریعے ساتوں آسمان پر تشریف لے گئے ۔

مسجدحرام کےچالیس بعد مسجداقصی کی بنیاد

ابوذرغفاریؓ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد کونسی ہے ؟آپ علیہ السلام نے فرمایا : مسجد حرام ،پھرمیں نے عرض کیا :اس کے بعد کونسی ہے ؟ فرمایا : مسجد اقصی ،میں نے عرض کیا: ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے ؟آپ نے فرمایا: چالیس سال کا،پھرآپ نے فرمایا: (مسجدوں کی ترتیب یہی ہے؛ لیکن )اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ساری زمین کو مسجدبنادیا ہے، جس جگہ نماز کا وقت آجائے، وہیں نماز اداکرلیاکرو۔( متفق علیہ بخاری۴۷۷/۱رقم: ۳۳۶۶)

حافظ ابن حجرؒنے اس حدیث پر مفصل کلام فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:ممکن ہے کہ حضرت سلیما ن علیہ السلام مسجد اقصی کے موسس وبانی نہ ہوں؛بلکہ آپ سے پہلے کسی نے اس کی بنیادڈالی ہو اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید،ازسرنوتعمیر اورتزئین فرمائی ہو ،یہی رائے حافظ ابن جوزی اور علامہ قرطبی کی ہے ۔(فتح الباری ۵۰۴/۶)

مسجداقصی میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی زیادہ ہے ، حضر ت ابوالدرداءؓ کی روایت کے مطابق ایک نماز کا ثواب پانچ سو نمازوں کے برابرہے۔(مجمع الزوائد قال الہیثمی ھذا حدیث حسن::۵۸۷۳)

حضرت میمونہ ؓ کی روایت کے مطابق ایک نماز کاثواب ہزارنمازوں کے برابرہے۔(مجمع الزوائد :۵۸۷۲قال الہیثمی رجالہ ثقات)

ایک روایت کے مطابق بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا ثواب پچیس ہزارنمازوں کے برابرہے۔ (تحفہ اللالمعی ۱۴۵/۲بحوالہ وفاءالوفاء)

حضر ت ام سلمہ ؓفرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : آپ نے فرمایا

حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا

من اھل بحج اوعمرة من المسجدالاقصی الی المسجدالحرام ،غفرلہ ماتقدم من ذنبہ، وماتاخر اووجبت لہ الجنة۔ (ابوداؤد کتاب المناسک،۲۴۳/۱ رقم: ۱۷۴۱)

جو آدمی مسجداقصی سے مسجدحرام تک حج یا عمر ہ کا احرام باندھ کر آئے ، اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں یا اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓسے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر مکمل فرمائی ،توتین دعائیں کیں ،پہلی دعاء: اے اللہ مجھے اس طرح فیصلہ کرنے کی توفیق عطافرما جو تیرے منشاء کے موافق ہو،یہ دعاءقبول ہوئی ،اے اللہ !مجھے ایسی بادشاہت عطافرماجومیرے بعد کسی کو نصیب نہ ہو،یہ دعاءبھی قبول کی گئی ۔

تیسری دعاء: اے اللہ !جوشخص مسجد اقصی صرف نماز پڑھنے کے لیے حاضرہو،اس کو گناہوں سے اس طرح معاف وصاف کردیجئے جیسے اس کی ماں کے پیٹ سے پیداہونے کے دن گناہوں سے پاک وصاف تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ابتدائی دودعائیں قبول ہوگئیں ،(اللہ کے فضل وکرم اورحضرت سلیمان علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کی عظمت شان کی وجہ سے )امیدکہ تیسری دعاءبھی قبول ہوجائے ۔(رواہ النسائی وغیرہ: فضل المسجدالاقصی والصلاة فیہ : ۶۹۳،وابن ماجہ باب ماجاءفی الصلوة فی مسجد بیت المقدس : ۱۴۰۸)

حضرت میمونہ ؓآپ کی آزادکردہ باندی سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ ! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتائے ،آپ نے فرمایا

اتواہ ،فصلوا فیہ ، فان لم تاتو ہ،تصلوافیہ ،فابعثوا بزیث یسرج فی قنادیلہ۔(رواہ ابوداؤدباب فی السرج فی المسجد:۴۵۷)

بیت المقدس میں جاکرنماز پڑھاکرو ،اگروہاں پہنچ کر نماز نہ پڑھ سکو ،تو اس کی قندیلوں میں جلنے کے لیے تیل بھیجاکرو ۔

حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت

ابن تیمیہ ؒ تحریرفرماتے ہیں:ارض شام ہی میں مسجد اقصی ہے ،یہیں انبیائے بنی اسرائیل کی بعثت ہوئی ،اسی کی طرف حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کی ،اسی کی طرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ وقت شب سفرکرایاگیااوریہیں سے آپ کی معراج ہوئی اوریہیں آپ کی سلطنت برپاہوگی اورآپ کے دین وکتاب کا دارومدارہوگا اوریہیں آپ کی امت کی جماعت منصورہ پائی جائے گی اوریہیں محشرومعادروبہ عمل آئے گا ۔

جیساکہ مکہ جائے ابتداہے کہ وہ ام القری ہے ،اسی کے نیچے سے زمین کو پھیلایا گیا ،جب کہ لوگوں کا حشر،ارضِ شام میں ہوگا ،چنانچہ ارشادباری ہے لاول الحشر جس سے حشرثانی کی غمازی ہوتی ہے ،لہذا مکہ جائے آغاز اورایلیا (بیت المقدس) خلق وامر دونوں حوالوں سے جائے انجام ومعادہے ،اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ سے ایلیا (بیت المقدس ) کا سفرکرایاگیا اورمکہ ہی میں آپ کی بعثت ہوئی اورآپ کے دین کا ظہور ہوا؛لیکن مہدی سلطنت کے بپاہونے تک آپ کے دین کا عروج وظہور اوراس کی تکمیل ملک شام ہی میں ہوگی ،توخلق وامر کے تعلق سے مکہ اول اورملک شام آخر ہے اوریہ تکوینی ودینی حقائق کی باتیں ہیں ۔(فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظارمیں،مولانا نورعالم خلیل امینی رحمہ اللہ بحوالہ فتاوی ابن تیمیہ : ۲۶)